سانحہ قصور اور قصوروار کون
شیئر کریں
پنجاب کے شہر قصور میں حوا کی مزید ایک بیٹی درندگی کی بھینٹ چڑھ گئی۔ زیادتی کے بعد قتل اور قاتل کا حوصلہ دیکھیے کہ مقتولہ کی نعش اس کے گھر کے قریب پھینک گیا اور قانون کو کانوں کان خبر نہ ہوسکی۔ اور ہوتی بھی کیسے کہ جب خادم اعلیٰ شہر اقتدار ہی نہیں اپنے ذاتی محل کے پڑوس میں دن دیہاڑے ہونے والے قتل عام سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے بے گناہی کا دعویٰ دار ہو تو اس کی ماتحت پولیس کو معصوم زینب کے قاتل کیوں کے نظر آتے، خادم اعلی کوٰ ایوان اقتدار میں قیام پذیر ہوئے 10سال کا عرصہ ہونے کو آیا اور جب ماڈل ٹاؤن میں پولیس گردی جاری تھی اور جو تقریبا ہر ٹی وی چینل پر جس کی لائف کوریج ہورہی تھی، وزیر اعلیٰ وزیر داخلہ اور وزیر قانون کو وہ سب کچھ نظر نہیں آرہا تھا اس وقت بھی خادم اعلیٰ کو ایوان اقتدار کے موجودہ دور کو 6سال سے زائد عرصہ گزر چکا تھا لیکن انہیں ناک کے نیچے بہتا لہو نظر نہیں آرہا تھایہ اور یہ صرف چھوٹے میاں صاحب کی بات نہیں 1993-1990 جب بڑے میاں صاحب وزیر اعظم تھے اور 1992میں کراچی میں آپریشن شروع ہوا تھا جو طویل عرصہ جاری رہا اس دوران ہی 1993میں جب عبدالوحید کاکڑ فارمولے کے تحت میاں نواز شریف اور غلام اسحاق خان اپنے اپنے گھر روانہ ہوئے تھے اور میاں نواز شریف 1993کی انتخابی مہم سے پہلے کراچی تشریف لائے تھے جہاں وہ ایم کیو ایم کے مرکز میں حاضری بھرنے گئے تھے تو اس وقت بھی بڑے میاں صاحب نے اخباری نمائندوں سے گفتگو کے دوران فرمایا تھا کہ کراچی آپریشن کا انہیں علم نہیں تھا گویا وزیر اعظم کے منصب پر تقریبا 3سال کے عرصہ تک فائز رھنے والا شخص یا تو فی الواقع اس اپریشن سے لاعلم تھا یا کراچی کا مینڈیٹ کو آئندہ ایوان اقتدار میں داخلے کے لیے زینہ بنانے کے لیے غلط بیانی سے کام لے رہا تھا لیکن ہر دو صورت میں خود کو وزارت اعظمی سمیت ہر منصب کے لیے ناایل ثابت کر رہا تھا کہ ملک کے اندر ہونے والے واقعات سے لاعلم یا لا علمی کا جھوٹ بولنے والا ہردو صورت میں کسی بھی منصب کا اہل نہیں رہتایہ دوسری بات کے چھوٹے بڑے دونوں میاں صاحبان کو خود کو عمر ثانی کہلانے کا بڑا شوق ہے۔ لیکن امیر المومنین عمر بن خطابؓ کے کردار کی ایک جھلک بھی خود میں لانا گوارہ نہیں۔
زینب کا قتل نہ تو اس سلسلہ کا پہلا قتل ہے نہ ہی آخری۔ حوا کی بیٹیاں یوں ہی قتل ہوتی رہیں گی شیطان کے پیروکاریوں ہی خوف و درندگی کی علامت بنے رہیں گے۔ یہ صرف پاکستان نہیں پوری دنیا کا المیہ ہے دنیا میں کوئی ملک اور شہر ایسا نہیں جہاں اس قسم کے واقعات نہ ہوتے ہوں۔ پاکستان میں بھی زیادتی کا شکار ہونے والی ہر بچی قتل نہیں ہوتی۔ بلکہ ایسا صرف ان معاملات میں ہوتا ہے جہاں درندہ زیادتی کا شکار ہونے والی کا قریبی واقف کار ہوتا ہے اور اسے شناخت کا خوف اور گرفتاری کا اندیشہ ہوتا ہے یوں وہ شناخت چھپانے اور ثبوت مٹانے کے لیے قتل کا قبیح فعل کر گزرتا ہے اور ایک کے بعد دوسرے جرم کا مرتکب ہوجانا ہے۔
خواتین کے ساتھ زیادتی میں بھارت کو اول مقام حاصل ہے دہلی دنیا بھر میں ریپ سٹی کے طور پر جانے جاتا ہے جہاں ملکی ہی نہیں سیاح خواتین بھی محفوظ نہیں چلتی گاڑیوں میں زیادتی اور قتل کے واقعات روزمرہ کا معمول ہے اور اکثر ممالک میں اپنے سیاحوں اور سفارتی عملے کو واضح ہدایت دیں ہیں کہ دہلی ہی نہیں ہندوستان میں خواتین سفر کے دوران جنسی زیادتی سے بچنے کے لیے خود کو تیار رکھیں اور سفارتی عملے کے اہل خانہ گارڈز کے بغیر بازاروں میں نہ جائیںْ۔ْْْْْْْْ انسانی حقوق کی ایک تنظیم کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں بھی2017میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے1475واقعات ہوئے یہ اعداد و شمار پورے ملک کے ہیں جن میں سے70فی صد واقعات خادم اعلیٰ کے صوبے میں ہوتے ہیں، خادم اعلیٰ کے صوبے کا کونسا شہر ہے جہاں خواتین اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کا واقعہ نہ ہوئے ہوں ہر واقعے کے بعد خادم اعلیٰ ایک عرصہ تک واقعے پر ردعمل کا انتظار کرتے ہیں۔ جیسا رد عمل سامنے آتا ہے اس کے مطابق عمل کرتے ہیں سانحہ قصور میں ردعمل توقع کے برخلاف اور بہت شدید آیا۔ لیکن معاملہ حل کرنے کے بجائے فرعونیت کا مظاہرہ کیا گیا۔ سانحہ ماڈل ٹاون سے سبق سیکھنے کے بجائے اسے دھرانے کی کوشش کی گئی، کیا پولیس اتنی بے لگام ہوچکی ہے کہ وہ قتل عام کرتی رہے۔ قصور میں بھی اس ہی درندگی کا مظاہرہ کیا گیا زینب کے ساتھ زیادتی اور قتل کے بعد ہونے والے ردعمل پر جس طرح طاقت کا مظاہرہ کیا گیا اس نے جلتی پر پیٹرول کا کام کیا۔ دو افراد بھی جان سے گئے خادم اعلیٰ نے انسانی جانوں کی قیمت مقرر کر رکھی ہے کیا انسانی جان کی قیمت مقرر کی جاسکتی ہے؟َ
انسانی حقوق کی جس تنظیم نے یہ اعداد وشمار جاری کیے ہیں وہ تنظیم ہی اس سانحات کے اسباب کی ذمے دار ہے۔ انسان حق کے نام پر مجرموں کو تحفظ فراہم کرنا اس کے منشور کا حصہ ہے۔ زیادتی کا شکار ہونے والی بچیوں اور خواتین کے حقوق پامال ہوتے ہیں تو یہ خاموش رہتی ہے، لیکن مجرموں کو عبرت کا نشانہ بنائے جانے پر انہیں انسانی حقوق یاد آجاتے ہیں۔ اللہ کا نازل کردہ نظام انہیں ظالمانہ اور سفاکانہ نظر آتا ہے حدود اللہ انہیں ظالمانہ نظر آتے ہیں۔ ان کی نظر میں قاتل کو جینے کا حق ہے لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ مقتول بھی ایک انسان تھا زندہ رہنے کا حق ایسے بھی حاصل تھا اس کی زندگی بھی قیمتی تھی۔
حدود اللہ مغرب اور امریکا کوظالمانہ نظر آتی ہیں کہ وہ انسان کو حیوانگی کے درجہ سے دور کرتی ہیں قصاص ان کی نظر میں انسانیت کی توہین ہے ۔ دیت ظالمانہ ہے لیکن جب ان کی اپنی گردن پھنستی ہے تو حدود اللہ کا سہارا لیا جاتا ہے ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ سب کے سامنے ہے۔ ریمنڈ ڈیوس امریکا کے لیے کتنا اہم تھا کہ اس نے اس کے لیے تمام حدود پھلانگ لیں۔ سفارت کار کا درجہ دلانے اور سفارتی رعایت حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد ان ” ظالمانہ قوانین”کا سہارا لیا گیا۔ میں یہاں اس واقعہ کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ اس سے ہر فرد واقف ہے۔ اس کے ہاتھوں قتل ہونے والے کون تھے کیا زندہ رہنا اور اس وطن کی خدمت کرنا ان کا حق نہیں تھا لیکن خادم اعلی کے صوبے میں ہی نہیں تخت لاہور میں بہنے والا یہ خون ناحق ضائع کردیا گیا اس سارے سانحہ کا الم ناک اور شرم ناک پہلو یہ ہے کہ ان مقتولین میں سے ایک کی بیوہ نے انصاف نہ ملنے پر مایوسی کے عالم میں خودکشی کرلی کیا خادم اعلی جواب دیں گے کہ اس خود کشی کا ذمہ دار کون ہے؟
گذشتہ روز خادم اعلی نے ایک پریس کانفرنس میں زینب کے مبینہ قاتل کی گرفتاری کا اعلان کیا یہ پریس کانفرنس خادم اعلی کی خود نمائی کے سوا کیا تھی؟ سرکاری اہلکار یوں تالیاں بجا رہے تھے جیسے خادم اعلی کشمیر یا دہلی فتح کرنے کا اعلان کر رہے ہوں ،معاملہ یہ نہیں ہے کہ مبینہ قاتل گرفتار کرلیا گیا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ بات بات پر نام بدلنے کے دعویدار اور اپنے علاوہ سب کو جھوٹا قرار دینے والے خادم اعلی کے صوبہ میں یہ کیا ہورہا ہے صورت حال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے دیے گئے 72گھنٹہ کا وقت مکمل ہونے اور مبینہ قاتل کی عدم گرفتاری کی صورت میں خادم اعلی کو اپنے ہاتھوں میں لگنے والی ہتھکڑیاں نظر آرہی تھیں ان حالات میں کسی نہ کسی کو بلی کا بکرا تو بنانا ضروری تھا۔اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ مبینہ قاتل عمران کی گرفتاری کے اعلان کے لیے کی گئی پریس کانفرنس میں وزیر اعلی تو خوب بولے اور اپنے ساتھ معصوم زینب کے والد کوبٹھانا بھی نہیں بھولے لیکن جب زینب کے والد نے بولنے کی کوشش کی تو خادم اعلی نے خود ہاتھ بڑھا کر مائیک بند کردیے کہ کہیں زینب کے والد وہ نہ بول جائیں جو سننا خادم اعلی کو پسند نہ ہو۔
صرف قصور میں مختصر عرصہ میں 7بچیاں جنونی درندے کی ہوس کا شکار ہو کر زندگی کی بازی ہار چکیں، ہوناتو یہ چاہیے تھا کہ پہلے واقعے کے بعد ہی ملزم گرفتار کرلیا جاتا اور چند دن میں فیصلہ سنا کر قصور کے مرکزی چوک پر اس کو لٹکا کر عبرت کا نشان بنادیا جاتا، اب بھی کیا ثبوت ہے کہ گرفتار ملزم ہی اصل ملزم ہے پولیس کا تو حال یہ ہے کہ اگر ہاتھی بھی اس کی تحویل میں آجائے تو وہ خود کو چوہا تسلیم کرنے پر "آمادہ”ہو جاتا ہے عمران تو ایک جیتا جاگتا انسان ہے اور پھر عمران سے نفرت تو "شریف خاندان "کے شامل باجا بھی "عمران”کو مجرم ثابت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
سانحہ قصور کے اصل ذمہ دار وہ ہیں جو اللہ کے قانون کو امریکا کی خوش نودی کے لیے ظالمانہ اور انسانیت کے خلاف جانتے ہیں اور انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو رب کے بتائے ہوئے قوانین پر ترجیح دیتے ہیں۔
پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا اور پاکستان میں اسلامی شریعت قانون کو نافذ کرنے کا وعدہ کر کے اس سے منحرف ہوجانے اور اللہ سے جنگ کو جاری رکھنے والے اس سانحہ کے اصل ذمہ دار ہیں مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں لاہور ہی میں بچوں کے اغواہ کی چند وارداتیں ہوئی تھیں جس کے بعد گرفتار ہونے والے مجرموں کو دنیا بھر کے دباؤ کے باوجود سرعام پھانسی دی گئیں تھیں جس کے بعد کسی میں حوصلہ نہیں تھا کہ وہ سر راہ چلتے بچوں کی طرف نظر آٹھا کر بھی دیکھنے کی ہمت کرتا۔
اسلام کے قوانین میں بیان کردہ سزا ئیں اذیت نہیں عبرت کے لیے ہیں اور ان قوانین کے نفاذ میں حائل قوتیں ہی زینب اور اس جیس بچیوں کے اصل قاتل ہیں۔
***