بلوچستان حکومت دہشت گردی ختم کرنے میں سنجیدہ نہیں، سپریم کورٹ
شیئر کریں
سپریم کورٹ نے سانحہ کوئٹہ ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ بلوچستان حکومت دہشت گردی ختم کرنے میں سنجیدہ نہیں لگتی۔ پیر کو سپریم کورٹ میں سانحہ کوئٹہ ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی۔ جسٹس دوست محمد خان نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت دہشت گردی ختم کرنے میں سنجیدہ نہیں لگتی، قانون سازوں کو آئین بھی پڑھا دیں، شہریوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے، ہائی کورٹ نے 2012 میں فرانزک لیب کے قیام کی ہدایت کی تھی۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ایک جج نے سانحہ کوئٹہ کے ملزمان کو ٹریس کیا ٗ ہر سانحہ پر تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ جج فراہم نہیں کر سکتی، تحقیقات پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے، فرانزک لیب کے لیے مختص کروڑوں روپے ہضم ہوگئے۔جسٹس دوست محمد نے کہا کہ کمیشن سفارشات پر عملدرآمد نہ ہونا بھی جرم ہے ٗسترہ سال سے دھماکے ہو رہے ہیں ٗصوبائی حکومت سوئی رہی، ہر بجٹ میں پانچ ملین بھی لگاتے تو فرانزک لیب تیار ہوچکی ہوتی۔اس موقع پر جسٹس آصف کھوسہ نے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کی کارکردگی پر بھی سوال اُٹھاتے ہوئے کہا کہ آپ کو تو رپورٹ پڑھنا بھی نہیں آرہی، اس پر عملدرآمد کیا ہوگا۔دریں اثناء پیر کو سپریم کورٹ میں سی ڈی اے قوانین میں عدم مطابقت سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس کے سلسلے میں وزیر کیڈ طارق فضل چودھری عدالت میں پیش ہوئے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے طارق فضل چودھری سے استفسار کیا، بتائیں یہ سارے معاملات ٹھیک کرنے میں کتنا وقت لگے گا؟ اس پر طارق فضل نے استدعا کی کہ معاملات ٹھیک کرنے کے لیے 3ماہ کی مہلت دے دیں۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ سی ڈی اے قوانین میں عدم مطابقت ہے ٗ بہت سے معاملات میں قواعد و ضوابط تک نہیں بنائے گئے۔چیف جسٹس پاکستان نے وزارت کیڈ کوسی ڈی اے قوانین میں یکسانیت سے متعلق قانون سازی کے لیے 2 ماہ کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ دن رات مخلص انداز سے کام کریں۔چیف جسٹس نے طارق فضل چودھری سے استفسار کیا کہ پوری دنیا میں قانون سازی کس کی ذمہ داری ہوتی ہے؟ اس پر وزیر مملکت نے جواب دیا کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا کام ہوتا ہے۔معزز چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ پارلیمنٹ نے کیا اصلاحات متعارف کرائی ہیں؟ عدالتی نظام میں ہم اصلاحات لے کر آئیں گے، عدلیہ میں بھی ایک ہفتے میں اصلاحات شروع ہوجائیں گی ٗ ویسے یہ ہمارا کام نہیں، ہمارے اصلاحات لانے پر پھر کوئی یہ نہ کہے کہ ہم مداخلت اور تجاوز کر رہے ہیں۔