سیاستداں ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر سوچیں
شیئر کریں
سپریم کورٹ سے نااہل قرار دیئے گئے وزیراعظم نواز شریف کے ترجمان نے عالمی اور مقامی ذرائع ابلاغ پر نشر ہونی والی قیاس آرائیوں کو حقیقت کے منافی قرار دے دیا جس میں کہا گیا ہے کہ نوازشریف احتساب کیعمل سے بچنے کے لیے سعوی عرب کی مدد سے ممکنہ طور پر نئے قومی مصالحت آرڈیننس (این آر او) کرنے جارہے ہیں۔ترجمان نے کہا کہ نواز شریف بطور سیاسی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے سعوی عرب میں شاہی خاندان سے ملاقات کے لیے گئے ہیں تاہم اخبارات پر شائع ہونے والی این آر او سے متعلق قیاس آرائیوں کی کوئی حقیقت نہیں۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مسلم لیگ (ن) پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ‘نواز شریف کے شاہی خاندان سے تعلقات کی بنیاد ذاتی مفاد میں نہیں بلکہ ملکی مفاد میں رہی ہیں’۔انہوں نے واضح کیا کہ ‘نواز شریف کی نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں اس لیے اجازت نامے کی باتیں بے معنی ہیں اور شریف خاندان میں اختلاف کی خبریں محض افواہوں کا مجموعہ ہیں’۔ترجمان نے افسوس اور حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کے حوالے سے شائع ہونے والی خبریں مروجہ صحافتی قوانین اور ضابطہ اخلاق کے منافی ہیں، جس میں متعلقہ افراد کا بیان شامل نہیں کیا گیا۔انہوں نے ذرائع ابلاغ سے درخواست کی کہ ‘نواز شریف سے متعلق کسی خبر کو شائع یا نشر کرنے سے پہلے ان کا بیان ضرور شامل کیا جائے’۔دوسری جانب وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی تاریخ و ادبی ورثہ عرفان صدیقی نے سرکاری ٹیلی ویژن پی ٹی وی پر انٹرویو میں کہا کہ ‘نواز شریف کی جلاوطنی پر مشتمل خبریں محض افواہیں ہیں اور وہ ہر قسم کے سیاسی ماحول کا مقابلہ کرنے کے لیے پر عزم ہیںاور پاکستان مسلم لیگ (ن) اگلے اتوار سے بھرپور انتخابی مہم کا آغاز کردے گی’۔دوسری جانب پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما اعتزاز احسن کاکہنا ہے کہ نواز شریف کو سعودی عرب نے نہیں بلایا وہ شہبازشریف کے خوف سے سعودی عرب گئے ہیں۔لاہور ہائی کورٹ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے اعتزاز احسن نے دعویٰ کیا کہ شریف برادران کی آپس میں چپقلش چل رہی ہے، شہباز شریف کہتے ہیں کہ مجھے وزیراعظم بنایا جائے جب کہ ووٹ نواز شریف اور مریم نواز کے ساتھ ہے اور شہباز شریف کے ساتھ نہیں، شہباز ہاتھ پاؤں ماررہے ہیں کہ کوئی انہیں وزیراعظم بنا دے۔اعتزاز احسن نے یہ بھی بتایا کہ شہباز شریف راحیل شریف کے جہاز پر گئے ہیں، انہوں نے کوشش کی ہے کہ یہ تاثر دیا جائے کہ میں فوج اور عدلیہ کا ساتھی ہوں ۔شہباز شریف نے ریاض سے فون کرکے یہ تاثر بھی دیاہے کہ وہ اعلیٰ شخصیات سے ملاقات کررہے ہیں،اعتزاز احسن نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اب سعودی عرب والے بھی شریف خاندان کے لیے کچھ نہیں کرسکیں گے۔
دنیا کی تمام مہذب جمہوری ریاستوں میں فرد اور ریاست کا رشتہ مضبوط ہوتا ہے کیونکہ ریاست و حکومت کی کمٹمنٹ اس نظریہ پر ہوتی ہے کہ ہر شہری کا یہ حق ہے کہ اسے زندگی کی بنیادی سہولتیں اس کی دہلیز پر ملیں جب کہ آمریت میں عوام کے حقوق اور ان کے مطالبات کا کوئی گزر نہیں ہوتا اس لیے جمہوریت اور آمریت کے اسی فرق سے سیاسی و سماجی نظام کی ہیئت ترکیبی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں میں یکسر بدل جاتی ہے اور ہر نئے سال سے وابستہ امیدوں کے نشیمن بھی سنورتے بگڑتے رہتے ہیں۔اس تناظر میں مملکت خداداد پاکستان کی سیاسی تاریخ تجربات کی ایک دہکتی ہوئی بھٹی سے نکلی ہے، صدہا تلخ و شیریں تجربات نے اسے کندن بھی بنایا جب کہ حکومتی ناکامیوں، سول اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کی کشمکش، سیاسی جوڑ توڑ، اشرافیہ کی بالادستی اور انصاف سے محروم طبقات اور عدم مساوات کے باعث جمہوریت کے گل و ثمر قوم کے دامن میں نہیں گرے مگر قوم کی قناعت پسندی اور ملک کی افرادی طاقت کی وطن سے محبت رنگ لائی ، چنانچہ ہزار بحرانوں سے لڑتے بھڑتے اہل وطن آج ایک ایسے موڑ پر پہنچ چکے ہیں جہاں انھیں چہار جانب نت نئے چیلنجز کاسامنا ہے۔ ملک قیادت کے زبردست اور سنگین بحران سے دوچار ہے،اور اس ملک پر گزشتہ 35سال سے کسی نہ کسی صورت حکمرانی کرنے والے خاندان کی لوٹ کھسوٹ آشکارا ہونے کے بعد اب اس خاندان کے سربراہ اپنی لوٹی ہوئی دولت بچانے کے لیے ہاتھ پیر مارنے پر مجبور ہوگئے ہیں ، 2017سے ملکی سیاسی معاشی اور عالمی حالات کا جائزہ ارباب اختیار کے لیے لمحہ فکریہ ہے ، تمام سیاسی جماعتوں کو ان بنیادی سوالات پر غور کرنا چاہیے کہ کل کا پاکستان کیا تھا اور آج ملک کو کیا چیلنجز درپیش ہیں، کیا ملک داخلی استحکام کے مروجہ ، مسلمہ اور مستند معیار پر پورا اترتا ہے، کیا اس ملک کے عوام آسودہ حال ہیں ،کیا ملک کی سیاست رواداری ،وسیع المشربی ، تشدد، ظلم و بربریت سے پاک شفافیت کی چاندنی سے دھلی ہوئی ہے، کیا ملک خطرات سے نکل چکا ہے۔ یہ اور کتنے ہی سلگتے سوالات عوام کو سونے نہیں دیتے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سال رفتہ سویلین اور عسکری قیادت کے مابین کئی حوالوں سے زیر بحث رہا ، پاناما اور دیگر کیسز کے فیصلوں نے عدالتی اور سیاسی تاریخ کے اوراق پلٹ کر رکھ دیے، اس میں سیاسی تناؤ ، غیر معمولی رسہ کشی، محاذ آرائی اور دشنام طرازیوں کی نئی سیاسی لغت تیار ہوئی ، زبان ، لہجے اور دہن تک بگڑے، اسمبلیوں میں سخن گسترانہ اور معیوب باتیں اس شدت کے ساتھ دہرائی گئیں کہ خواتین ارکان کو بھی نہیں بخشا گیا، ٹی وی ٹاکس میں سیاست دان ایک دوسرے سے الجھتے رہے، قانون سازی ہوتی رہی مگر جن ایشوز کا جلد طے پاجانا قومی مفاد میں تھا اس پر بھی مصلحتیں چھائی رہیں، مثلاً فاٹا اور نئی حلقہ بندیوں کے بل اسی زمرے میں آتے ہیں، سیاست گالی ہوکر رہ گئی ہے۔کراچی آپریشن کو حتمی انجام تک پہنچانے کے لیے رینجرز اور پولیس کا عزم پختہ ہے مگر کراچی میںا سٹریٹ کرائمز کا دھندا سال بھر چلتا رہا۔بادی النظر میں قوم نے محسوس کیا کہ جمہوریت وہی کچھ نہیں ہے جس کی ابراہام لنکن نے تعریف متعین کی تھی۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ سال گزشتہ کے دوران پاک فوج نے جمہوری نظام کوبچانے اور جمہوریت کے حوالے سے پاک فوج کومطعون کرنے والے خود غرض عناصر کامنہ بند کرنے کے لیے تمام ممکنہ کوششیں کیں یہاں تک کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے عسکری رفقا سمیت سینیٹ کی ان کیمرہ بریفنگ میں تشریف لائے،ان کی معروضات سب نے سنیں سیاسی اور سفارتی حلقوں نے اسے مستحسن پیش رفت قراردیا، یہ عسکری اور سیاسی قربتوں میں غیر مرئی فاصلوں کو مٹانے کی دور رس ترکیب ثابت ہوئی مگر ڈی جی آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی ایک حالیہ پریس کانفرنس انتہائی اہمیت کی حامل تھی جس میں انھوں نے پاک امریکہ کشیدہ تعلقات، پاکستان کے خلاف یک طرفہ ممکنہ کارروائی کے خدشہ اور ڈو مور کے تقاضوں کا دوٹوک جواب دیا، ساتھ ہی انھوں نے قومی اسمبلی میں سعد رفیق کی تقریر پر گرفت کی اور اسے غیر ذمے دارانہ کہا جس کا سعد رفیق نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ اداروں میںہم آہنگی کے ہمیشہ سے حامی رہے ہیں ان کی تقریرکے چند جملوں سے نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہیے، تاہم اس پریس کانفرنس کا تناظر پورے ملکی سیاسی منظر نامہ پر فوکس کرنے کا باعث بنا۔
اب جب کہ 2018 کا سورج پورے آب وتاب کے ساتھ جلوہ فگن ہو چکا ہے، ملکی سالمیت کو داخلی اور خارجہ خطرات کا سامنا ہے، پاک امریکہ تعلقات تاریخ کی بدترین سطح پر پلٹ آئے ہیں، ٹرمپ نے اپنی ڈو مور کی توپوں کا رخ پاکستان کی طرف کردیا ہے، اور یہاں تک کہہ رہاہے کہ امریکہ نے پاکستان کو گزشتہ 15سال کے دوران 33 ارب ڈالر کی امداد دے کر غلطی کی ، ٹرمپ نے پاکستان پر یہ الزام بھی عاید کیا ہے کہ امریکہ سے 15سال کے دوران 33 ارب ڈالر کی امداد لینے کے باوجود پاکستان نے امریکہ کو جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں دیا ، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا ٹرمپ نے یہ کہہ کر مضحکہ اڑایا ہے کہ پاکستان امریکہ کی بہت ہی تھوڑی مدد کرتاہے اب ایسے نہیں چلے گا ۔دوسری جانب بھارت و افغانستان کی جانب سے بھی پاکستان کے خلاف مخاصمت کاسلسلہ جاری ہے، مشرق وسطیٰ اور خود سعودی عرب میں بھی حالات پہلے جیسے پرسکون نہیں ہیں ایسے میں پورے عالم اسلام کی نگاہ پاکستان پر مرکوز ہے۔ موجودہ صورت حال کا تقاضہ ہے کہ پاکستان کے سیاست دان ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر ملک وقوم اور بحیثیت مجموعی پوری مسلم امہ کے مفادات کے تحفظ کو اپنی منزل بنا کرنئے سفر کی تیاری کریں اورنئے سال کو ’’ الیکشن ایئر‘‘ کے طور پر منانے کا اہتمام کریں۔جمہوری رواداری کا تقاضہ ہے کہ سیاسی جماعتیں وطن عزیز کو سال رفتہ کے عذابوں سے محفوظ رکھیں، ہوش مندی کا ثبوت دیں، ملکی کشتی بھنور میں پھنسی ہے، عالمی سطح پر پاکستان کا سافٹ امیج ابھارنا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ جو ہوا سو ہوا۔ اب سال نو کی خوشیوں سے قوم کو جلد شادماں کرنا چاہیے۔