6ملکی اسپیکرز کانفرنس کے شرکاء کاعزم
شیئر کریں
6ملکی اسپیکرز کانفرنس میں شریک پاکستان، چین ، روس، ترکی، ایران اور افغانستان نے علاقائی سالمیت، خودمختاری اور آزادی کے تحفظ کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کا تعلق کسی مذہب‘ قومیت‘ تہذیب‘ ثقافت یا نسلی گروپ کے ساتھ نہیں جوڑا جانا چاہئے۔ دہشت گردی ہمارے ممالک سمیت پوری دنیا کے لیے مشترکہ خطرہ ہے‘ ہم اس کیکسی بھی قسم کی مذمت کرتے ہیں‘ ہماری حکومتوں کو چاہئے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جامع حکمت عملی اور مشترکہ اقدامات کے ذریعے عملی اور ٹھوس اقدامات اٹھائیں‘ پاکستان اور بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں عالمی اور علاقائی امن کو یقینی بنانے کے لیے جموں کشمیر کے تنازعہ کا پرامن حل نکالیں، دہشتگردی کے نظریات کے پھیلائو اور پراپیگنڈا کی روک تھام کے لیے موثر تعاون ضروری ہے۔
6ملکی اسپیکر کانفرنس میں شریک ممالک نے مطالبہ کیا ہے کہ کشمیر اور القدس کے تنازعات عالمی قوانین کے مطابق طے کیے جائیں۔ صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ تنازع کشمیر سے خطے کا امن داؤپر ہے۔ چیئر مین سینیٹ رضا ربانی نے کہا کہ بھارت ، امریکا ، اسرائیل گٹھ جوڑ بن رہاہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے نان اسٹیٹ ایکٹرز سے شکوہ کیا کہ انہوں نے قوموں کی خود مختاری کو نقصان پہنچایاہے۔ ایرانی اسپیکر علی لاریحانی نے کہا کہ امریکی مہم جوئی کو روکنے کی ضرورت ہے۔ روسی اسپیکر نے جو لامذہب ہیںکہاہے کہ دہشت گردی پوری دنیا اور مذہب کے لیے خطرہ ہے۔ اسپیکر کانفرنس کے اعلامیہ میں داعش کو سنجیدہ خطرہ قراردیاگیاہے۔ اس طرح اس کانفرنس کا اعلامیہ سامنے رکھاجائے تو یہ ظاہرہوتاہے کہ اس میں بہترین باتیں کی گئی ہیں ۔
اسپیکرز کانفرنس کے بعد 29 نکاتی مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا،اس مشترکہ اعلامیہ میں شامل تمام نکات کی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ اس امر سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ دہشت گردی کا بھوت چونکہ پوری دنیا میں دندنا رہا ہے اس لیے اس پر زیادہ توجہ مرکوز کی جانی چاہئے۔ا سپیکرز کانفرنس میں جن نکات پر اتفاق کیا گیا یہ متعلقہ ممالک کی حکومتوں کے لیے اشتراک کار کی تجاویز ہیں۔ 6 ممالک میں سے 4 مسلم ممالک ہیں جبکہ چین کمیونسٹ ہونے کے باوجود مسلم ممالک کے ایجنڈے سے متفق ہے‘ اسے خود بھی سنکیانگ میں دہشت گردی کا سامنا ہے۔ بلاشبہ دہشت گردی کو کسی قومیت‘ مذہب یا نسلی گروہ کے ساتھ نہیں جوڑا جاسکتا۔ دہشت گرد دہشت گرد ہے اس کے خاتمے کے لیے بلاامتیاز کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے نیک نیتی اولین شرط ہے۔ا سپیکرز کانفرنس میں سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار افغانستان بھی موجود تھا۔ افغان ا سپیکر کی نیت پر شبہ نہیں کیا جاسکتا مگر افغان حکومت ایک طرف دہشت گردوں کے ساتھ برسرپیکار ہے دوسری طرف وہ پاکستان میں دہشت گردی کے فروغ میں بھارت کا معاون بھی ہے۔ اسپیکرز کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ سے سپیکرز کو اپنی اپنی حکومت کو بھی اعتماد میں لینا چاہئے۔ اس کانفرنس میں شامل تمام ممالک کو درپیش مسائل کا ذکر اعلامیہ میں کیا گیا ہے اور مسئلہ کشمیر کے حل پر بھی زور دیا گیا ہے۔ اس کانفرنس کو علاقائی مسائل کے حل کے لیے ان ممالک پر مشتمل دفاعی‘ اقتصادی اور تجارتی اتحاد کی طرف پیشرفت قرار دیا جاسکتا ہے۔
اسپیکرز کانفرنس کے بعدجاری کیے گئے مذکورہ بالا 29 نکاتی مشترکہ اعلا میہ کا بغور جائزہ لیاجائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ کانفرنس میں شریک اسپیکرز اور شرکا کے خطاب اور تقریر اس اعلامیے سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ مثال کے طورپر ایک جانب امریکی مہم جوئی ، امریکا بھارت اور اسرائیل گٹھ جوڑ کی بات کی جارہی ہے دہشت گردی قومی خطرہ قرار دیاجارہاہے اور دسری جانب تنازعات عالمی قوانین کے مطابق طے کرنے کی بات کی گئی ہے،دنیا کے بد معاش ممالک دہشت گردی پھیلا رہے ہیں۔ داعش القاعدہ مختلف دہشت گرد گروپ بنارہے ہیں اور یہ ممالک عالمی قوانین کو تسلیم ہی نہیں کرتے تو یہ ممالک عالمی قوانین کے مطابق تنازعات کیونکر طے کریں گے۔ اسپیکر کانفرنس کا اعلامیہ کہتا ہے کہ داعش خطرہ ہے لیکن اس حوالے سے یہ بتانا ضروری تھا کہ داعش کا خالق کون ہے اسے اسلحہ اور میڈیا کوریج کون دے رہاہے ۔ اس کی پرورش اور دیکھ بھال کون کررہاہے۔ اسرائیل کی دہشت گردی کی سرپرستی امریکا کررہاہے۔ دراصل امریکا سنجیدہ خطرہ ہے اس جانب صدر ممنون حسین اور ایرانی اسپیکرز نے نشاندہی کی ہے لیکن امریکا کو چھوڑ کر دوسروں سے مطالبات کیے جارہے ہیں۔ اگر چہ یہ6 ممالک کے اسپیکر تھے لیکن آج کل چین ، روس، ترکی اور پاکستان کی اہمیت ساری دنیا میں مسلم ہے، ان ممالک کے موقف کی اہمیت ہے اسے ساری دنیا میں پھیلایاجانا چاہیے اور ان ممالک کو اپنا موقف دنیا سے منوانا بھی چاہیے۔ روس جیسے لا مذہب ممالک کے اسپیکر کہتے ہیں کہ دہشت گردی دنیا اور مذہب کے لیے خطرہ ہے۔ خوشی کی بات ہے کے روسیوں کو بھی مذہب کی فکر ہوگئی ہے لیکن یہ ملک اصل سمت میں کیوں بات نہیں کرتے ساری دنیا کے سامنے امریکا نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سلامتی کونسل میں اسرائیل میں امریکی سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کرنے کے خلاف قرارداد کو 14 کے مقابلے میں تنہا ویٹو کیا۔ اس پر طرہ یہ کہ امریکی مندوب نے مزید ڈھٹائی کے ساتھ کہا کہ فیصلہ کچھ بھی ہو امریکا وہی کرے گا جو اس کو کرناہے، یعنی اقوام متحدہ کی امریکا کے نزدیک کوئی اوقات ہی نہیں۔ اب بھی 128 کے مقابلے میں صرف9ممالک نے امریکا کا ساتھ دیا اور 35ممالک نے منافقت کا مظاہرہ کیا اس کے باوجود امریکا ڈھٹائی کا مظا ہر کررہاہے۔ بہر حال اسپیکرز کانفرنس کے اعلامیے کوبھی اقوام متحدہ کے تمام ممالک کی حکومتوں کو بھیجاجانا چاہیے کہ جب تک اقوام عالم کی بڑی طاقتیں عالمی قوانین کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا احترام نہیں کریں گی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہیں کریں گی اس وقت تک دنیا امن کو ترستی رہے گی۔
موجودہ صورت حال میں عالمی امن کے لیے مشترکہ اعلامیئے کی نہیں بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے، جب تک چین، روس اور یورپی یونین میں شامل ممالک امریکی صدر کی جارحانہ روش کے خلاف متحد نہیں ہوں گے اور امریکی صدر کو یہ باور نہیں کرائیں گے کہ اگر انھوںنے اپنی ہٹ دھرمی نہ چھوڑی تو تمام ممالک ہر سطح پر امریکا کابائیکاٹ کریں گے، دنیا کے تمام ممالک کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ امریکا کے موجود صدر ڈونلڈ ٹرمپ خالص کاروباری آدمی ہیں اور وہ دنیا کے اہم ممالک کی جانب سے امریکا کاکاروباری مقاطع برداشت نہیںکرسکیں گے اور راہ راست اختیار کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔