وضاحت نہیں فیصلے بولنے چاہیے!
شیئر کریں
محمد اکرم خالد
ہمارے یہاں پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے کئی سیاسی اور فکری مغالطے موجود ہیں اور ان فکری مغا لطوں میں ہم بعض اوقات حقائق کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور جذبات کو اپنی فکر کی بنیاد بنا لیتے ہیں یہ ضروری نہیں کہ پاکستان سے باہر جو کچھ بھی ہمارے بارے میں کہا جاتا ہے وہ سب درست ہے یقینا اس میں ہمارے بارے میں ایک تعصب کم علمی کا بھی موجود ہے ہم مغربی ممالک کی جانب سے پاکستان پر اُٹھائے جانے والے سوالات کو یکسر مسترد بھی نہیں کر سکتے جو لوگ حقائق کو قبول نہیں کرتے وہ اپنی ناکامیوں کہ ساتھ ماضی کا حصہ بن جاتے ہیں آج قومی سطح پر ہماری ریاست اور حکومت کو بڑے بڑے چیلنج درپیش ہیں اور ہم عملی طور پر تقسیم ہوچکے ہیں اس تقسیم نے ہمارے اندر اپنے مسائل کے حل کے لیے ہمیں یکجا کرنے کے بجائے ایک دوسرے سے دور کرتے ہوئے کئی طرح کے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے اس وقت پاکستان میں سیاسی بحران بڑی تیزی سے بڑھتا چلا جارہا ہے کئی ماہ سے جاری پاناما لیکس کی باز گشت نے پاکستان کے معاشی اقتصادی خارجی معاملات کو بری طرح متاثر کیا ہے دنیا بھر کی نظریں اس وقت پاکستان کی اندرونی معاملات پر سوالیہ نشان اُٹھارہی ہیں میاں صاحب کی نااہلی اور خان صاحب کی اہلیت نے سپریم کورٹ کو تو متنازع بنا دیا مگر دوسری جانب چیف جسٹس آف پاکستان کا اپنے فیصلوں پر صفائی پیش کرنا کتنا مناسب تھا یہ ہمارے اداروں کی آزادی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
عدلیہ آزدای کی تحریک سے پہلے سپریم کورٹ کی عوام میں کوئی مقبولیت نہیں تھی مگر عدلیہ آزادی کی تحریک نے عوام میں سپریم کورٹ کی مقبولیت اہمیت اور عزت کو بھر پور انداز میں اُجاگر کیا ہے، ایک عام پاکستانی شہری کو بھی سول عدالتوں سے زیادہ سپریم کورٹ سے اُمیدیں وابستہ ہیں مگر یہ ہی عوام آج سپریم کورٹ کے بہت سے فیصلوں کو شکوک کی نظر سے دیکھنے پر مجبور ہے جو شاید مناسب بات نہیں مگر عوام میں خان صاحب کی مقبولیت کے ساتھ ساتھ میاں صاحب بھی مقبولیت رکھتے ہیں میاں صاحب کی نااہلی نے ان کے ووٹر کو مایوس کیا ہے اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اپنے خلاف آنے والے فیصلوں کو کوئی جلدی قبول نہیں کرتا خان صاحب کی دیکھ لیں ا پنے حق میں آنے والے فیصلے کو تو قبول کر لیا مگر جہانگیر ترین اور حدیبیہ کیس پر ان کے اعتراضات موجود ہیں یعنی عدلیہ کے درست فیصلوں سے بھی حکمران مطمین نہیں ہیں۔
ہماری نظر میں عدلیہ کو پانامالیکس نے متنازع بنا دیا ہے ،سیاستدانوں نے سپریم کورٹ پر اپنے کا لے کرتوں کا بوجھ ڈال کر سپریم کورٹ کو پاکستانی عوام کی نظر میں متنازع بنا دیا ہے ،ایک عام پاکستانی یہ بات با خوبی جانتا ہے کہ اس وقت کیسی بھی سیاسی مذہبی جماعت میں کوئی بھی ایسی شخصیت موجود نہیں ہے جو پاکستان کے آئین کہ آرٹیکل 62-63 پر پوری طرح سے اُتر تا ہو ہمارے خیال میں اکثریت سیاستدان اس کی مکمل تشریح سے بھی شاید واقف نہ ہوں ہمارے سیاسی رہنما پاکستان کے آئین کو بڑا مقدس سمجھتے ہیں اس کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے بھر پور انداز میں استعمال بھی کرتے ہیں مگر اس کہ مطابق عوام کے مفادات میں فیصلے کرنے سے ہچکچاتے ہیں یو ں سمجھ لیں کہ ہم مسلمان ہونے کے ناطے قر آن پاک کو اللہ کی آخری کتاب مانتے ہیں مگر اس میں دیے احکامات پر چلنے سے قاصر ہیں جس کی وجہ سے آج مسلمان مصیبتوں کا شکار ہیں ہمارے سیاسی رہنماملک کے آئین کو اس کے تحت بنائے گئے اداروں کو مقدس تو مانتے ہیں مگر اس آئین کے تحت ان اداروں کو چلنے میں اپنی تو ہین سمجھتے ہیں ۔
چیف جسٹس کی جانب سے یہ کہا جانا کہاں تک درست ہے کہ عدلیہ مکمل آزادی اور دبائو سے ہٹ کر اپنا کام کر رہی ہے اگر چیف جسٹس صاحب کی اس بات کو درست من لیا جائے تو پھر پاکستان کے آئین کو توڑنے والے لال مسجد اکبر بگٹی اور بی بی شہید کے قتل ں ملوث پر ویز مشرف کو کیوں انٹر پول کے زریعے پاکستان نہیں لا جاتا آرٹیکل 6 کا مقدمہ ہونے کے با وجود ان کو آزاد چھوڑ گیا ہے۔ مشرف کی جانب سے ان تمام معاملات پر سابق آرمی چیف راحیل شریف کے تعاون کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے جو اداروں پر دبائو کی نشاندہی کرتا ہے جس پر سپریم کورٹ کو غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
سپریم کورٹ اس ملک کا اس قوم کا ایک معزز ادارہ ہے جس کا وقار ہمیشہ قائم رہنا چاہے جج حضرات کو وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہو نی چاہے اگر ان کے فیصلے انصاف پر مبنی ہیں تو ان کے فیصلے عوام کو قبول کرنے چاہیے عدلیہ کو اپنا ایسا کردار ادا کرنا چاہے جس سے عوام میں عدلیہ کی مقبولیت میں اضافہ ہوسکے نا کہ وکلا گردی کے واقعات کی وجہ سے لوگوں میں عدلیہ کا کردار مشکوک ہوجائے عدلیہ آزدای کی تحریک کے بعد سے وکلا گردی کے واقعات پر بھی سپریم کورٹ کو نوٹس لینا چاہیے پاکستان میں انصاف کا ترازو برابر رکھنے کے لیے عدلیہ کو اپنا اہم اور مئوثر کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔