مُرشد کی صحبت
شیئر کریں
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
مادیت پرستی میں غرق مو جودہ نام نہا د پڑھے لکھے مشینی انسان کے سامنے جب مرشد کا ذکر کیا جا ئے تو اعتراض کر تا ہے کہ جب اسلام کی تمام تعلیمات قرآن وحدیث میں واضح بیان کردی گئیں ہیں تو پھر کسی انسان کی ضرورت کیوں اور نہ ہی کسی مرشد کی ضرورت ہے ایسے لوگوں کی خدمت میں عرض ہے کہ بہت سارے لوگ بہت زیا دہ قرآن پڑھتے ہیں لیکن اُنہیں حقیقی ہدا یت پھر بھی نصیب نہیں ہو تی وہ قرآن مجید پڑھنے کے با وجود بھی منزل مقصود نہیں پا تے بلکہ گمراہی میں الجھ جاتے ہیں اُن کی سوچ کا رخ صراط مستقیم کی بجا ئے غلط راہوں کی طرف ہو جا تا ہے وہ حق کی بجا ئے با طل کے مسافر بن جاتے ہیں کو ئی حدیثوں کو خوب رٹ کر کہتے ہیں کہ ہم نے بہت ساری احا دیث کا مطالعہ کیا ہے ہم حقیقت پا گئے ہیں جب کہ حقیقت میں وہ بھی گمراہی کا شکا ر نظر آتے ہیں جبکہ قرآن مجید نے اِس کا بھی حل واضح کر دیا ہے اُن لو گوں کے لیے صراط مستقیم ہے جو انعام یا فتہ ہیں انعام یا فتہ بندوں کے دامن سے منسلک ہو نے کی خیرات ‘طلب کر نے کی بات ہے اگر انعام یا فتہ لوگوں سے تعلق منقطع ہو گیاتو پھر جتنی بھی کو ششیں کرلو سیدھا راستہ نہیں پا سکتے بلکہ ہمیشہ بہک جانے کے امکا نات زیاد ہ ہو تے ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ انعام یا فتہ لوگ کون ہیں تو ارشاد با ری تعالی ہے تر جمہ : اور جو اللہ اور اسکے رسول کا حکم مانیں تو ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیا اور صدیق اور نیک لو گ یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں ۔ صحابہ کرام کے سامنے قرآن مجید نا زل ہوا اور انہوں نے الحمد سے والناس تک پڑھا اور اس کے احکا مات کوسید دو عالم ﷺ کی زبان فیض سے سنا اور سمجھالیکن سب کچھ دیکھنے سننے کے با وجود نماز پڑھنے کا کامل طریقہ میسر نہ آسکا انہوں نے با رگاہ رسالت ﷺ میں عرض کی کہ سب کچھ سنااور پڑھا لیکن نماز کا کامل طریقہ پڑھنے اور سننے سے میسر نہ آسکا ۔ اب کیا کریں تو نبی رحمت ﷺ نے فرمایا ۔ جس طرح میں پڑھتا ہوں اِسی طرح مجھے دیکھ کر پڑھ لیا کرو ، اس حدیث مبا رکہ سے یہ واضح ہو جا تا ہے کہ فقط قیل و قال سے نہیں صاحب حال کے حال کو دیکھنے سے آتا ہے محبوب خدا ﷺ نے اسی لیے سننے اور پڑھنے کی تعلیم ہی نہیں دی بلکہ حال کو دیکھنے کی تعلیم بھی فرمائی اب معاملہ یہ ہے کہ قرآن حکیم کے احکا مات تو ہم تک پہنچ گئے اور سرورکا ئنات ﷺ کی نسبت اور حدیث کا بیان بھی صحابہ کرام نے روایات کے ذریعے ہم تک پہنچا دیا تو قرآن و حدیث اور صحا بہ کرام کے ا قوال کی مو جو دگی میں ہمیں مرشد کامل کی ضرورت کیوں ہے تو جا ننا چاہیے کہ خالق کا ئنات لوگوں کو صرف تعلیما ت ہی بیان نہیں کر تا بلکہ کامل شخصیتوں کوبھیج کر ان کے عملی نمونوں کو دکھا کر سمجھاتاہے۔
حضرت آدم ؑ سے لے کر نبی کریم ﷺ تک جتنے بھی انبیا تشریف لا ئے اوروہ کتب و صحا ئف سما ویہ جو انبیاء کو عطا کیے گئے اگر رب قدوس چاہتا تو انبیا ء کی بجا ئے براہ راست بندوں کی طرف بھیج دیتا تو حید اور ہدا یت کی جملہ کلیا ت و جزئیات سے آگا ہ فرما دیتا لیکن اللہ نے ایسا نہیں کیا بلکہ کامل شخصیتوں کو لوگوں کے اندر مبعوث فرمایا انہوں نے اپنی زندگی کے ماہ و سال ان کے اندر بسرکیے زبان سے اللہ تعالی کے احکامات کو بیان فرمایا اور اپنے عمل سے تشریح فرما ئی اپنے احوال اعمال کو لوگوں کے سامنے رکھا نبی دو جہاں ﷺ اگر چاہتے تو اپنی تعلیمات احکامات کی لاکھوں کاپیاں اور نقلیں کروا دیتے اور حکم فرماتے کہ یہ ہے قرآن مجید یہ میر ی سنت اور تفصیلات انہیں پڑھو سمجھو اور اِن پر عمل کرو لیکن سرور کو نین ﷺ نے ایسا نہیں کیا بلکہ شخصیات کو تیا ر کیا اپنی صحبت اثر بار سے صدیق ؓ فاروق ؓ عثمان ؓ اور علی ؓ کو خلافت کا امین بنا یا کسی کو مفسر قرآن کسی کو محدث کسی کو قاری اور کسی کو فقہی بنا یا سلمان ؓ اور بلال ؓ پر اللہ کارنگ چڑھا معاذ بن جبل ؓ اور دیگر غلاموں کو تیار کر کے اطراف و عرب بھیجا اور لوگوں سے فرمایالوگو اِن سے قرآن پڑھو اور سنت کا مطا لعہ کرو تو جس طرح نبی دو جہا ں ﷺ کے عمل کو دیکھے بغیر صحابہ کرام ؓ کو قرآن سمجھ نہیں آسکتا تھا۔
اسی طرح اب صحابہ کرام ؓ کے عمل کو دیکھے بغیر تا بعین کوقرآن کا فہم کیسے نصیب ہو سکتا تھا صحابہ کرام ؓ سرور کا ئنات ﷺ کے زمانہ مبا رک میں مو جود تھے قرآن مجید اُن کے پاس آیا اور سنت عمل کے طور پر اُن کے سامنے مو جود تھی تو سنت ان کے لیے عمل نہیں عمل کا مشاہدہ تھا آقا ئے دو جہاں ﷺ کے دنیا سے جانے کے بعد جنہوں نے اس نورانی روئے زیبا کا دیدار نہ کیا ان کے لیے قیا مت تک آنے والی نسلوں کے لیے قرآن علم ہے اِس طرح حدیث بھی علم ہے عمل نہیں آقا ئے دو جہاں ﷺ اب نظروں کے سامنے نہیں ہیں اب ان کا مل ہستیوں کی ضرورت تھی جو قرآن و سنت کا عملی نمو نہ ہمارے سامنے پیش کریں تو نبی رحمت ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو تیا ر کیا صحابہ کرام نے تبع تا بعین کو تیا ر کیا اِسطرح وقت کا پہیہ چلتا آیا بز م جہاں کے رنگ بدلتے رہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کامل شخصیات نسل کے بعد نسل قرآن و سنت کے علم کو عملی جا مہ پہنا کر اُمتِ مسلمہ کے سامنے پیش کر تی رہیں اور کر تی رہیں گی ثابت یہ ہوا کہ جب تک عملی نمو نہ نظروں کے سامنے نہ ہو تو علم پر عمل کر نا مشکل نہیں بلکہ نا ممکن ہے بلکہ یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کسی مرشد پیر ھادی راہنما کا وجود اور اس کی اطا عت حق کے طلب گار کے لیے بہت ضروری ہے ایسا مرشد جواپنے طالب کو نفس شیطان و دنیا کے چنگل بہکا وے و فریب سے بچا کر با رگاہ الٰہی میں کھڑا کر دے جہاں بندے کو معرفت ِ الٰہی کا جام نصیب ہو ۔ مرشد کا مل کی صحبت تلقین اور تا ثیر محبت سے سالک کے دل میں جذبہ محبت پیدا ہو تا ہے اور پھر طلب حق میں اس کے لیے عزت و آبرو آرام و آسائش اور جان کی با زی لگا نا آسان ہو جا تا ہے رازِ حقیقت اور تصوف کی پر خا ر وادی سے گزرنے کے لیے سالک کو سخت آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے پے در پے امتحان دینا پڑتے ہیں سالک جب تلاش حق کے لیے با طن کے اندھیروں میں جھا نکنے کی کو شش کر تا ہے تو اُسے کسی راہبر کی شدت سے ضرورت ہو تی ہے جو اُس کے با طن کی تبدیلیوں میں اُس کی راہنما ئی کر تا ہے مشا ہدات کے دوران حق و با طل کی نشاندہی کر کے با طل کی بجا ئے مشاہدہ حق کی طرف لے جاتا ہے یہ مرشد ہی ہو تا ہے جو سالک کے کمزور پہلو ئوں کو دور کر کے اُسے کامل انسان بنا کر دربا ر حق میں کھڑا کر تا ہے مرشد کی صحبت سالوں کا فاصلہ لمحوں میں طے کرا دیتی ہے ۔