سپریم کورٹ کاتاریخی فیصلہ
شیئر کریں
سپریم کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کی جانب سے پی ٹی آئی رہنماؤں کی نااہلی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی غیر ملکی فنڈنگ کیس کے خلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کے خلاف ان کی پٹیشن کو خارج کردیا جبکہ جہانگیر ترین کو آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت نا اہل قرار دے دیا۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ معذرت چاہتے ہیں کہ کورٹ روم آنے میں دیر ہوئی اور کہا کہ جو بھی فیصلہ سنایا جائے اسے تحمل سے سنا جائے، انہوں نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں فیصلے سے قبل 250 صفات پر مشتمل دستاویز کو دیکھنا تھا اور اس میں ایک غلطی کے باعث دیر ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی غیر ملکی فنڈنگ کیس الیکشن کمیشن کو بھجوا دیا اور چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر ملکی فنڈنگ کیس سے متعلق اکائونٹس کی باریک بینی سے جائزہ لیا جائے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے فیصلے میں کہا کہ عمران خان پر 2013 کے کاغذاتِ نامزدگی میں نیازی سروسز لمیٹڈ کو ظاہر نہ کرنے کا الزام نہیں لگایا جاسکتا کیونکہ وہ اس کے اسٹیک ہولڈر نہیں تھے اور انہوں نے تمام متعلقہ دستاویزات پیش کیں۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کو آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت نا اہل قرار دے دیا، ان پر زرعی آمدن، آف شور کمپنیوں، برطانیا میں جائیداد اور اسٹاک ایکسچینج میں اِن سائڈ ٹریڈنگ سے متعلق الزامات تھے۔سپریم کورٹ کے بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ جہانگیر ترین صادق اور امین نہیں رہے، عدالت عظمیٰ نے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان (ایس ای سی پی) کو ان کے خلاف ان سائیڈ ٹریڈنگ سے متعلق کارروائی کرنے کی ہدایت کی۔حنیف عباسی کی درخواستوں پر فیصلہ سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر 1 میں سنایا گیا یہ فیصلہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سنایا اور اس موقع پر ان کے ساتھ جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب بھی موجود تھے۔جسٹس ثاقب نثار نے کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے ریمارکس دیئے تھے کہ فریقین کے جانب سے پیش کیے گئے دلائل کا ہر طرح سے جائزہ لیں گے، جس کے بعد ایسا فیصلہ سنائیں گے جو سب کو قابل قبول ہوگا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیئے جانے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جہانگیر ترین کو ڈی نوٹیفائی کردیا۔پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف درخواستیں شریف خاندان کے خلاف پاناما پیپرز کیس دائر کیے جانے کے بعد دائر کی گئی تھیں۔سپریم کورٹ میں سماعت میں عمران خان کی آمدن، رقوم کی منتقلی، لندن فلیٹ کی خریداری پر بحث حاوی رہی جبکہ جہانگیر ترین کی زرعی آمدنی، آف شور کمپنی، برطانیا میں جائیداد اور اسٹاک ایکسچینج میں اِن سائڈ ٹریڈنگ توجہ کا مرکز رہی۔مذکورہ کیس پر وکلا نے 100 گھنٹے سے زائد دلائل اور 73 مقدمات کے حوالے دیئے جبکہ اس دوران درجن بھر ممالک کی اعلٰی عدلیہ کے تقریبا 3 درجن فیصلوں کے اقتباسات بھی پڑھ کر سنائے گئے۔58 سماعتوں کے بعد 14 نومبر کو فیصلہ محفوظ کیا گیاتھا۔
سپریم کورٹ سے عمران خان کی نااہلی کی درخواست مستردکیے جانے پر شریف فیملی نے حسب عادت اور حسب توقع عدلیہ پر اپنی توپوں کے گولے ایک نئے انداز سے داغنا شروع کردئے ہیں اس حوالے سے مریم صفدر ایک دفعہ پھر سب سے آگے نظر آئیںاور انھوں نے فیصلہ سنائے جاتے ہی ٹو ئٹ شروع کردئے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو جانبدارانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ثابت ہوگیا ہے کہ اقامہ صرف بہانہ تھا مگر نواز شریف نشانہ تھے جبکہ دیگر رہنماؤں نے کہا کہ عمران خان کو بچا کر جہانگیر ترین کو قربان کیا گیا ہے۔مریم نواز نے ٹوئیٹر میں اپنے پیغام میں سپریم کورٹ کو براہ راست نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ‘آج جانب دارانہ احتساب اور احتساب کے نام پر انتقام سے تمام پردے اٹھ گئے ہیں اور ثابت ہو گیا کہ اقاماصرف بہانہ تھا، نواز شریف نشانہ تھا’۔انھوں نے کہا کہ ‘آج کے فیصلے نے اس تاثر پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے کہ نواز شریف کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے’۔مریم نوازنے یہ بھی الزام عاید کیا کہ ‘اب شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ کسی بھی سازش، دھرنوں اور احتساب نامی انتقام کا ہدف صرف نوازشریف ہے کیونکہ عوام کا اصل نمائندہ صرف نوازشریف ہیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے عمران خان کو آف شور کمپنی ظاہر کرنے پابند قرار نہ دینے پر تنقید کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ نواز شریف پر ایک خیالی تنخواہ ظاہر کرنا ضروری ٹہرا’۔عمران خان کے فیصلے میں جسٹس فیصل عرب کی جانب سے عمران خان اور نواز شریف کے کیس کے موازنے کے حوالے سے اضافی نوٹ پر مریم نواز نے کہا کہ ‘جج صاحب ! آپ کو صفائی دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ کیا آپ پاناما بنچ کا حصہ تھے؟ کیا آپ نواز شریف کے خلاف کسی سماعت کا حصہ رہے ؟’۔مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال عزیز نے کہا کہ پولیٹیکل انجینئرنگ کی گئی ہے، عمران خان کو بچایا اور جہانگیر ترین کو قربان کیا گیا ہے، پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ آج کے فیصلے کے بعد اور کچھ ہو نہ ہو کم از کم عمران نیازی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تحریک انصاف فرشتوں کی جماعت ہے۔
جہاںتک عمران خان کو سپریم کورٹ کی جانب سے کلین چٹ دیئے جانے اور جہانگیر ترین کونااہل قرار دینے کے فیصلے کاتعلق ہے تو ہمارے خیال میں اس حوالے سے جسٹس (ریٹائرڈ) شائق عثمانی کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے یہی فیصلہ متوقع تھا کیونکہ عمران خان کے خلاف کوئی خاص چیزیں عدالت میں پیش نہیں کی گئی اور لگتا یہی تھا کہ عمران خان بچ جائیں گے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے عمران خان کو کلین چٹ دئے جانے کے اس فیصلے پر غیر جانبداری کے ساتھ غور کیاجائے تویہ تسلیم کرناپڑے گاکہ عمران خان آج تک کسی سرکاری عہدے پر فائز نہیں رہے انہوں نے کرکٹ کھیل کر پیسہ کمایا، تاہم وہ ایمینیسٹی اسکیم کی وجہ سے بچ گئے ہیں۔عمران خان اورنواز شریف کے مقدمات کو ایک جیسا قرار دینے والوںکو حقیقت سے آنکھیں چرانے اور آنکھیں بند کرکے عدلیہ کوبدنام کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے یہ سمجھنا چاہئے کہ عمران خان اور نواز شریف کے معاملے میں کافی فرق ہے، صادق اور امین پر جو نواز شریف کے لیے فیصلہ ہوا تھا اس میں ان کے خلاف بہت زیادہ ثبوت تھے لیکن عمران خان کے کیس میں ایسا نہیں تھا۔ عمران خان اور نواز شریف کے مقدمات میںنمایاں فرق تھا، عمران خان کے خلاف کوئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم ( جے آئی ٹی) نہیں تھی جو کوئی ثبوت اکھٹے کرتی اور کیونکہ یہ بات عدالت اور عمران خان کے درمیان تھی تو انہیں موقع دیا گیا کہ وہ اپنی حمایت میں عدالت میں ثبوت فراہم کریں اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے۔جہاں تک تحریک انصاف کی جانب سے جہانگیرترین کو پارٹی کے سیکریٹری جنرل کے عہدے پر فائز رکھنے کے فیصلے کاتعلق ہے تو اس پر تنقید ان لوگوں کو بہرحال زیب نہیں دیتی جو نواز شریف کو نااہل قرار دئے جانے کے بعد اب بھی ان کو اپنی پارٹی کاسربراہ اور قائد تسلیم کرتے اور ان سے ہدایات لینے لندن یاترا کرتے رہتے ہیں ، اس طرح کی تنقید بڑی مضحکہ انگیز بات ہوگی کیونکہ جس قانون کے تحت نواز شریف پارٹی کے سربراہ رہ سکتے ہیں اسی طرح جہانگیر ترین پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل بھی رہ سکتے ہیں۔