امریکا کوترک صدر کامنہ توڑ جواب
شیئر کریں
جمعرات 25ربیع الاول 1439ھ 14 دسمبر2017ء
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کادارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے پر شدید تنقید کرتے ہوئے گزشتہ روز ایک بیان میں کہاہے کہ مقبوضہ بیت المقدس پر قبضے کا سوچنے والے یہ ذہن نشین کرلیں کہ مستقبل میں انہیں چھپنے کے لیے ایک درخت تک نہیں ملے گا۔ترک میڈیا کے مطابق دارالحکومت انقرہ میں کاروباری شخصیات اور تاجروں کے لیے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر طیب اردگان نے کہا کہ ٹرمپ کے اعلان نے امریکا کو نہتے فلسطینیوں کی اسرائیلوں کے ہاتھوں خونریزی کا حصہ دار بنادیا ہے جب کہ ہم نے امریکی فیصلے کو تسلیم کیا ہے اور نہ کبھی کریں گے، ہمیں یا اہلِ فلسطین کو ٹرمپ کا فیصلہ ماننے پر کوئی پابند نہیں کرسکتا۔ترک صدر کا کہنا تھا کہ بیت المقدس کو مسلمانوں کے لیے زندان بنانے والے سنْ لیں کہ فلسطین کی آزادی تک مسلمان جدوجہد جاری رکھیں گے،القدس کے معاملے پر جو کوئی مظلوموں کا ساتھ نہیں دے گا اسے عالمی امن سے متعلق کچھ بھی کہنے کا حق نہیں ہے جب کہ جو لوگ القدس پر قبضے یا اس کا مالک بننے کا سوچ رہے ہیں وہ جان لیں کہ انہیں کل کسی درخت کے پیچھے بھی چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔قبل ازیں طیب اردگان نے مقبوضہ بیت المقدس کو صہیونی دارالحکومت بنانے پر اسرائیل کو دہشتگرد ریاست قرار دیتے ہوئے کہا کہ نہتے اور معصوم فلسطینی اسرائیلی دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں،اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست ہے ہم فلسطینیوں کو صہیونیوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے۔
ادھر بیت المقدس کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کے اعلان کے بعدایران کے صدر حسن روحانی نے اسلامی ممالک کے اتحاد کی ضرورت کااظہار کرتے ہوئے سعودی عرب سے تعلقات کی بحالی کے لیے دو شرائط پیش کی ہیں جن میں سے ایک اسرائیل سے سعودی عرب کی دوستیکوختم کرنا اور دوسری یمن پر سعودی اتحاد کی بمباری بند کرنے کی ہے۔ ایرانی صدرحسن روحانی کا کہناہے کہ ان دو باتوں کے سوا ہمارا سعودی عرب سے کوئی مسئلہ یاتنازعہ نہیں ہے۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ اچھا رشتہ اچھے تعلقات رکھ سکتے ہیں۔ حسن روحانی نے یہ بھی واضح کیا کہ ہم امریکا کی طرح وعدہ خلافی نہیں کرتے اپنی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے حسن روحانی نے کہاکہ مقبوضہ بیت المقدس مسلمانوں کی سرزمین ہے ہم ڈونلڈٹرمپ کے اعلان پر خاموش نہیں رہیں گے اور اپنی بساط کے مطابق کوئی بھی قدم اٹھاسکتے ہیں۔
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کادارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے پر ترکی کے صدر رجب طیب اردگان اور ایران کے سربراہ حسن روحانی نے جن جذبات کااظہار کیاہے وہ خوش آئند ہیں، ایران کے صدر کی جانب سے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کا عندیہ خود ایک بڑا قدم ہے، اگرچہ ایران کے صدر نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے جو دوشرائط پیش کی ہیں انھیں کسی بھی طورپر کڑی شرائط قرار نہیں دیاجاسکتا،اور اگر ان پر سعودی حکومت کوکچھ تحفظات ہوں تو یقینا اس شرائط پر بات بھی ہوسکتی ہے۔یہ درست ہے کہ ًسعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ اس نوعیت کے تعلقات نہیں ہیں جو ترکی اور کئی دوسرے اسلامی ممالک کے اسرائیل کے ساتھ ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات تو ابھی سرکاری سطح پر اعلان شدہ بھی نہیں ہیں بس خیر سگالی اور کچھ دوروں والے معاملات ہیں جب کہ ایسے بہت سے دوسرے ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات ہیں جن کے اسرائل کے ساتھ تعلقات ہیں۔ لیکن پھر بھی ایران جیسے ملک کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے لیے سعودی عرب کے حکمرانوں کو اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرنی چاہئے اورایک ایسے موقع پر جب امریکی صدر کے فیصلے نے پوری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں میں امریکا اور اسرائیل کے خلاف جذبات شدت اختیار کرچکے ہیں سعودی عرب کو اسرائیل کی طرف جھکاؤ کی پالیسی سے احتراز ہی کرنا چاہئے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کے ظاہری طورپر صرف یہ 2اسباب نہیں ہیں۔ یمن کا تنازع اس کی ایک وجہ ہوسکتا ہے، اس بات کا جواب تو سعودی عرب ہی دے گاکہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی یمن پربمباری کیوں کررہے ہیں۔ یمن تو سعودی عرب کا ایسا پڑوسی تھا کہ اس کے ہر معاملے میں سعودی عرب ساتھ دیتا رہتا ہے۔ سعودی عرب میں یمنیوں کو جو حیثیت حاصل ہے وہ کسی اور غیر ملکی کو حاصل نہیں۔ بہت سے یمنی تو سعودی عرب میں اہم عہدوں پر تعینات ہیں ،اس طرح ایران کی جانب سے یمن پر بمباری روکنے کی شرط کوئی ایسی شرط نہیں ہے جسے ناقابل قبول اور ناقابل عمل قرار دیاجاسکے اوریہ کہاجاسکے کہ ان پر بات نہیں ہوسکتی،یقینا سعودی عرب کو ان شرائط پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اواس حوالے سے ایران کے ساتھ مذاکرات اور افہام وتفہیم کا راستہ بھی نکالنا چاہیے۔ جہاںتک یمن پر بمباری بند کرنے کا سوال ہے تو اس حوالے سے یہ بات واضح ہے کہ یمن پر بمباری بند کرنے کے لیے اس بمباری کے اسباب بھی دور کرنے ہوں گے جب تک یہ اسباب موجود رہیں گے امن کیسے قائم ہوگا۔ حال ہی میں سابق صدر علی عبداللہ الصالح کا قتل ایسا معاملہ ہے جس کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں۔ علی عبداللہ نے سعودی عرب کو مصالحت کا پیغام بھیجا تھا اور قبل اس کے کہ وہ سعودی عرب پہنچتے انہیں قتل کردیاگیا۔ علی عبداللہ صالح کا قتل بھی لبنان کے رفیق حریری کی طرح کا معاملہ ہے۔ اس میں ایک سے زیادہ ممالک کے ملوث ہونے کا امکان ہے۔
صورت حال جو بھی ہو یہ بات ایک حقیقت ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جاری کھیل کوئی آسان کھیل نہیں اس بساط پر شاطر کئی ہیں اور مہرے چند ہی ہیں لیکن کبھی کوئی شاطر ایک مہرے کو استعمال کرتا ہے اور کبھی دوسرا شاطر اسی مہرے کو استعمال کرتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے بحران میں زیادہ تر وہ طاقتیں دلچسپی رکھتی ہیں جو خود خطے میں نہیں بلکہ ان کے مفادات وہاں ہیں یا پھر ان کے مفادات اسرائیل کے قبضے میں ہیں اس لیے وہ اسرائیل کے مفاد کی خاطر ایسے اقدامات کرتے ہیں جو خطے میں انتشار کا سبب بنے۔ ٹرمپ کا حالیہ فیصلہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے یہ اور بات ہے کہ امت مسلمہ کے مقدس مقامات کو جب بھی چھیڑاجاتا ہے منتشر امت متحد ہوجاتی ہے ایک بار پھر ٹرمپ کے اعلان نے امت کو اتحاد کے مواقع دے دیے ہیں لیکن ایسامعلوم ہوتا ہے کہ بات صرف احتجاج، مذمت اور مطالبات تک محدود رہے گی۔
ہم سمجھتے ہیں سعودی عرب کو ایران کی پیشکش پر غور کرکے مفاہمت کا راستہ نکالنا چاہیے۔ اگرچہ عرب لیگ نے اپنے اجلاس میں ٹرمپ کے اعلان کو مسترد کردیا ہے اور اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے لیکن امریکا نے تو اسرائیل کے دارالحکومت منتقلی کے فیصلے کی توثیق کی ہے۔ اصل خرابی تو غیر قانونی اسرائیل کی جانب سے غیر قانونی طور پر دارالحکومت کی تبدیلی ہے۔ عالم اسلام کو اپنی صفوں میں اتحاد قائم کرکے امریکا اور اسرائیل کے ان غیر قانونی اقدام کو ہر فورم پر چیلنج کرنا چاہیے یہ اقوام متحدہ کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے اوراقوام متحدہ کو اپناوجود ثابت کرنے کے لیے اس حوالے سے سخت اقدامات کا اعلان کرنا چاہئے۔جب تک تمام اسلامی ممالک متحد ہوکر اس معاملے پر متفقہ لائحہ عمل اختیار نہیں کریں گے منہ زور ڈونلڈ ٹرمپ کا لگام دینا ممکن نہیں ہوسکتا،ا وراس مرحلے پر ذرا سی بھی کوتاہی کے اظہار کی صورت میں عالمی سطح پر عالم اسلام کاتشخص بری طرح مجروح ہوسکتاہے ۔