فزکس کے میدان میں شہیر نیازی کی حیران کن تحقیقات
شیئر کریں
عبدالماجد قریشی
بچے کسی بھی ملک کا مستقبل ہیں جو بڑے ہو کرنہ صرف اپنے ملک کا نام روشن کرتے ہیں بلکہ انسانیت کی زندگی کے ہر شعبے میں بھی اپنی کارکردگی دکھا کر اپنے عوام کی بھی خدمت کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی بات کی جائے تو یہ اپنے ملک کے ہونہار معماروں کا مستقبل محفوظ کرنے میں تمام تر وسائل بروئے کار لاتی ہیں۔پاکستانی نوجوانوں میں بھی ٹیلنٹ کم نہیں بلکہ دنیا کے کئی ترقی یافتہ اقوام سے زیادہ ہے۔
لاہور کے رہائشی محمد شہیر نیازی کی عمر محض 17 برس ہے مگر اپنے سائنسی تحقیقاتی مضمون سے انہوں نے دور حاضر کے عالم طبیعات کو نہ صرف حیران کیا بلکہ تحقیق کے لیے ایک نیا زاویہ فراہم بھی کیا ہے۔محمد شہیراور ان کے مقالہ کی دنیا میں اس لیے پذیرائی ہو رہی ہے کہ انھوں نے دنیا کو بتایا کہ اگر تیل پر بجلی گرے تو اس میں شہد کی مکھیوں کے چھتے جیسی اشکال بن جاتی ہیں۔ اس سے پہلے کی تحقیق یہاں ہی تمام ہو جاتی تھی۔ مگر محمد شہیر نے تیل پر بجلی گرنے کے بعد درجہ حرارت کو بھی ریکارڈ کیا۔ کم عمری میں یہ تحقیقی مقالہ دنیا کو حیرت زدہ کر رہا ہے۔
محمد شہیر کا تعلق لاہور سے ہے۔ جہاں وہ لاہور کالج آف آ رٹس اینڈ سائنس (لاکاس) میں اے لیول کے طالب علم ہیں۔ یہیں وہ آج آسٹرونومی کلب کے کوچ بھی ہیں۔نیوٹن نے 17سال کی عمر میں مقالہ لکھا اور شہیر کی والدہ اپنے بیٹے کو 16سال عمر میں مقالہ لکھنے کی ترغیب دے رہی تھیں۔ ہونہار شہیر نے والدہ کی خواہش ہی پوری نہیں کی بلکہ دنیا کو بھی نئی تحقیق سے روشناس کر دیا۔ محمد شہیر نے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ اگر تیل پر بجلی گزرے تو اس میں گرمی کا اثر ہوتا ہے۔ انہوں نے فوٹو گرافک فارمولے سے اس کی تصاویر بھی بنائی ہیں۔ یہ تحقیق معروف عالمی جرائد کا موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔
نو عمر سائنسدان نے دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرنے کے لیے 2016میں بین الاقوامی نوجوان فزیکسٹس ٹورنامنٹ میں حصہ لیا اور مقابلہ میں ایک پروفیشنل سائنسدان کے طور پر ابھر کر سامنے آگئے۔ٹورنامنٹ میں ٹیم پاکستان کی شرکت کے لیے فنڈنگ کامسٹس اسلام آباد اور لمز لاہور نے کی۔اس ٹیم کی کیپٹن محمد شہیر کی بہن خطیجہ نیازی تھیں۔اس کے لیے کامسٹس کی ڈاکٹر فریدہ اور لمز کے ڈاکٹر صبیحہ انور مبارک باد کے مستحق ہیں جھنوں نے محمد شہیر کو ریسرچ کام کرنے کے لیے لیبارٹریوں تک رسائی ممکن بنائی۔لمز فزیکس ڈیپارٹمنٹ نے بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا۔ جب کہ محمد شہیر کو پروفیسر ٹرائے شینبراٹ اور ان کے دوست ڈاکٹر تپن صابووالا نے ریسرچ کو بہتر انداز میں پیش کرنے میں معاونت کی۔ امید ہے دیگر ادارے اور اساتذہ بھی ملکی ٹیلنٹ کو سامنے لانے کے لیے اپنی خدمات انجام دیتے رہیں گے۔
اس کم سن سائنسدان کی والدہ خاص طور پر مبارک باد کی مستحق ہے کہ جنھوں نے قوم کو ایسا ذہین دماغ سائنسدان دیا اور ان کی بہترین تربیت کی۔ محمد شہیر نے اپنی کامیابی کا سہرہ اپنی والدہ کے سر ہی باندھا ہے۔رائل اوپن سائنس جریدے نے ہی معروف سائنسدان اور ماہر طبیعات نیوٹن کا پہلا مقالہ شائع کیا تھا۔ شہیر کی چارڈ آئینز کے شہد کے چھتے کی فوٹو گرافی سے اسپین میں سیلوے یونیورسٹی کے فزکس سائنسدان ڈاکٹر البرٹو بھی حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔انھوں دنیائے سائنس کو ایک نئی راہ دکھائی۔ محمدشہیر نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے اس دعویٰ کو غلط ثابت کر دیا کہ دنیا میں صرف بھارت کی پہچان آئی ٹی کے حوالے سے ہے اور یہ کہ پاکستان دنیا میں دہشتگردی کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔
دشمن کی سازشوں اور الزامات کو غلط ثابت کرنے کے لیے نئی نسل تعلیم، ریسرچ اور ہنر کے میدان میں دشمن کو شکست دینے کا عزم کر لے تو دنیا کی کوئی طاقت پاکستان پر انگلی اٹھانے کی ہمت نہیں کر سکے گی۔ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کبھی کوئی کمی نہیں رہی ہے۔ ارفہ کریم ، حارث خان جیسے ناموں میں ایک بہترین اضافہ محمد شہیر کے نام کا ہے جنھوں نے شہد کی مکھیوں کے برقی چھتوں پر مقالہ بین الاقوامی جریدے رائل اوپن سائنس جرنل میں شائع کیا۔ دنیا کا میڈیا آج اس پاکستانی طالب علم کے کام کو زبردست خراج تحسین پیش کر رہا ہے۔
محمد شہیرنیازی نے پاکستانی نوجوان کو ایک نئی راہ دکھائی ہے کہ اگر ہمارے طلباء تعلیم اور ریسرچ پر توجہ دیں اور ان کے لیے ملک میں لیبارٹریاں قائم کی جائیں، تحقیق کی حوصلہ افزائی کی جائے اور طلباء کی تحقیقی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جائے تو یہ مٹی بقول ڈاکٹر اقبال ؒ بڑی زرخیز ہے۔ اس میں ذرا سے نم کی ضرورت ہے۔ مٹی میں یہ نمی والدین اور اساتذہ کی محنت اور دلچسپی سے پیدا ہوتی ہے۔
توقع ہے کہ ہمارے طلباء محمد شہیر کے مشن پر چلتے ہوئے تعلیم اور ریسرچ کے میدان میں دلچسپی لیں گے۔پنجاب اور وفاقی حکومت اگر اس طرف توجہ دے اور ریسرچ کے میدان میں طلباء اور اساتذہ کی حوصلہ افزائی کرے تو مثبت نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ہمیں نظام تعلیم میں صرف ڈگری اور نمبرگیم پر توجہ کے بجائے ٹیلنٹ کے فروغ اور تربیت یافتہ ہنر مندوں کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہے۔ حکومت اس سلسلے میں صلاحیتوں کے حامل طلباء کو ریسرچ کے میدان میں مقابلے کے لیے وسائل فراہم کرے تو یہ کام مزید بہتر انداز میں آگے بڑھ سکتا ہے اور ہم محمد شہیر نیازی جیسا ٹیلنٹ پیدا کر سکتے ہیں۔
محمد شہیر کی جڑواں بہن بھی فزکس میں ریسرچ کر رہی ہیں اور اپنے بھائی کی معاون بنی ہیں۔ یہ دونوں جڑواں بہن بھائی مستقبل میں پاکستان کی دنیا میں نیک نامی کا باعث بنیں گے۔یہ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ قابل فخر پاکستانی طالب علم ملک کا نام مزید سر بلند کرے گا اور نوبل انعام پاکستان کے نام کر لے گا۔ فزکس کے میدان میں محمد شہیر کی ریسرچ کو کافی اہمیت دی جا رہی ہے۔ دنیائے سائنس ان کی تحقیق پر سنجیدگی سے بحث کر رہی ہے۔ محمد شہیر کی عمر ابھی 17 ہے۔ مگر ان کا کارنامہ کسی آزمودہ کار اور تجربہ کار سائنسدان سے بھی بلند ہے۔ سائنسدان کھلے دل سے اس کی داد بھی دے رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ لاہور کے محمد شہیر نے عالم طبیعات کو تحقیق کے لیے ایک نیا زاویہ فراہم کر دیا ہے۔ یہ 16سال کی عمر میں اس عظیم بچے کا شاندار کارنامہ ہے جو کہ ہمارے لیے بڑی خوشخبری ہے۔