پاکستان کے مفرور اورمتنازع وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی ساڑھے 4سالہ کارکردگی پر ایک نظر
شیئر کریں
وزارت خزانہ کامنصب سنبھالتے ہی اسحاق ڈارنے صاف کہہ دیاکہ ملک کودرپیش معاشی ‘اقتصادی بحرا ن کو چٹکی بجاتے حل نہیں کیاجاسکتا
اسحاق ڈارنے آئی ایم ایف سے معاہدہ کرکے انتہائی کڑی شرائط پرقرضہ حاصل کیا‘بعدازاں قرض اوراس پرعائد سود کی شرح بڑھتی چلی گئی
ملک پر قرضوں کابوجھ پڑاتوغریب آدمی براہ راست متاثرہوا‘مہنگائی کی شرح آسمان پرجاپہنچی ‘لوگو ں کودووقت کی روٹی ملنا مشکل ہوگیا
رخصت پرگئے وزیرخزانہ کی طفل تسلیوں کے باوجودیہ بات ہرخاص وعام جانتا ہے کہ اسوقت ملک کاہربچہ ایک لاکھ روپے کامقروض ہے
وزیر اعظم شاہد خاقان سمیت ملک کا شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو جو اسحاق ڈار کی کارکردگی کو اطمینا ن بخش تو کجا قابل قبول ہی تسلیم کرنے کو تیار ہو
۱یچ اے نقوی
نواز شریف کو سپریم کورٹ سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد ان سے وزارت عظمیٰ چھن جانے اور نواز شریف کو مجبوراً وزارت عظمیٰ کی ذمہ داریاں اپنے انتہائی معتبر اور تابعدار رکن اسمبلی شاہد خاقان عباسی کو سونپے جانے کے بعد ہی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مستقبل کے بارے میں سوال اٹھنا شروع ہوگئے تھے ،لیکن نواز شریف کی بھرپور پشت پناہی کی وجہ سے وہ عدالت میں چلنے والے اپنے خلاف ناجائز ذرائع سے دولت جمع کرنے اور حیثیت سے زیادہ اثاثے بنانے کے الزامات کے باوجود اپنے اس منصب سے چمٹے رہے یہاں تک کہ عدالت سے مفرور اور اشتہاری قرار دئے جانے کے باوجود وہ اپنا یہ منصب چھوڑنے پر تیار نہیں تھے لیکن اندرون ملک کے علاوہ بیرون ملک بھی اس صورت حال پر شروع ہونے والی لے دے اور تنقید کے بعد بھی انھوں نے وزارت سے استعفیٰ دینے کے بجائے اپنی طویل چھٹی کی درخواست بھیج کر جلتی پر پانی ڈالنے کی کوشش کی ،وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی چونکہ نواز شریف کے سمدھی کو خود برطرف کرکے نواز شریف کی ناراضگی مول لینا نہیں چاہتے تھے اس لیے انھوں اسحاق ڈار کی چھٹی کی درخواست کوہی غنیمت خیال کرتے ہوئے ان کی یہ درخواست فوری طورپر منظور کرتے ہوئے وزارت خزانہ کسی اور کے سپرد کرنے کے بجائے یہ قلمدان بھی خود ہی سنبھال لیا۔
جہاں تک ساڑھے 4سال تک وزارت خزانہ کی کرسی پر براجمان رہنے والے اسحاق ڈار کی کارکردگی کاسوال ہے تو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سمیت اس ملک کا شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو جو ان کی کارکردگی کو اطمینا ن بخش تو کجا قابل قبول ہی تسلیم کرنے کو تیار ہو۔وزیر خزانہ کی حیثیت سے اسحاق ڈار کی کارکردگی کااندازہ درج ذیل حقائق سے اچھی طرح لگایاجاسکتاہے۔
وزارت خزانہ کامنصب سنبھالنے کے بعد اسحاق ڈار نے جون 2013 میں پہلی مرتبہ صحافیوں کاسامنا کیا اور انتہائی صاف گوئی کے ساتھ اعتراف کیا کہ پاکستان کو درپیش معاشی اور اقتصادی بحران کا کوئی فوری حل نہیں ہے یعنی اسے چٹکی بجاتے حل نہیں کیاجاتا اورملک کو اقتصادی ومعاشی بحران سے نجات دلانے میں کچھ وقت درکار ہوگا۔ اس کے ایک مہینے بعد یعنی جولائی میں پاکستان اورآئی ایم ایف کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت آئی ایم ایف نے جسے پرویز مشرف اپنے دور میں تمام بقایاجات اور قرض ادا کرکے خدا حافظ کہہ چکے تھے پاکستان کو اگلے 3سال کے دوران کڑی شرائط پر 53.3 بلین روپے قرض دینے پر آمادگی کااظہار کیا بعد میں قرض کی یہ رقم بڑھا کر 56.2 بلین روپے کردی گئی۔آئی ایم ایف سے کیے گئے اس معاہدے کے بعد آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدے پورے کرنے کے لیے اسحاق ڈار نے دو ماہ بعد یعنی ستمبر میں شرح مبادلہ کی پالیسی کا اعلان کیا اور اس پالیسی پر سختی سے کاربند رہنے کااعلان کیا اور اپنی وزارت کے آخری دن تک اس پر کاربند رہے۔
فروری 2014 میں اسحاق ڈار نے ارکان پارلیمان کو دبائو میں لانے کے لیے پہلی مرتبہ ان کی جانب سے سرکاری خزانے کو ادا کیے جانے والے ٹیکسوں کی تفصیلات شائع کردیں۔ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں اضافے کے حوالے سے اپنی کوششوں یا پالیسیوں کی ناکامی اور قومی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کرنے میں ناکامی پر عوامی سطح پر تنقید اور دبائو سے بچنے کے لیے انھوںنے اپریل 2014 میںملک کی مجموعی قومی پیداوار میں اضافے کی سہہ ماہی رپورٹ پیش کرنے کی پالیسی ختم کردی۔حکومت کے اخراجات میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے سرکاری خزانے پر پڑنے والے بوجھ کو کم کرنے اور خزانے کو بھراہوا ثابت کرنے کے لیے اسحاق ڈار نے ٹیلی کام اسپیکٹرم کی اگلی جنریشن کی نیلامی کااہتمام کیااور اس کے ذریعہ قومی خزانے کو ایک ارب 11کروڑ 20لاکھ ڈالر مل گئے۔اس نیلامی کو بھی اسحاق ڈار نے اپنی ایک بڑی کامیابی ثابت کرنے کی کوشش کی۔لیکن ٹیلی کام اسپیکٹرم کی اگلی جنریشن کی نیلامی سے قومی خزانے کوہونے والی ایک ارب 11کروڑ 20لاکھ ڈالر کی آمدنی بھی وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے وزرا اور من پسند سرکاری اہلکاروں، مشیروں اور معاونین کے مبینہ اللوں تللوں کو برداشت کرنے میں ناکا م رہی جس پر اسحاق ڈار نے فروری 2015 میں ایک منی بجٹ پیش کردیا جس کے تحت بڑی تعداد میں اشیا پرجن میں درآمد کی جانے والی بعض ضروری اشیا ،پیشہ ورانہ خدمات اورفرنس آئل پر ٹیکسوں کی شرح میں بے پناہ اضافہ کردیاگیااور اس طرح اس ملک کے غریب اور پسے ہوئے عوام کو مزید بوجھ تلے دبادیاگیا۔
منی بجٹ کے ذریعے ٹیکسوں میں اضافے سے بھی حکومت کے بڑھتے ہوئے اخراجات پورے ہوتے نظر نہیں آئے اور خزانہ مسلسل خالی ہوتا نظر آنے پر اسحاق ڈار نے اپریل 2015 میںحبیب بینک لمیٹڈ کے حکومت کے پاس رہ جانے والے بقیہ609 ملین شیئرز بھی فروخت کردئے اور اس طرح قومی خزانے کو ایک ارب 20لاکھ ڈالر مل گئے۔
ٹیکس بیس میں اضافہ کرنے میں مسلسل ناکامی اور حکومت کے بڑھتے ہوئے اخراجات پورے کرنے کے لیے کوئی اور آسان راستہ نہ پاکر اسحاق ڈار نے جون 2015 میں بینکوں سے لین دین پر 0.6 فیصد ٹیسک عاید کرنے کااعلان کیااور ملک بھر میں تاجروں اور صنعت کاروں کے احتجاج کے باوجود یہ ٹیکس واپس لینے پر تیار نہیں ہوئے تاہم تاجروں اور صنعت کاروں کے پیہم احتجاج پر مجبور ہوکر ٹیکس کی شرح 0.6 فیصدسے کم کرکے 0.4فیصد کردی۔
جنوری 2016 میں اسحاق ڈار نے ایف بی آر کی جانب سے سوئٹزرلینڈ سے 200ارب ڈالر پاکستان واپس لانے کی توقع کے تحت دہرے ٹیکس کے نفاذ سے بچنے کے لیے تیار کیے گئے معاہدے کامسودہ مسترد کردیا ۔اس کے 6ماہ بعد ہی جون 2016 میں بجٹ پیش کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والوں کو سزا دینے کے نام پر بڑے پیمانے پر بالواسطہ اوربلاواسطہ ٹیکس نافذ کرنے کااعلان کرکے عوام کو پریشانی میں مبتلا کردیا۔
عوام کے مسائل ومصائب کوخیال کیے بغیر آئی ایم ایف کی شرائط اورہدایات پر سختی سے عمل کرنے پر آئی ایم ایف نے اکتوبر 2016 میں اسحاق ڈار کو جنوبی ایشیا کے بہترین وزیر خزانہ کے اعزاز سے نوازا۔ان پر یہ الزام بھی لگایاجاتاہے کہ وزارت خزانہ کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد انھوں نے مبینہ طورپر ایف بی آر میں اپنے بااعتماد افسران کی مدد سے اپنا پورا ٹیکس ڈیٹا غائب کرادیا ،ایف بی آر سے اسحاق ڈار کا ٹیکس ریکارڈ غائب ہونے کاانکشاف جون 2017 میں ہوا۔
جولائی 2017 میں سپریم کورٹ کے حکم پر قائم کی گئی جے آئی ٹی کی تفتیش کے دوران نیشنل بینک پاکستان کے صدر اور اسحاق ڈار کے درمیان قریبی تعلق کاانکشاف ہوا اور یہ بھی ظاہرہواکہ نیشنل بینک کے صدر سعید احمد مختلف بینک اکائونٹس کے ذریعے شریف فیملی اور اسحاق ڈار کومالی فوائد پہنچاتے رہے تھے۔
اگست2017 میں شاہد خاقان عباسی نے اسحاق ڈار کے اختیارات میں کمی کرتے ہوئے انھیںسی سی او پی، کابینہ کی اقتصادی کمیٹی اور ایکنک سے سبکدوش کرکے انھیں ان اداروں کی ذمے داریوں سے سبکدوش کردیا۔
اکتوبر2017 میں اسحاق ڈارایک دن بعد واپسی کے وعدے پر نواز شریف کے خصوصی طیارے میں تاجکستان روانہ ہوئے لیکن تاجکستان جانے کے بجائے سعودی عرب پہنچ گئے اور وہاں سے لندن چلے گئے۔بعد ازاں احتساب عدالت میں عدم پیشیوں کی وجہ سے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوتے رہے اوران کی مسلسل غیر حاضری پر ان کے ناقابل ضمانت جاری کیے جانے کے بعد بالآخر عدالت کو انھیں مفرور اور اشتہاری قرار دینا پڑا۔وزار ت خزانہ میں ان کی مسلسل عدم موجودگی پر ملک کے اندر اور بیرون ملک بڑھتی ہوئی تنقید اور اس حوالے سے حکومت پر تنقید کی وجہ سے اسحاق ڈار پر استعفیٰ دینے کے لیے دبائو بڑھایاگیا اور اسحاق ڈار کو عارضی طورپر اپنی وزارت چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا اور انھوںنے خرابی صحت کو بنیاد بناکر 3ماہ چھٹی کی درخواست وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو بھجوادی، وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ان کی یہ درخواست فوری طورپر منظور کرتے ہوئے وزارت خزانہ کی ذمہ داریاں خود ہی سنبھال لی ہیں جبکہ اطلاعات کے مطابق وزارت کے روزمرہ معاملات وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری کی ہدایت کے مطابق نمٹائے جارہے ہیں۔