اسلامی فوجی اتحاد کومزید مضبوط بنانے کیلئے دیگر مسلم ممالک کے تحفظات دور کرنیکی ضرورت
شیئر کریں
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ روز وزیر دفاع خواجہ آصف، پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس ‘آئی ایس آئی’ کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کے ہمراہ ریاض کے شاہی محل میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے سعودی فرمانروا خادم الحرمین الشریفین سے ملاقات کے دوران سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو خطے میں امن واستحکام کے لیے پاکستان کے مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے۔ملاقات کے دوران دونوں برادر ملکوں کے درمیان باہمی دلچسپی کے امور اور علاقائی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر سعودی شاہ نے ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے پاکستان کی کوششوں کا خیر مقدم کیا جب کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ سعودی عرب اور اسلامی فوجی اتحاد میں شامل دیگر ممالک پاکستان کے تجربات سے فائدہ اٹھانے چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اسلامی فوجی اتحاد کی صورت میں اسلامی ممالک کے مشترکہ پلیٹ فارم کے لیے سعودی ولی عہد کی کوششوں اور لگن کی تعریف کی اور خطے میں امن واستحکام کے لیے پاکستان کے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔واضح رہے کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، وزیر دفاع خواجہ آصف، آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اور ‘آئی ایس آئی’ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار ریاض پہنچے تھے جبکہ دو روز قبل ریاض ہی میں اسلامی فوجی اتحاد میں شامل ممالک کے وزرائے دفاع کا افتتاحی اجلاس بھی منعقد ہوچکا ہے۔سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اسلامک ملٹری کائونٹر ٹیررازم کولیشن ( آئی ایم سی ٹی سی) کے اجلاس کا افتتاح کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق اسلامی فوجی اتحاد میں شامل ممالک کے وزرائے دفاع کے افتتاحی اجلاس میں41 اسلامی ممالک پر مشتمل فوجی اتحاد کے باقاعدہ قیام کے اعلان کے بعد اب اس کا فوجی سیٹ اپ قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ اس حوالے سے41 اسلامی ممالک پر مشتمل فوجی اتحاد کا سیٹ اپ بری ، بحری اور فضائی افواج پر مشتمل ہوگا، اس اتحاد کا باقاعدہ فوجی اسٹرکچر بھی قائم کیا جائے گا۔ اس سیٹ اپ کے قیام کے لیے جلد رکن اسلامی ممالک کے فوجی سربراہوں اور دیگر اہم حکومتی حکام کا اجلاس مشاورت سے طلب کیا جائے گا، اس اجلاس میں فوجی سیٹ اپ کے قیام کے لیے اہم حکمت عملی کو حتمی شکل دی جائے گی۔
41ممالک کے فوجی اتحاد کا 2سال قبل اعلان کیا گیا تھا تاہم اب سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں مختلف اسلامی ممالک پر مشتمل اسلامی فوجی اتحاد کے قیام کے لیے وزرائے دفاع کی کانفرنس کے انعقاد کا مقصد اس فوجی اتحاد کے قیام کا باقاعدہ اعلان ہے، اس اتحاد کے قیام کا ایجنڈا طے ہونے کے بعد اب اس کا اگلا مرحلہ فوجی سیٹ اپ کا قیام ہوگا۔اس حوالے سے 41ممالک کے فوجی اتحاد میں شامل ارکان ممالک طے کریں گے کہ آیا وہ کس انداز میں فوجی سیٹ اپ کے قیام کے لیے مالی یا دفاعی سطح پر معاونت کریں گے، اس فوجی اتحاد کا اسٹرکچر مکمل طور پر عام فوجی سیٹ اپ کے طرز پر قائم کیا جائے گا۔ اس اتحاد کا فوجی سیٹ اپ بری، بحری، فضائی، انٹیلی جنس اور دفاعی نظام پر مشتمل ہوگا، اس فوجی سیٹ اپ کے قیام کے لیے ارکان ممالک طے کریں گے کہ وہ اپنے کتنے حاضر سروس فوجی افسران اور جوانوں کی خدمات کو اس اتحاد کے سپرد کریں گے؟ اور آیا کہ41ممالک کے فوجی اتحاد کے فوجی اڈے کن ارکان اسلامی ممالک میں قائم ہوں گے؟۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ اسلامی ممالک متاثر ہوئے ہیں‘ حیرت انگیز امر ہے کہ دہشت گردوں کے ایسے طاقتور جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی سے مسلح گروہ وجود میں آئے جن کے سامنے مسلم حکومتیں بے بس ہو گئیں‘ اس کی واضح مثال داعش ہے جس نے نہایت سرعت سے عراق اور شام کے بڑے علاقوں پر قبضہ کر کے اپنی حکومت قائم کر لی‘ سب سے پریشان کن صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب داعش کا دائرہ کار بڑھتے بڑھتے دیگر مسلم ممالک کو متاثر کرنے لگا‘ افغانستان اور پاکستان میں بھی داعش کی موجودگی کی اطلاعات موصول ہوتی رہتی ہیں۔اس صورت حال میں بلا شبہ یہ ناگزیر ہو گیا تھا کہ مسلم ممالک دہشت گردی کے ناسور سے نمٹنے کے لیے ایک مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دیں۔ پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف جو اس اسلامی فوجی اتحاد کے کمانڈر بھی ہیں نے اتحاد کے وزرائے دفاع کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بالکل صائب کہا کہ دنیا بھر میں دہشت گردی کے ناسور سے سب سے زیادہ مسلم امہ متاثر ہوئی، گزشتہ6 برس میں دہشتگردی سے ہونے والی اموات میں سے70فیصد اموات مسلم ممالک میں ہوئیں، حالیہ برسوں میں دہشت گرد وں نے مجموعی طورپر کم وبیش 70 ہزار حملے کیے ہیں جن میں2 لاکھ افراد جاں بحق ہوئے، دہشت گردی سے اسلامی دنیا کے کئی ممالک متاثر ہوئے جب کہ ان حالات کا سب سے زیادہ منفی اثر عراق، افغانستان اور پاکستان پر ہوا۔
اسلامی فوجی اتحاد میں شامل41 ممالک کے وزرائے دفاع کے اجلاس سے خطاب کے دوران پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف نے اس اتحاد کا مقصد بیان کرتے ہوئے اس کے بارے میں پیدا ہونے والی بدگمانیوں کو دور کرتے ہوئے کہا کہ مسلم ممالک کا اتحاد کسی ملک یا فرقے اور مذہب کے خلاف نہیں بلکہ انسداد دہشت گردی کے لیے ہے۔ اتحاد کا مقصد دہشتگردی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہے، دنیا بھر میں دہشت گردی کے ناسور سے نمٹنے کے لیے تمام ریاستیں انفرادی طور پر کام کر رہی ہیں لیکن انفرادی طور پر اس سے نمٹنے کے لیے مسلم ریاستوں کے پاس وسائل نہیں ہیں اس لیے اسلامی ممالک کا فوجی اتحاد بنایا گیا ، یہ اتحاد اپنے اتحادیوں کو دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے انٹیلی جنس کا تبادلہ اور استعداد بڑھانے میں تعاون کریگا۔
یہ درست ہے کہ2سال قبل41ممالک کے فوجی اتحاد کے قیام کے فوری بعد ہی بعض مسلم ممالک نے جن میں پاکستان کاپڑوسی اور دوست ملک ایران شامل ہے اس اتحاد کے بارے میں تحفظات کااظہار کیاتھا اور ان کے یہ تحفظات قطعی بے بنیاد قرار نہیں دئے جاسکتے تاہم چونکہ ان کے ان تحفظات قطعی بے بنیاد ہیں اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ تحفظات ظاہر کرنے والے ممالک کو نظر انداز کرکے ان کودیوار سے لگانے یا الگ تھلگ کرنے کے بجائے ان کے شبہات اور تحفظات دور کر کے انھیں بھی اس اتحاد میں شامل کیا جائے اس سے اس اتحاد زیادہ تقویت ملے گی اور یہ زیادہ موثر طریقے سے اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے گا۔دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اسلامی ممالک کے درمیان اتحاد ایک اچھی بات ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض مسلم ممالک کو اس کے اغراض و مقاصد کے حوالے سے تحفظات موجود ہیں ‘بہتر حکمت عملی یہی ہے کہ جن جن مسلم ملکوں کو اس اتحاد پر تحفظات ہیں ان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں اور انھیں بھی اس میں شامل کیا جائے۔
امید کی جاتی ہے کہ اسلامی فوجی اتحاد میں شامل تمام41 ممالک کے سربراہان اس حوالے سے اپناکردار ادا کریں گے اور مسلم دنیا کا محور ومرکز ہونے کے ناطے سعودی فرمانروا اپنے بڑے پن کو ثبوت دیتے ہوئے ایران اور دیگر ممالک سے اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اجماع امت اور اتحاد مسلمین کی خاطر ان ممالک کے سربراہوں کو دعوت دے کر انھیں مسلم امہ کے اتحاد اور تحفظ کے لیے مل جل کر ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے قائل کرنے کوشش کریں گے۔