کیوں نکالا؟
شیئر کریں
گزشتہ عرصہ کے دوران فیس بک اور ٹوئٹر پر "مجھے کیوں نکالا” ٹرینڈ رہا ہے ۔ یہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے نا اہل وزیر اعظم جنہیں عدالت اعظمیٰ نے دستیاب شہادتوں کی بنیاد پر صادق اور امین تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی بنیاد پر نااہل قرار دیا۔صادق اور امین انسانی زندگی کی دو بنیادی صفات ہیں یہ صفات جس فرد میں نہ پائی جائیں وہ قابل اعتبار و اعتماد نہیں ہوتا اور جو قابل اعتبار و اعتماد نہیں نہ ہو ایسی فرد کو وزیر اعظم تو کجاکسی دفتر میں نائب قاصد بھی نہیں رکھا جاسکتا۔ اردو کی دستیاب تمام لغات میں صادق اور امین کی ضد کا ذب اور فائن درج ہے۔ صادق اور امین دونوں عربی سے اردو میں ان ہی معنی میں داخل ہوئے ہیں جو معنیٰ عربی زبان میں ہیں ۔ عدالت اعظمیٰ کا فیصلہ بہت واضع اور دو ٹوک ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ فیصلہ انگریزی زبان میں ہے اور تھرڈ کلاس گریجویٹ کی انگریزی کا جو معیار ہو سکتا ہے وہ سب جانتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ محمد میاں نواز شریف گزشتہ تقریباً4 ماہ سے جہاں جاتے ہیں۔ جب بھی گفتگو کرتے ہیں تو یہ سوال ضروری کرتے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا میاں صاحب کے وہ حواری جن کی بات میاں صاحب کی سمجھ میں آتی ہے یہ بتانے کا حوصلہ نہیں رکھتے کہ انہیں کیوں نکالا اور جو بات بتا سکتے ہیں میاں صاحب ان کی بات سننے پر آمادہ نہیں ہیں۔
اگرہم تاریخ کے ورق الٹیں تو میاں صاحب کی سیاسی ولادت کا وقت بھی سامنے آجاتا ہے میاں صاحب نے اپنی” سیاسی "زندگی کا آغاز تحریک استقلال سے کیا یہ درست ہے کہ ائر مارشل "ر”اصغر خان پاکستانی فضائی فوج کے بے مثل سربراہ تھے جنوں نے فضائیہ کو اس بنیاد پر استوار کیا تھاکہ ازلی دشمن سے تعداد اور معیار میں بہت کم ہونے کے باوجود 1965 کی جنگ کے ابتدائی ایام میں ہی بھارتی فضائوں پر غلبہ حاصل کرلیا تھا ایم ایم عالم نے فضائی جنگ کی تاریخ کا منفرد کارنامہ بھی اس ہی جنگ کے دوران 7 ستمبر کو انجام دیا تھا جب اس نے اپنے کم معیار اور کم رفتار جہاز سے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں دشمن کے 7 اعلیٰ معیار کے جہازوں کو نشانہ بنایا تھا اس نے دشمن کے پہلے 5 جہاز صرف 20 سیکنڈ میں تباہ کیے تھے اور فرار ہوتے دو جہازوں کو تعاقب کر کے نشانہ بنایا تھا اس جنگ کے بعد دنیا میں کئی جنگیں لڑی جاچکیں لیکن یہ ریکارڈ جدید جہازوں سے لیس فضائیہ بھی نہیں توڑ سکتی ہے۔
ائیر مارشل اصغر خان پاک فضائیہ کے جتنے کامیاب آفسراور سربراہ رہے سیاست میں اسی قدر ناکامی ان کا مقدر بنی وہ حکمرانوں کو اقتدار سے نکالنے کی ہر تحریک کا حصہ رہے اس کے سوا ان کی جماعت میں نہ تحریک تھی نہ استقلال 1968-69کی ایوب خان کو گھر بھیجنے کی تحریک ہو یا 1977میں دوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک، اصغر خان ہر تحریک کے ہراول دستہ میں نظر آئے ہیں ۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو جس کو کوہالہ پل پر پھانسی دینے کے ارادہ کا اظہار ائیر مارشل اپنی ہرتقریر میں کرتے تھے اس ہی ذوالفقار علی بھٹو کی باقیات کے ساتھ مل کر ضیاء الحق کے خلاف ایم آر ڈی تحریک کا حصہ ہوئے نواز شریف کی سیاسی تربیت ان ہاتھوں میں ہوئی ہے جو دوسروں کو نکالنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔
ابھی تحریک استقلال میں ان کی تربیت پوری نہیں ہوئی تھی کہ جنرل ملک غلام جیلانی کی نگاہ انتخاب ان پر پڑگئی یوںوہ دوسروں کو نکالنے کی تحریک چلانے کے بجائے کسی کو بھی نکالے جانے کا اختیار رکھنے والے کے دست بازو بن گئے ،وقت گزرتا رہا 1985کے انتخابات کے بعد وہ پنجاب کے وزیراعلی بن گئے لیکن خزانے کی کنجی اپنے پاس رکھی مرکز میں وزارت عظمیٰ محمد خان جونیجو کے پاس تھی اور غیر جماعتی ایوان میں ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ کی ولادت ہوچکی تھی اس مسلم لیگ کا نام جونیجو کے لاحقہ کے ساتھ مسلم لیگ جونیجو قرار دپایا لیکن جب 1988میں ضیاء الحق نے محمد خان جونیجو کو وزارت عظمیٰ سے نکالا تو میاں صاحب نے اپنے سیاسی قائد کا ساتھ دینے کے بجائے نکالنے والے کا ساتھ دیا کہ ابھی اقتدارو اختیار کی کنجی ضیاء الحق کے پاس ہی تھی۔ لیکن17 اگست 1988کو جب ضیاء الحق ہوائی حادثہ کا شکارہوکر اپنے رب کے حضور پیش ہوئے تو میاں صاحب نے فوراً محمد خان جونیجو سے رجوع کرلیا ۔ محمد خان جونیجو فطرتا ًشریف طبع تھے یوں انہوں نے نواز شریف کو دوبارہ قبول کرلیا۔ 1988 کے انتخاب میں جب بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں تو ایک جانب میاں صاحب کے مستقل اتحادی مولانا نے عورت کی حکمرانی کوشرعاً حرام قرار دیالیکن کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ ملنے پر مولانا نے اجتہاد کا راستہ اختیار کیا اس کے باوجود بے نظیر بھٹو کو حکومت سے نکالنے کی کوشش میں میاں صاحب کے اتحادی رہے، اسی طرح اگر 1988سے 2013تک کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو جب جب میاں صاحب اقتدار میں نہیں ہوتے تو حکمرانوں کو نکالنے کی تحریک میں سرگرم ہوتے ہیں۔
پہلی اور دوسری مرتبہ جن قوتوں نے میاں صاحب کو کان پکڑکر نکالا تھا میاں صاحب میں اتنی جرات نہیں تھی کہ ان سے پوچھتے مجھے کیوں نکالا کہ اس در سے دوبارہ اقتدار کے در کھلنے کی امیدیں وابستہ تھیں۔ لیکن اب عدالتی عظمی کے اس فیصلے نے بڑے میاں صاحب کے اقتدار کے دروازے پر قفل ڈال کر اس کی کنجی سمندر بردکردی ہے، یوں میاں صاحب مایوسی کے عالم میںموقع بے موقع پوچھتے رہتے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا ۔
میاں صاحب 1990 میں پہلی مرتبہ جب مرکز میں برسر اقتدار آئے تھے تو انھوں نے ملک میں اسلامی شرعی نظام نافذکرنے کا وعدہ کیا تھالیکن سیاست دانوں کا وہ وعدہ ہی کیا جو پورا کیا جائے میاں صاحب اپنے پہلے دور اقتدار سے ہی رب کی پکڑ میں ہیں انہوں نے حصول اقتدار کے لیے اسلامی شرعی نظام نافذ کرنے کا وعدہ کیا لیکن جب اقتدار مل گیا تو شرعی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کرنے والوں سے دامن چھڑانا شروع کردیا، 1992 کے اوائل میں وفاقی شرعی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ حکومت 6 ماہ میں ملکی معیشت سے سودی نظام کا خاتمہ کرے اس عمل کے لیے متبادل نظام بھی وضع کردیا تھا لیکن میاں صاحب نے اللہ سے جنگ سے خاتمہ کے بجائے اس جنگ کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور اس کے نتیجے میں ایک سال کے عرصے میں اقتدار سے کان پکڑ کر نکال باہر کیے گئے، 1993 میں جب بے نظیر بھٹو ایک مرتبہ پھر اقتدار میں آئیں تو میاں صاحب نے روز اول سے بے نظیر بھٹو کو نکالنے کی جدوجہد شروع کردی۔ اس دوران انہوں نے کیا کیا حربے اختیار نہ کیے،1997میں اقتدار میں آنے کے بعد میاں صاحب کے رویہ میں رعونت بڑھ گئی کہ انہیں ایوان میں دو تہائی سے زیادہ اکثریت حاصل تھی یو انہوں نے مفاہمت کے بجائے تصادم کا راستہ اختیار کیا۔ صدر فاروق لغاری کی جگہ اپنے منشی رفیق احمد تاررڈ کو صدر بنایا تو چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ سے بھی محاذآرائی بھی مول لی اور وزراء کی قیادت میںسپریم کورٹ پر حملہ کراکے جس طرح چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے چیمبر پر لگی ان کے نام کی تختی کو اتارا گیا۔ وہ منظر کیمرے کی آنکھوں نے محفوظ کرکے تاریخ کا حصہ بنا دیاکارگل کا محاذ کھولاگیا اور اس کا ملبہ جنرل پرویز مشرف اور جنرل عزیز کے سر پے انڈیل دیا گیا اور اس کے بعد جنرل پروز مشرف کوذلت آمیز انداز میں برطرف کر کے اپنے نکالے جانے کا انتقام لیا۔ لیکن اس وقت بھی نکالنے والا طاقت ور تھا اور میاں صاحب کا مقام لانڈھی اور اڈیالہ جیل تھی یوں معافی تلافی کر کے ملک سے ہی نکل جانے کا فیصلہ کیا۔ معاہدہ کیا اور جلاوطنی قبول کرلی لیکن جب معاہدہ کے تمام نکات منشاء کے مطابق طے پاگئے تو اس معاہدہ سے انکاری ہوئے ضامنوں کے دبائو پرخاموش ہوئے۔ لیکن پھر بھی چالوں کا سلسلہ جاری رکھا۔
2008میں جلاوطنی سے واپسی کے بعد محسوس ہوتا تھا کہ میاں صاحب کے رویہ میں تبدیلی آچکی ہے اور وہ مفاہمت کی سیاست قبول کرچکے ہیں ،پی پی پی کے دور میں یہ تاثر قائم رہا لیکن2013 کے انتخابات کے بعدیہ تاثر زائل ہوگیا اور میاں صاحب کی سب سے ٹکرائو کی سیاست ایک مرتبہ پھر کھل کر سامنے آگئی اگر نواز شریف 2013میں عمران خان کا 4 حلقہ کھولنے کا مطالبہ تسلیم کرلیتے تو پھر عمران خان کو اس طرح عوام میں رہنے اور عوامی مینڈیٹ کی چوری کے ڈھول کو پیٹنے کا وہ موقع نہ ملتا جس کے ذریعے عمران خان عوامی رابطہ میں رہا یہاں تک کہ پاناما کے زلزلہ نے دنیاکے اکثر درالحکومتوں کو ہلا کر رکھ دیا ان میں اسلام آباد بھی شامل تھا اور بدقسمتی سے پاناما پیپرز میں شریف خاندان کا نام بھی موجود تھایوں میاں صاحب اس زلزلہ کی زد میں آگئے علوم ارضیات کے ماہرین کے مطابق زلزلہ کے بعد جھٹکوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے انہیں ماہرین آفٹر شاک کہتے ہیں اورہل مٹل، العزیزا اسٹیل اور اقامہ پانامہ کے آفٹر شاکس ہیں۔
میاں صاحب کی تقریبا 45سالہ سیاسی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو اس میں ان کے گرد ان افراد کا گھیرا نظر آتا ہے جو وہی بات کرتے ہیں جو میاں صاحب سننا چاہتے ہیں اور جو زمین حقائق کے مطابق بات کرے وہ میاں صاحب کی نظر میں مخالفیوں کا ہرکارہ ہوتا ہے۔ اس وقت جن افراد کے مشورے کو شرف قبولیت حاصل ہے ان میں کوئی بھی پرانا مسلم لیگی نہیں ہے ا س وقت جو چوکڑی میاں صاحب کا گھیرائو کیے ہوئے ہے اس میں طلال چودھری، امیر مقام، حنیف عباسی اور زاہد حامد نمایاں ہیں میاں صاحب ان کے مشورہ کو شہباز شریف چودھری نثار راجہ ظفرالحق اور احسن اقبال کے مشورہ پر ترجیح دیتے ہیں یہ چاروں وہی ہیں جو 2007 تک میاں صاحب کی سیاست کے خاتمہ اور پرویز مشرف کو 100 مرتبہ وردی میں صدر بنانے کے عزائم کا اظہار کرتے نہیں تھکتے تھے آ ج ان کی نظر میں پرویز مشرف سنگین غداری کا مرتکب ملزم اور نواز شریف قوم کے مسیحا ہیں کل ان کا نکتہ نظر کیا ہوگا یہ ایوان اقتدار میں موجود فرد پرمنحصر ہے یہ افراد نہیں اقتدار سے وفادار ہیں۔
میاں صاحب کو اس ساری صوتحال سے نکلنے اور باعزت واپسی کا ایک ہی راستہ ہے وہ یہ نہ پوچھیں کہ مجھے کیوں نکالا بلکہ اپنے اختیار کے استعمال کرتے ہوئے اللہ سے صلح کرلیں ملکی معیثت سے سود کو نکال کر اسلامی نظام معیثت نافذ کریں دنیا کچھ بھی کہے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو ختم کرکے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قوانین کو نافذ کریں۔ یقین کامل ہے ان اقدامات سے میاں صاحب کو اپنے سوال کا جواب مل جائے گا۔