پاک ایران تعاون کے فروغ پر اتفاق رائے
شیئر کریں
پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ دنوں اپنے دورۂ ایران کے دوران ایران کی اعلیٰ قیاد ت کے ساتھ ہی ایرانی فوج کے سربراہان سے بھی ملاقات کی ،ایران کی اعلیٰ قیادت اور ایرانی فوج کے سربراہان کے ساتھ ملاقات کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تعاون کو فروغ دینے اورایران اور پاکستان کا اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف کسی تیسرے فریق کے ہاتھوں استعمال ہونے نہ دینے پر اتفاق کیاگیا، اپنی سرزمین کسی تیسرے فریق کو استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کے حوالے سے پاکستان اور ایران کے فوجی رہنمائوں کے درمیان اتفاق رائے بلاشبہ خوش آئند ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات کی جڑیں بہت قدیم ہیں دونوں ممالک نہ صرف مذہبی بلکہ ثقافتی رشتوں میں ایک دوسرے سے منسلک ہیں، ایران نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا انتہائی بے خوفی اور بے غرضی سے ساتھ دیاہے خاص طورپر مسئلہ کشمیر پر ایران نے ہمیشہ نہ صرف یہ کہ پاکستان کے موقف کی تائیدوحمایت کی ہے بلکہ ہر عالمی فورم پر بھارت کے خلاف پاکستان کا ساتھ دیا ہے،اس طرح پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور ایرانی رہنمائوں کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں اور ان میں طے پانے والے معاملات کو تجدید عہد کہا جاسکتاہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مضبوط و مستحکم کرنے کے لیے سعی پہلے سے جاری رہی ہے اور اس پر اتفاق بھی رہا ہے اب بار دیگراس کا اعادہ ہی ہوا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق دونوں ممالک کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے فیلڈ کمانڈرز کے درمیان تبادلے کے لیے ہاٹ لائن اور ایران کی جانب سے سرحد پار لگائی جانے والی باڑ کے حوالے سے مختلف اقدامات کیے جائیں گے۔رپورٹ کے مطابق دونوں ملکوں کے فوجی سربراہان کے درمیان ملاقات میں دونوں ممالک کی جانب سے بارڈرپٹرولنگ، انٹیلی جنس کے تبادلے اور دونوں افواج کے درمیان رابطوں کو آسان بنانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔جنرل قمرجاوید باجوہ نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے مرکز کے دورے میں پاک افغان سرحد اور پاک ایران سرحد کا استعمال کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی جانب سے کیے گئے اقدامات کو اٹھایا۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق جنرل باجوہ سے ملاقات میں ایرانی وزیر امیر حاتمی نے کہا کہ ایران کی پالیسی ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوطرفہ تعلقات بحال کرنا ہے اور ملک کی خارجہ پالیسی میں پاکستان کی ایک خاص جگہ ہے۔قبل ازیں ایرانی صدر حسن روحانی اور وزیر خارجہ جواد ظریف چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ملاقات میں پاکستان کو بجلی اور گیس دینے کی پیشکش بھی کر چکے ہیں۔
پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات میںسرد مہری یمن کے مسئلے پر سعودی عرب اور ایران کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کی وجہ سے پیداہوئی تھی لیکن پاکستان نے احتیاط کی پالیسی اختیار کر کے خود کو بڑی حد تک اس تنازع میں اُلجھنے سے محفوظ کیا اور اس طرح اس تنازع کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات میںپیدا ہونے والی دوری میں کمی پیداہوئی اور اب پاک فوج کے سربراہ کے دورہ
ایران نے رہی سہی تلخیوں کااثر بھی بڑی حد تک زائل کردیاہے ۔ اس طرح پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا دورۂ ایران اور ایرانی قیادت سے ملاقاتوں کے بعد توقع کی جاسکتی ہے کہ غلط فہمیوں کا بڑی حد تک ازالہ ہو چکا ہوگا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے خلاف مسلسل ہرزہ سرائی اور بھارت کی پشت پناہی کی وجہ سے اس وقت خطے میں پاکستان کے لیے ہمسایہ ممالک کے ساتھ خاص طور پر اچھے تعلقات کی اہمیت بڑھ گئی ہے کیونکہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ امریکا کی ٹرمپ انتظامیہ کے بھارت کی جانب جھکائو کے متعدد معاہدوں کے باعث بھارت کی جانب سے پاکستان کی سلامتی کو لاحق خطرات مزید بڑھ گئے ہیں جبکہ امریکا ایٹمی ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایران کی سلامتی کو چیلنج کرنے کے درپے ہے۔اس صورتحال میں پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات میں وسعت استحکام اور قریب سے قریب تر ہونا دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورۂ ایران کے موقع پر علاقائی امن و سلامتی اور باہمی دفاعی تقاضوں سے عہدہ بر آہونے کے لیے تعاون بڑھانے کی را ہیں ہموار کرنے پر یقینا توجہ دی گئی ہوگی۔ ہمارے خیال میں پاکستان اور ایران کے درمیان سیکورٹی کے معاملات پر مشاورت اور خاص طور پر پاک ایران سرحد کو غیر قانونی آمد ورفت اور شدت پسند عناصر سے محفوظ رکھنے پر توجہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس سے جہاں دونوں ممالک کے درمیان سیکورٹی کے حوالے سے معاملات میں اعتماد میں اضافہ ہوگا وہاں پاک ایران سرحد کو مکمل طور پر محفوظ بنا کر بلوچستان میں حالات پر گرفت مزید مستحکم کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جس طرح سرحدوں کو مضبوط اور مستحکم بنایا گیا ہے اس کے ثمرات سامنے آرہے ہیں۔اگر پاکستان اور ایران بلوچستان سے متصل سرحد کو باہم تعاون اور مشاورت سے مستحکم بنانے پر اتفاق کر لیں اور حفاظتی اقدامات کو مل کر مضبوط ،مربوط اور بہتر بنائیںتو دونوں ممالک کو سرحدی معاملات سنبھالنے میں آسانی ہوگی اور غلط فہمیوں کا امکان باقی نہیں رہے گا ۔ یقینا جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ ٔایران کا مقصد علاقائی امن و سلامتی اور باہمی دفاعی تقاضوں سے عہدہ بر آہونے کے لیے تعاون بڑھانے کی راہ ہموار کرنا تھا ،اطلاعات کے مطابق ان کو ایرانی سول وفوجی قیادت کی جانب سے مثبت جواب ملا ہے،جس کااندازااس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ ایران نے پاکستان کو بجلی اور گیس کے شعبو ں میں تعاون کی پیشکش کا اعادہ کیا ہے۔ پاکستا ن اور ایران کے درمیان اس شعبے میں تعاون کا معاہدہ بھی ہوا تھا مگر پاکستان بین الاقوامی دبائو اور دیگر وجوہات کی بنا پر اس سے فائدہ اٹھا نہیں سکا تھا لیکن اب موقع ہے کہ بدلتے حالات میں جہاں امریکا سے فاصلے پیدا ہو چکے ہیں ،یہ اچھا موقع ہے کہ پاکستان اورایران گیس پائپ لائن کے اس معاہد ے کا احیاکریں اور اس پر دوبارہ کام شروع کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ چونکہ دونوں ممالک اب اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ وہ کسی بیرونی جارحیت کی صورت میں اپنے دفاع کی مشترکہ حکمت عملی اپنائیں گے تو اقتصادی و توانائی کی ضرورتوں میں تعاون کرنے پر بھی توجہ دینا دونوں ملکوں کے عوام کے مفاد میں ہوگا۔
توقع کی جانی چاہیے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ ٔایران سے جہاں بہت سے دفاعی و اقتصادی تعاون اور گیس پائپ لائن منصوبے پر دوبارہ کام شروع کرنے کی راہیں کھلیں گی وہاں پاکستان اور ایران کے درمیان سرحدی کشیدگی کے جو واقعات کچھ عرصہ قبل پیش آئے تھے اور ان کی وجہ سے جو غلط فہمیاں پیدا ہوگئی تھیںان کا ازالہ بھی ہوجائے گا۔ اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ دشمن عناصر
پاک ایران ودستی میں دراڑیں ڈالنے کی تاک میں رہتے ہیں۔ دونوں ممالک کی سیاسی و عسکری قیادت باہمی تعاون اور اخوت و برابری کے تعلقات کے قیام سے ہی ان عناصر کے ارادوں کو خاک میں ملا سکتی ہے۔