موجودہ تعلیمی نظام اور ہمارا معاشرہ
شیئر کریں
محمد زمان قریشی
عام طور پر تعلیم کو انگریزی کے لفظ ایجوکیشن کے ہم معنی سمجھا جاتا ہے۔ مگر صحیح معنی میں ایجو کیشن کی مکمل ترجمانی صرف تعلیم سے نہیں ہو پاتی۔ لفظ ایجوکیشن در اصل لاطینی لفظ ایڈو کو (educo)سے اخذ کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کسی انسان کو خصوصی توجہ اور نگہداشت کے ساتھ پال پوس کر بڑا کرنا۔ اس مناسبت سے ایجوکیشن کا مطلب ہوگا کسی بچے کی پرورش، اور اس کی دماغی، جسمانی اور اخلاقی تربیت کرنا۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایجوکیشن کا مفہوم صرف تعلیم سے نہیں بلکہ تعلیم و تربیت سے پورا ہوتا ہے۔اور یہی تعریف زیادہ معتبر ومناسب معلوم ہوتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ہیں اور جو علم دیئے گئے ہیں درجے بلند کر دے گا۔قرآن و احادیث میں بیشمار مقامات پر سیکھنے اور سکھلانے والوں کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ‘‘تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اورسکھلائے۔ (بخاری)۔اب آیئے دیکھتے ہیں کہ تعلیم کے معنی ومفاہیم اور اس کی ضرورت واہمیت اور فوائد وثمرات کیاہیں:
تعلیم کامعنی ومفہوم:تعلیم یہ عربی زبان کا لفظ ہے جو ’’علّمَ یعلِّم تعلیم‘‘سے ماخوذ ہے جس کے معنیٰ ہیں کسی کو کچھ بتانا، پڑھانا، سکھانا، تلقین کرنا یا رہنمائی کرنایعنی طلبہ کو لکھنا پڑھنا یا حساب وغیرہ سکھانا یا کوئی مضمون اور کتاب پڑھا دینا۔
تعلیم کی اہمیت وضرورت اور اس کے فوائد وثمرات سے دنیا کے کسی ذی شعور کو انکار نہیں،کیونکہ تعلیم پر قوم وملت کی تعمیر وترقی کا ہی انحصار نہیں بلکہ اس میں قوم کے احساس وشعور کو جلا بخشنے کی قوت بھی پنہاں ہے۔ اگر آپ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کا دورہ کرکے اور اس کی شرح خواندگی کا جائز ہ لیں گے تو آپ کے سامنے یہ سچ خود بخود واضح ہوجائے گا کہ قوم کی تعمیر وترقی میں تعلیم کی کس قدر اہمیت رکھتی ہے، اورموجودہ دورمیں اس کی کتنی اہمیت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں جو قومیں تعلیم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رہی ہیں ، علم کے حصول کی خاطر کافی پریشانیاں برداشت کر رہی ہیں وہی آنے والے وقت میں دنیا و معاشرے میں اپنا مقام اور وجودزندہ رکھ سکیں گی۔
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں معاشرتی خرابیوں وبرائیوں کی سب سے بڑی وجہ جہالت ہے جس کے خاتمے کی ہمیں ہر طرح سے تگ ودو کرنی چاہئے اور تعلیم کے حصول میں انتھک کوشش ومحنت کرنی چاہئے تاکہ ہمارا معاشرہ ایک پاکیزہ اور صاف ستھرا معاشرہ بن سکے۔اور اس کے باشندے امن وسکون اور الفت ومحبت نیز بھائی چارگی کی زندگی گذار سکیں،کیونکہ حصول علم وہ روشن شاہراہ ہے جس پر چل کر ہم اپنی تعلیمی پسماندگی کو ختم کرکے سماج کو روشن مستقبل دے سکتے ہیں،انہیں تاریکی سے نکال کر اجالے کی طرف رہنمائی کرسکتے ہیں۔
تعلیم انسانیت کی سب سے بڑی دولت اور شرف وعزت کی ضامن ہے،تعلیم ہی وہ شجر ہے جس کے رنگین پھول اور مہکتی کلیاںدل ودماغ کو معطر کردیتے ہیں اور قلب وروح کی تسکین کا ذریعہ بنتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ سماج کا ہر ذی علم طبقہ اپنے نونہالوں کو معیاری تعلیم دلانے کی حتی المقدور سعی کرتاہے اور انہیں ملک وسماج کے اچھے سے اچھے اسکو لوںوکالجز میں داخلہ دلانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی تگ ودو کرتا ہے تاکہ ان کا لخت جگر اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے بہترین ڈاکٹر اچھاانجینئرکامیاب سائنسداں بن سکے اوراپنے پیر وں پر کھڑا ہوکر اپنے والدین اور اعزہ واقارب کی کفالت کرسکے۔
تعلیم وہ شاہ کلید اور ایک ایسا جوہر ہے جو انسان کو ظلمت وتاریکی کے عمیق غار سے نکال کرروشن شاہراہ اور بلندی کی اونچایئوںپر پہنچا تاہے،تعلیم سے انسان اور اقوام میں بیداری آتی ہے،صحیح سوچنے وسمجھنے کا شعور پیداہوتاہے۔ اچھے اوربرے کی تمیز کااحساس بیدارہوتا ہے،اسی تعلیم ہی کے ذریعے اللہ نے انسانوں کو تمام مخلوقات پر اشرفیت وافضلیت بخشی ہے
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں تعلیم کے حصول کے لیے ہر ممکن کوششیں کر نی چاہئے اور ہماری آنے والی نسل کو بہتر سے بہتر تعلیمی معیار فراہم کر نا چاہے تاکہ ہم سب مل کر ہمارے ملک کا نام دنیا میں روشن کر سکیں ۔ اللہ ہم سب کو علم کی اہمیت کو سمجھنے اور موجودہ نظام تعلیمی سے خاطر خواہ استفادہ کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔