میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
امریکی سی آئی اے کا اسامہ بن لادن کے خلاف  پروپیگنڈا جاری۔۔ مزید دستاویزات جاری کردیں

امریکی سی آئی اے کا اسامہ بن لادن کے خلاف پروپیگنڈا جاری۔۔ مزید دستاویزات جاری کردیں

ویب ڈیسک
اتوار, ۵ نومبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

ساڑھے 4لاکھ سے زائددستاویزات میں اساماکی زندگی کے خفیہ گوشوں کوبے نقاب کرنے کے نام پران کاکردارمسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے
اردواورپشتوسے ناواقف شخص کے سامان میں انڈین اورپشتوفلموں کے گانوں کی کیسٹس برآمدکرنے کے حیران کن دعوے کیے جارہے ہیں
اسا ما بن لادن کے چہیتے بیٹے حمز کی ایران میں شادی کی ویڈیومنظرعام پرلانے کا مقصدایران پر دبائو بڑھانا ہے
نجم انوار
امریکی نیوی سیلز کی جانب سے اساما بن لادن کو سفاکی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارے جانے کے بعد ان کی لاش کو گھسیٹ کر لے جائے جانے کے واقعے کو اب کم وبیش 6سال گزر چکے ہیں لیکن اساما بن لادن کا خوف اب بھی امریکی رہنمائوں پر طاری ہے، اور اس خوف کے ساتھ ہی امریکی رہنمائوں کے رویئے میں اساما جیسے رہنما کو بیدردی کے ساتھ قتل کیے جانے پر احساس پشیمانی بھی واضح نظر آتاہے، اور اپنے اس احساس پشیمانی کو چھپانے کے لیے وہ وقفے وقفے سے ایسے ڈاکومنٹس ظاہر کرتے رہتے ہیں جس سے کسی نہ کسی طرح اساما بن لادن کی شخصیت کومتنازعہ بنایاجاسکے اور ان کی شخصیت کو داغدار بنایاجاسکے۔گزشتہ روز امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے اساما بن لادن کو ہلاک کیے جانے کے بعد ان کے گھر سے قبضے میں لیے گئے کمپیوٹرز اوردیگر دستاویزات جن کی تعداد ساڑھے 4لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہیںجاری کردی ہیں، سی آئی اے کی جاری کردہ ان دستاویز ات کا باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیاجائے تو یہ ظاہرہوتاہے کہ ان دستاویزات کوجاری کرنے کامقصد بھی اساما کی شخصیت کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔
القاعدہ کے رہنما اساما بن لادن کو مئی 2011 میں امریکی نیوی سیلز نے ایبٹ آباد میں کیے جانے والے آپریشن میں ہلاک کر دیا تھا۔امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے مئی 2011 میں القاعدہ کے رہنما اساما بن لادن کے خلاف کے آپریشن کے دوران اْن کے کمپیوٹر سے ملنے والی ساڑھے 4لاکھ سے زائد دستاویزات، تصاویر اور ویڈیوز جاری کر دی ہیں۔اساما بن لادن کے مکان سے ملنے والی ان کمپیوٹر فائیلز میں بچوں کے کارٹونز، اساما بن لادن پر بننے والی دستاویزی فلمیں، کمپیوٹر گیم، پشتو اور انڈین گانے، اور کئی ہالی وڈ کی فلمیں شامل ہیں۔خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق مئی 2015 سے لے کر اب تک یہ چوتھا موقع ہے جب امریکی حکام نے ایبٹ آباد میں القاعدہ کے رہنما کے مکان سے ملنے والی دستاویزات جاری کی ہیں۔
سی آئی اے کی جانب سے جاری کی گئی دستاویزات سے واقف واشنگٹن تھنک ٹینک کے محققین کا کہنا تھا کہ ان دستاویزات میں اساما بن لادن کے بیٹے کی شادی کی ویڈیو اور القاعدہ کے سابق سربراہ کی ذاتی ڈائری بھی شامل ہے۔سی آئی اے کے ڈائریکٹر مائیک پومیپو کا کہنا تھا کہ القاعدہ رہنما سے منسوب دستاویزات کی مدد سے امریکی عوام کو ایبٹ آباد آپریشن کے ساتھ القاعدہ کی کارروائیوں کے بارے میں بھی معلومات حاصل ہوں گی۔
فاؤنڈیشن فور ڈیفنس آف ڈیموکریسیز کے اسکالر تھامس جوسلین اور بل روگیو کے مطابق یہ دستاویزات القاعدہ کے بارے میں مزید جاننے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ان دونوں اسکالر کو دستاویزات منظر عام پر لانے سے قبل پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی۔بل روگیو کا کہنا تھا کہ ان دستاویزات سے القاعدہ کے رہنماؤں کے بارے میں معلومات کے حوالے سے موجود خلاکو پورا کیا جاسکے گا۔حمزہ بن لادن کی شادی کی ویڈیو جاری کرنے کا مقصد دنیا کو اساما بن لادن کے چہیتے بیٹے کی جوانی کی تصویر دکھانا تھا جسے ممکنہ طور پر ایران میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔واضح رہے کہ امریکی نیوی سیل 6 کے کمانڈوز نے یکم اور 2 مئی 2011 کی درمیانی شب پاکستان کے علاقے ایبٹ آباد کے ایک کمپاؤنڈ میں کارروائی کی تھی جس کے حوالے سے انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کارروائی کے دوران دنیا کے انتہائی مطلوب دہشت گرد اور القاعدہ کے سربراہ اساما بن لادن کو ہلاک کر دیا گیا۔امریکی دعوؤں کے مطابق کمانڈوز کارروائی کے بعد اساما بن لادن کی لاش اپنے ہمراہ لے گئے جبکہ واپس جاتے ہوئے فوجیوں نے اپنا ایک ہیلی کاپٹر بھی تباہ کردیا تھا۔
القاعدہ کے سابق سربراہ اساما بن لادن کی اہلیہ نے اپنے شوہر کے قتل کے 6 سال بعد اپنی خاموشی توڑ دی اور 2 مئی 2011 کی رات کو ہونے والے امریکی حملے کی مختصر تفصیل بیان کردی ہے۔ اساما بن لادن کی چوتھی بیوی امل نے کیتھی اسکاٹ کلارک اور ایڈرین لیوی کو ان کی کتاب ’دی ایگزائل: اساما بن لادن کی لڑائی‘ کے لیے اپنی آپ بیتی بیان کی۔برطانوی جریدے ’دی سن‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق امل نے بتایا کہ جس وقت امریکیوں نے ان کے گھر پر حملہ کیا، اس وقت اساما بن لادن، ان کی 3 بیگمات (امل، خیرہ، صیحام) اور ان کے 7 بچے ان کے ساتھ تھے۔امل نے بتایا کہ وہ اور اساما بن لادن ہیلی کاپٹر کی آواز سے خوفزدہ ہو کر اٹھ گئے، انہوں نے بتایا کہ القاعدہ چیف نے اپنے گھر والوں سے کہا ’امریکی آ رہے ہیں‘ جس کے فوری بعد ایک روز دار دھماکا ہوا۔امل نے بتایا کہ جیسے ہی گھر کے دروازے پر دھماکا ہوا تو اساما بن لادن نے گھر والوں سے کہا ’وہ مجھے لینے آئے ہیں آپ لوگوں کو نہیں‘۔اساما بن لادن نے تمام گھر والوں کو گھر کے زیر زمین حصے میں جانے کا کہا جبکہ خود اپنے کمرے ہی میں موجود تھے۔امل نے بتایا کہ ‘انہوں نے اساما بن لادن سے کہا کہ ہمارے کسی اپنے نے ہمارے ساتھ غداری کی ہے’۔اساما بن لادن کی بیوی نے انکشاف کیا کہ ان امریکی فوجیوں میں سے ایک فوجی عربی زبان جانتا تھا جس نے بالکونی میں چھپے ہوئے ان کے 22 سالہ بیٹے خالد کو بلایا جس کے بعد اس نے خالد کو قتل کر دیا۔امل نے بتایا کہ امریکی نیوی سیل کے اہلکار جب اساما کے کمرے میں داخل ہوئے تو وہ اپنے شوہر کے دفاع میں سامنے آگئیں جس کے بعد امریکی فوجی نے ان کی ٹانگ پر گولی ماری جس کے بعد دیگر امریکی فوجی بھی اس کمرے میں داخل ہوئے اور اساما بن لادن کو قتل کردیا۔امریکی فوجیوں نے اساما بن لادن کے گھر والوں کو ان کی شناخت کرنے کے لیے کہا جس پر تمام گھر والوں نے ان کی تصدیق کی جس کے بعد امریکی فوجی اساما بن لادن کی لاش کو گھسیٹتے ہوئے لے گئے۔واضح رہے کہ امریکی نیوی سیل 6 کے کمانڈوز نے یکم اور 2 مئی 2011 کی درمیانی شب پاکستانی علاقے ایبٹ آباد کے ایک کمپاؤنڈ میں کارروائی کی جس کے بعد انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے دنیا کے انتہائی مطلوب دہشت گرد اور القاعدہ کے سربراہ اساما بن لادن کو ہلاک کر دیا ہے۔امریکی کمانڈوز کارروائی کے بعد اساما بن لادن کی لاش کو بھی اپنے ہمراہ لے گئے تھے جبکہ واپس جاتے ہوئے فوجیوں نے اپنا ایک ہیلی کاپٹر تباہ کردیا تھا۔
جو دستاویزات ابھی تک جاری نہیں کی گئی ہیں ان کے بارے میں حکام کا کہنا ہے کہ اْن میں سے چند قومی سلامتی کے منافی ہیں، چند عریاں فلمیں، جبکہ بقیہ چند فائلز کاپی رائٹس حقوق کی وجہ سے سامنے نہیں لائی جا سکتیں۔سی آئی اے کے سربراہ مائیک پومپیو نے کہا کہ ‘ان دستاویز کی مدد سے امریکی عوام کو القاعدہ کو اور ان کی منصوبہ بندی کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ سی آئی اے مستقبل میں بھی عوام تک معلومات پہنچانے کی کوشش کرتی رہے گی۔جاری کی گئی فائیلز میں اساما بن لادن کی ذاتی ڈائری، 18 ہزار دستاویزات، 79 ہزار آڈیو کلپس اور تصاویر اور 10 ہزار سے زائد ویڈیو کلپس شامل ہیں۔
ایبٹ آباد میں اساما بن لادن کا مکان جسے فروری 2012 میں پاکستانی حکام نے منہدم کر دیا تھا۔سی آئی اے نے کہا کہ ماضی میں جاری کی گئی فائلرز کی طرح اس دفعہ جاری کی گئی فائلز کی مدد سے القاعدہ اور شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات، القاعدہ کے اندرونی مسائل اور اساما بن لادن کے مرنے کے بعد تنظیم کو پیدا ہونے والے مشکلات کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
دوسری جانب خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسی سے تعلق رکھنے والے دو سکالرز تھامس جوسلین اور بل روجیو کو یہ فائلز ان کی عوامی نمائش سے پہلی دکھائی گئی تھیں اور ان دونوں سکالرز کے مطابق ان فائلز سے القاعدہ اور ایران کے تعلقات کے بارے میں نئی معلومات ملی ہیں۔جوسلین اور روجیو کے مطابق ایک دستاویز یہ ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح ایران نے القاعدہ کے ‘سعودی بھائیوں’ کو مالی امداد اور تربیت دینے کی پیشکش اس شرط پر کی تھی کہ وہ مشرق وسطیٰ میں امریکی تنصیبات پر حملہ کریں۔’لیکن ساتھ ساتھ دیگر کئی دستاویزات ایران اور القاعدہ کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات پر بھی روشنی ڈالتی ہے، جیسے ایک بار اساما بن لادن نے ایران کے رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای کو خط لکھا جس میں انھوں نے اپنے رشتے داروں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، ڈیوس کے فلیگ مِلر لکھتے ہیں کہ ا مریکا کی جانب سے 2001 میں افغانستان پر حملے کے بعد اساما بن لادن قندہار سے بھاگنے پر مجبور ہوگئے تھے جہاں وہ 1997 سے مقیم تھے۔ وہاں کئی عمارتوں کو جلد بازی میں خالی کیا گیا تھا۔ان عمارتوں میں سے ایک طالبان کی وزارت خارجہ کے بالکل سامنے تھی جہاں القاعدہ کے سینئر رہنما ملاقاتیں کیا کرتے تھے۔ وہاں سے 1,500 آڈیو کیسٹیں ملیں تھیں۔
سی آئی اے نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک افغان خاندان کے ہاتھ اس لوٹی ہوئی عمارت سے ان کیسٹوں کی یہ کھیپ آئی جو وہ فوراً ایک مقامی آڈیو کیسٹوں کی دکان پر لے گئے۔ طالبان کے دور میں تو موسیقی پر پابندی تھی لیکن اب موقع تھا کہ ان کیسٹوں پر نئے اور معروف گانے ریکارڈ کر کے ان سے پیسہ کمایا جائے۔فلیگ مِلر کاکہنا ہے کہ ان ریکارڈنگز سے پتہ چلتا ہے کہ القاعدہ کے اہم دشمن مسلمان رہنما ہیں۔
فلیگ ملر کے مطابق سی این این کے لیے کام کرنے والے ایک کیمرا مین کو ان کیسٹوں کے بارے میں پتہ چلا تو انھوں نے دکاندار کو قائل کر لیا کہ وہ یہ کیسٹیں انھیں دے دے۔ ان کا خیال کہ اس میں اہم مواد ہو گا اور یہ خیال درست نکلا، کیوں کہ یہ القاعدہ کی آڈیو لائبریری تھی۔
ان کیسٹوں کو امریکی ریاست میساچیوسٹس کے ولیمز کالج میں افغان میڈیا پروجیکٹ کو بھجوایا گیا جنھوں نے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے عربی ادب و ثقافت کے ماہر فلیگ مِلر سے ان کیسٹوں کا تجزیہ کرنے کی درخواست کی۔ آج بھی وہ واحد شخص ہیں جنھوں نے یہ تمام کیسٹیں سنی ہیں۔مِلر 2003 میں اس دن کو یاد کرتے ہیں جب انھیں دھول میں لپٹی ہوئی کیسٹوں سے بھری دو پیٹیاں ملی تھیں۔’میں تین دن تک سو نہیں سکا اور سوچتا رہا کہ انھیں سمجھنے کے لیے کیا کچھ کرنا ہو گا۔‘ان دو پیٹیوں میں 1,500 کیسٹیں تھیں،ایک دہائی سے زیادہ عرصے بعد مِلر نے انھیں سن کر جو کچھ دریافت کیا اس پر انھوں نے ایک کتاب لکھی جس کا عنوان ہے: ’دی اوڈیشیس اسیٹک‘ یا ’نڈر درویش۔‘ ان کیسٹوں میں 1960 سے لے کر 2001 تک 200 کے لگ بھگ مختلف افراد کی آوازیں ہیں جن میں اساما بن لادن بھی شامل ہیں۔
اساما بن لادن کی آواز پہلی مرتبہ 1987 کی ایک ٹیپ میں سنی جا سکتی ہے جو افغان عرب مجاہدین اور سوویت کمانڈوز کے درمیان ایک معرکے کے دوران ریکارڈ کی گئی تھی۔ملر کہتے ہیں کہ ’بن لادن اپنی شناخت ایک موثر جہادی کے طور پر بنانا چاہتے تھے۔ یہ ایک آسان کام نہیں تھا کیوں کہ وہ ایک ایسے بانکے نوجوان کے حوالے سے جانے جاتے تھے جو صحرا میں بھی ڈیزائنر بوٹ پہنتا تھا۔لیکن سوڈان سے ان کی بے دخلی کے بعد 1996 میں اس (امریکا کے خلاف) سوچ میں تبدیلی آئی۔‘’لیکن وہ اپنی تشہیر بہت ہی سلجھے ہوئے انداز میں کرتے تھے اور یہ آڈیو کیسٹیں اس کردار کی افسانہ سازی کا حصہ ہیں۔‘ان کیسٹوں میں بن لادن کی 1980 کی دہائی کے آخر اور 1990 کی دہائی کے اوائل میں سعودی عرب اور یمن میں کی گئی تقاریر بھی موجود ہیں۔
مِلر کہتے ہیں: ’جس طرح بن لادن جزیرہ نما عرب کو لاحق خطرے کے بارے میں بات کر رہے ہیں وہ بہت دلچسپ ہے۔ لیکن آخر دشمن ہے کون؟ وہ اس عام سوچ کے برعکس نہ امریکا ہے اور نہ ہی مغرب، بلکہ دوسرے مسلمان ہیں۔‘بعد میں امریکا بن لادن کے لیے اہم نشانہ بن گیا تھا لیکن شروع کے دنوں کی ان تقاریر میں اس جانب کوئی اشارہ نہیں ہے۔ انھیں کئی برسوں تک ایسے مسلمانوں کے بارے میں فکر تھی جو سخت اسلامی اصولوں پر عمل نہیں کرتے تھے۔فلیگ مِلر نے ان کیسٹوں کے تجزیے کے بعد ایک کتاب لکھی،اس کی تفصیل بتاتے ہوئے مِلر کہتے ہیں: ’ان میں سب سے پہلے شیعہ آتے ہیں۔ اس کے بعد کمیونسٹ اور پھر مصری نصاریٰ یہ آڈیو کیسٹیں پروپیگنڈا کا بہترین ہتھیار تھیں اور اس میں کوئی حیرت نہیں کہ بن لادن کو یہ طریقہ پسند تھا۔ ان کو آسانی سے لوگوں تک پہنچایا جا سکتا تھا اور سینسر والے بھی ان پر کوئی توجہ نہیں دیتے تھے۔ یہ مشرق وسطیٰ اور عرب دنیا میں مقبول تھیں جہاں لوگ انھیں دوستوں کے ساتھ مل کر سنتے تھے اور انقلاب کے طریقے سوچتے تھے۔
ان کیسٹوں میں خطبوں اور تقاریر کی بہتات ہے لیکن دیگر چیزیں بھی ہیں۔ جن میں سے ایک میں ایک ایسے جِن کے ساتھ بات چیت بھی ہے جس نے ایک آدمی کے جسم پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس آدمی کے ذریعے بات کرتے ہوئے وہ جن یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسے سیاسی منصوبوں کا علم ہے۔ تاہم بن لادن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ توہم پرستی پر یقین نہیں رکھتے تھے۔
فلیگ ملر کہتے ہیں کہ میرے خیال میں ان کیسٹوں میں فرانسیسی گانوں کا ہونا اس بات کی نشاندہی ہے کہ قندہار میں رہنے والے افغان اور عرب کئی زبانیں بولتے تھے اور ان کو دنیا کا تجربہ تھا۔اس میں افغان اور عرب جنگجؤوں کی ریکارڈنگز بھی ہیں جو 1980 کی دہائی کے آخر میں ایک تربیتی کیمپ میں ناشتہ کر رہے ہیں۔ اس بے تکلفانہ بات چیت سے فرنٹ لائن کی اکتا دینے والی زندگی کا پتہ چلتا ہے۔ یہ گفتگو اچھے کھانوں اور ’مسٹر ہیل فائر‘ کے پکوانوں کی خواہشوں سے بھرپور ہے، جو مکہ میں ایک معروف باورچی ہیں اور اپنے مزیدار میٹھے پکوانوں کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔
ان کیسٹوں میں کئی گھنٹوں پر محیط اسلامی ترانے بھی ہیں جن میں ڈرامائی جنگوں اور مجاہدین کے لیے پیغامات ہیں۔ اور یہ ترانے مجاہدین کو بھرتی کرنے کا اہم ذریعہ تھے۔مِلر کہتے ہیں کہ ’کئی افراد کے لیے یہ دل کے راستے جہاد تک لے جانے کا طریقہ ہے۔‘’یہ نغمے جذبات کو ابھارتے ہیں۔ انھیں ہیڈ فون پر سنیں تو انسان گہرائی میں چلا جاتا ہے کیوں کہ یہ آپ کے تصور کے ساتھ کھیلتے ہیں۔‘ان کیسٹوں میں مغربی پاپ موسیقی گیسٹن گریناسیا کی صورت میں موجود ہے جو الجیریا سے تعلق رکھنے والے یہودی تھے اور جن کی شہرت پہلے صرف فرانس تک محدود تھی۔ وہ اینریکو ماشییس کے نام سے گاتے تھے اور انھیں 1960 اور 70 کی دہائی میں عالمی شہرت ملی تھی۔
فلیگ ملر کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں ان کیسٹوں میں فرانسیسی گانوں کا ہونا اس بات کی نشاندہی ہے کہ قندہار میں رہنے والے افغان اور عرب کئی زبانیں بولتے تھے اور ان کو دنیا کا تجربہ تھا۔ ان میں سے کئی ایک لمبے عرصے تک مغرب میں رہے تھے اور اس بات پر جتنا زور دیا جائے کم ہوگا کہ وہ کثیر پہلو زندگیاں جی رہے تھے۔‘’ان گانوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے کوئی زندگی کے کسی مقام پر الجزائرسے تعلق رکھنے والے اس یہودی کے گانوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا اور شاید یہ جاننے کے بعد بھی کہ یہ اس کے عقائد کے خلاف ہے۔ایک اور غیر متوقع ذکر جو ان کیسٹوں میں ملتا ہے وہ مہاتما گاندھی کا ہے۔ 1993 میں کی گئی ایک تقریر میں اساما بن لادن نے گاندھی کو مشعلِ راہ قرار دیا ہے۔ان کیسٹوں میں وہ پہلی تقریر بھی شامل ہے جس میں بن لادن اپنے حامیوں سے امریکا کی مخالفت کے لیے اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا کہتے ہیں۔بن لادن کہتے ہیں: ’برطانیہ کی مثال لیجیے، وہ اتنی بڑی ریاست ہے کہ کئی لوگوں کا کہنا تھا کہ اس پر سورج کبھی غروب نہیں ہو گا لیکن’برطانیہ اپنی سب سے بڑی کالونی (ہندوستان) سے اس وقت نکلنے پر مجبور ہوگیا تھا جب ایک ہندو گاندھی نے ان کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ ہمیں آج امریکا کے ساتھ ویسا ہی کرنا ہو گا۔ ‘ایک اور ویڈیو پیغام میں اساما یہ کہتے سنے جاسکتے ہیں کہ خوشی منانا ضروری ہے لیکن یہ ہمارے اصل اور سنجیدہ مقاصد پر اثر انداز نہیں ہونی چاہیے۔
بن لادن اپنے حامیوں سے امریکی سفارت خانوں کو خط لکھ کر مشرق وسطیٰ میں امریکی کردار پر اپنے خدشات کا اظہار کرنے کی ترغیب بھی دیتے ہیں۔ اس وقت تک ان کی جانب سے امریکا کے خلاف تشدد کا راستہ اپنانے کی کوئی ترغیب سامنے نہیں آئی تھی۔مِلر کہتے ہیں: ’لیکن سوڈان سے ان کی بے دخلی کے بعد 1996 میں اس سوچ میں تبدیلی آئی۔‘’امریکا کے دباؤ میں 1994 میں ان سے سعودی شہریت لے لی گئی اور وہ اپنا تمام پیسہ بھی کھو چکے تھے۔ اس موقعے پر بن لادن کو اپنے انتہا پسند حامیوں کو جوش دلانے کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کی ضرورت تھی جو انھوں نے 1996 میں تورا بورا میں کی گئی تقریر میں کیا۔‘اس تقریر کو بن لادن کی جانب سے اعلان جنگ قرار دیا جاتا ہے لیکن اس کے مکمل متن کے تجزیے کے بعد مِلر کے مطابق یہ مکمل سچ نہیں ہے۔’اس تقریر کے ایک تہائی آخری حصے میں 15 نظمیں ہیں اور کئی مرتبہ جب اس تقریر کا ترجمہ کیا جاتا ہے تو اس حصے کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اور اس وجہ سے اس وقت میڈیا میں جس طرح اسے پیش کیا گیا اس کے برعکس یہ تقریر اعلان جنگ نہیں تھی۔’یہ امریکا کے خلاف کچھ کرنے کی ضرورت کے بارے میں ہے لیکن ایسا سعودی بدعنوانی کے بارے میں جدوجہد کے وسیع پیغام کی روشنی میں کہا گیا ہے۔‘اس مجموعے میں ملنے والی صرف ایک ریکارڈنگ میں 11 ستمبر 2001 کا کوئی حوالہ ملتا ہے۔ یہ پیغام نیویارک اور واشنگٹن میں ہونے والے حملوں سے چند ماہ قبل اساما بن لادن کے محافظ عمر کی شادی کے موقعے پر ریکارڈ کیا گیا تھا۔
اساما بن لادن نے ایک آڈیو پیغام میں واضح طورپر کہاتھا کہ برطانیہ اپنی سب سے بڑی کالونی (ہندوستان) سے اس وقت نکلنے پر مجبور ہوگیا تھا جب ایک ہندو گاندھی نے ان کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ ہمیں آج امریکا کے ساتھ ویسا ہی کرنا ہو گا۔
اس کیسٹ میں بہت سے قہقہے ہیں لیکن جیسے ہی اساما کی آواز آتی ہے قہقہے رک جاتے ہیں۔ اساما کہتے ہیں کہ خوشی منانا ضروری ہے لیکن یہ ہمارے اصل اور سنجیدہ مقاصد پر اثر انداز نہیں ہونی چاہیے۔‘اس کے بعد بن لادن ایک حوالہ دیتے ہیں۔ ’وہ ’ایک منصوبے‘ کے بارے میں بات کرتے ہیں لیکن تفصیلات نہیں بتاتے۔ وہ کہتے ہیں کہ کس طرح ہم ’ایک خبر سنیں گے‘ اور وہ خدا سے دعا کرتے ہیں کہ ’ہمارے بھائیوں کو کامیابی عطا فرما۔‘’میرے خیال سے یہ نو گیارہ کے حملوں کی طرف اشارہ تھا کیوں کہ وہ اس موقعے پر خاص طور پر امریکا کے بارے بات کر رہے ہیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے پر محیط ان ریکارڈنگز میں، جن میں بن لادن کی آواز ہے، مغرب کے خلاف تشدد کا ذکر بہت کم ہے حالانکہ یہ وہ بات ہے جس کے ساتھ انھیں عمومی طور پر منسلک کیا جاتا ہے۔مِلر کے مطابق ’ان ریکارڈنگز سے پتہ چلتا ہے کہ القاعدہ کے اہم دشمن مسلمان رہنما ہیں۔
’یمن میں القاعدہ کی موجودگی، اس کے عراق پر اثرات اور مسلم دنیا میں مسلمان زندگیوں کی تباہی سے ایک ہی بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ اس تنظیم کی سوچ نے خون خرابے کے مختلف راستے اختیار کیے۔
’ان ٹیپوں میں نو گیارہ کے بارے میں مشکل سے ہی کوئی ایسی چیز ملے گی جو مجھے نو گیارہ کی یاد دلائے۔‘
امریکی حکام نے القاعدہ کے رہنما اساما بن لادن کے کمپاؤنڈ سے ملنے والی مزیدجو دستاویزات جاری کی ہیں جن میں کتابیں، خطوط اور القاعدہ کا آپریشن چلانے کے حوالے سے معلومات شامل ہیں۔
امریکا کی خصوصی افواج نے 2011 میں پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں القاعدہ کے رہنما اساما بن لادن کو ایک خصوصی آپریشن کے دوران ہلاک کرنے کے بعد اساما کی ہلاکت کمپاونڈ میں موجود دستاویزات کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔اساما بن لادن کے کمپاونڈ میں عربی میں کی گئی خط و کتابت کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان میں بھی کتابیں موجود تھیں۔ اساما بن لادن کی کتابوں کی الماری میں عسکری نظریات اور معیشت پر لکھی گئی کتابیں بھی تھیں۔ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلجنس کا کہنا ہے کہ دستاویزات شائع کرنے سے پہلے ان کا ’کڑا‘ جائزہ لیا گیا۔امریکی حکام کی جانب سے شائع کی گئی دستاویزات میں خطوط، نوٹس اور القاعدہ کا آپریشن چلانے کے حوالے سے مواد کا ترجمہ شامل ہے۔ ایبٹ آباد کے کمپاونڈ سے ملنے والے زیادہ تر دستاویزات عربی میں تھیں۔اور ان عربی مسودہ بھی جاری کیے گئے ہیں۔ان دستاویزات میں فرانس کے عنوان کے حوالے سے بھی مواد جاری کیا گیا ہے۔ جس میں فرانس کے کالجوں کی رپورٹس اور فرانس کی فوج، سیاست اور معیشت کے حوالے سے آرٹیکلز شامل ہیں۔امریکا کی جانب سے جاری کردہ خفیہ دستاویزات کے مطابق کمپاونڈ سے ’خودکشی روکنے کی رہنمائی‘ کے عنوان سے ایک مسودہ بھی ملا ہے۔معلومات کے مطابق اساما بن لادن کے کمپاونڈ سے کچھ نقشے اور ویڈیو گیمز کے کھیلنے کے گائیڈ ملی ہیں جبکہ بوب وڈورڈز کی کتاب ’اوبامہ وار‘ بھی ملی۔اس سے قبل 2012 میں ویسٹ پوائینٹ میں امریکی ملٹری اکیڈمی نے اساما بن لادن کی تلاش کے لیے کیے گئے خفیہ آپریشن کے دوران ملنے والی چند دستاویزات جاری کی گئی تھیں۔حکام کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے مزید دستاویزات جلد جاری کی جائیں گی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں