امریکا کے ساتھ دوستی میں بھارتی
شیئر کریں
کردار ناقابل قبول ہے
وزیر خارجہ خواجہ آصف کا کہناہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اختیار کسی ایک ادارے کے پاس نہیں، اس کے خدو خال پارلیمنٹ اور قومی سیکورٹی کمیٹی میں مشاورت سے بن رہے ہیں، پارلیمنٹ کی دی ہوئی گائیڈ لائن کے مطابق ہی خارجہ پالیسی بنائیں گے. پاکستان اپنے مفادات کا بھرپور تحفظ کرتا ہے اور امریکا سے تعلقات میں بھی مفادات کا تحفظ کریں گے، امریکا آج یہاں ہے تو کل نہیں لہذا اس کے لیے ہم نے علاقائی حل ڈھونڈنے کی کوشش کی اور خطے کے ممالک علاقائی حل تلاش کرکے امن کو یقینی بنائیں۔ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ امریکا اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے پاکستان کو قصوروار قرار دیتا ہے۔امریکی وزیر خارجہ کے دورہ جنوبی ایشیا پر وزیر خارجہ خواجہ آصف نے سینیٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کچھ اور تھی اور الیکشن کے بعد کچھ اور تاہم امریکا اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے پاکستان کو قصوروار قرار دیتا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ کی جنوبی ایشیا کے بارے میں نئی جارحانہ پالیسی اور پاکستان کو کھلی دھمکی کے بعد پاکستان کے عوام قدرتی طور پر گہری تشویش میں مبتلا ہوگئے تھے۔ پاکستان کی سول عسکری قیادت نے بڑی دانشمندی اور بصیرت کے ساتھ امریکا کے سفارتی حملے کا مقابلہ کیا ۔پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغانستان اور دوسرے اہم ممالک کا بروقت دورہ کرکے پاکستان کا مقدمہ موثر انداز میں پیش کیا۔ پاکستان کے نئے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے امریکا کا دورہ کرکے پاکستان کا موقف پیش کیا اور امریکی انتظامیہ کو باور کرانے کی کوشش کی کہ پاکستان کے 20کروڑ غیور عوام کی ایٹمی ریاست ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دنیا میں سب سے زیادہ جانی اور مالی قربانیاں دی ہیں۔ ضرب عضب کے کامیاب آپریشن کے بعد آپریشن ردالفساد ہنوز جاری ہے لہٰذا پاکستان کے ساتھ عزت اور وقار کے ساتھ بات کی جائے۔
امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن کی پاکستان آمد پر سول اور عسکری قیادت نے مشترکہ طور پر امریکی وفد سے مذاکرات کیے جس سے امریکا کو یہ پیغام مل گیا کہ خارجہ امور کے بارے میں پاکستان کی سول اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہے۔ امریکا کی پرانی عادت ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف ایک ہی الزام کو بار بار دہراتا ہے کہ پاکستانی علاقوں میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں جو افغانستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں حالاں کہ ضرب عضب کے بعد زمینی حقائق تبدیل ہوچکے ہیں اور دہشت گردوں کے زیر کنٹرول علاقے خالی کرائے جا چکے ہیں۔
پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے پاک امریکا مذاکرات کے بارے میں سینٹ اور قومی اسمبلی کی خارجہ امور کی کمیٹی کو بریف کرتے ہوئے کہا کہ امریکا گزشتہ16 سال سے افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے جس میں اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کا تازہ ثبوت یہ ہے کہ امریکی وزیرخارجہ ٹلرسن نے کابل میں اشرف غنی کے ساتھ صدارتی محل میں ملاقات کرنے کی بجائے امریکی فوجی اڈے بگرام میں ملاقات کی۔ خواجہ آصف نے کہا کہ فاٹا کے علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں میں نمایاں کمی آئی ہے جس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ فاٹا میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کی جاچکی ہیں۔ امریکا نے پاکستان کو 75دہشت گردوں کی فہرست دی ہے جن کا تعلق حقانی نیٹ ورک سے بتایا جاتا ہے۔اس کے جواب میں پاکستان نے بھی امریکا کو ایسے100دہشت گردوں کی فہرست دیدی ہے جو افغانستان میں موجود ہیں اور پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ وزیر خارجہ نے ارکان پارلیمنٹ کو یقین دہانی کرائی کہ پاکستان نہ تو ڈکٹیشن لے گا اور نہ ہی کسی ملک کی پراکسی بن کر قربانی کا بکرا بنے گا۔ امریکا کے ساتھ مساوی بنیادوں پر تعلقات قائم کیے جائیں گے۔ حقارت پر مبنی گفتگو اور بیانات قبول نہیں کیے جائیں گے۔
سینیٹ میںوزیر خارجہ محمد آصف کے اس بیان سے واضح ہوگیا کہ گزشتہ چار سال کے دوران نواز شریف نے کل وقتی وزیر خارجہ نامزد نہ کرکے پاکستان کے ساتھ افسوسناک بے حسی اور غفلت کا مظاہرہ کیا اور اس سے بھارت کو امریکا میں لابنگ کرنے اور نو منتخب صدر ٹرمپ پر دبائو بڑھانے کا موقع مل گیا۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی یہ واضح کرچکے ہیں کہ اب امریکا پاکستان کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں ’’چھڑی اور گاجر‘‘ کی پالیسی پر عمل کرے گااوراسی پالیسی کے تحت پاکستان سے ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ کررہا ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کی بیخ کنی کے لیے استعمال کیے جانے والے ہیلی کاپٹروں کو واپس طلب کرنا بھی پاکستان کو دبائو میں لانے کاایک حربہ ہے، دراصل امریکا جنوبی ایشیا کے لیے ایک طویل المیعاد پالیسی وضع کرچکا ہے جس کا مرکزی نکتہ چین کے بڑھتے ہوئے عالمی کردار کو محدود کرنا ہے،اور چونکہ پاکستان کاشمار چین کے قریب ترین دوستوں میں ہوتاہے اوراپنے محل وقوع کے اعتبار سے اس خطے میں پاکستان کی اہمیت ہے اس لیے امریکا اب پاکستان کو دبائو میں لے کر چین پر دبائو بڑھانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ چونکہ امریکا براہ راست چین سے جھگڑا مول نہیں لینا چاہتااس لیے وہ اس مقصدکے لیے بھارت کے کردار کو بڑھانے کی کوشش کررہاہے۔ اسی طویل المیعاد پالیسی کی روشنی میں امریکا پاکستان پر دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ افغانستان میں بھارت کے کردار کو قبول کرے ،لیکن پاکستان نے اس حوالے سے امریکا پر یہ واضح کردیاہے کہ وہ افغانستان میں بھارت کے کسی کردار کو کسی صورت قبول کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا،یہی نہیں بلکہ وہ امریکا کی جانب سے بھارت کو اس علاقے کاتھانیدار بنانے کی کوششوں کی بھی مزاحمت کرے گا۔پاک فوج کے سربراہ امریکی حکام کو دوٹوک انداز میں بتاچکے ہیں کہ پاکستان کو اب امریکا کی مالی امداد یا اسلحہ کی ضرورت نہیںہے وہ صرف باوقار تعلقات کاخواہاں ہے اور اپنی آزادی وخودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔اس صورت حال میں امریکی رہنمائوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ زمینی حقائق کوسمجھنے کی کوشش کریںاور یہ سمجھ لیں کہ آج کے پاکستان اور9/11 کے فوری بعد کے پاکستان میں بہت فرق ہے، آج عالمی برادری میں پاکستان تنہا نہیں ہے اور امریکا کی ہم پلہ کم از کم دو بڑی طاقتیں پاکستان کی پشت پر موجود ہیں جو نہ صرف یہ کہ پاکستان کے اسلحہ اور دفاعی سازوسامان کی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں بلکہ پاکستان کو اقتصادی طورپر مضبوط ومستحکم بنانے میں بھی امریکا کے مقابلے میں بہت زیادہ مدد فراہم کررہی ہیں، امریکی رہنمائوں کو یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ امریکا پاکستان کے ساتھ تعلقات بھارت اور افغانستان کے حوالے سے نہیں بلکہ براہ راست اور برابری کی بنیاد پر استوار کرکے ہی پاکستان کو اپنے کیمپ میں رکھنے میں کامیاب ہوسکتاہے امریکی رہنمائوں کو یہ خیال دل سے نکال دے کہ پاکستان کے عوام بھارت کی بالادستی قبول کرلیں گے۔
معیاری اور مثالی جماعت ہے اس کے گراف میں کمی تشویشناک اور پاکستانی سماج کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔