غازی علم دین شہید ؒکے لا ہور ہائی کورٹ کے عدالتی فیصلے کاجائزہ
شیئر کریں
(گزشتہ سے پیوستہ)
علم دین کی طرف سے اپیل کی گی اور سیکشن 374 سی آر پی سی کے تحت عدالت کے سامنے ہے۔ مرنے ولا ایک ہندو تھا جو کہ کتب فروش تھا اور ہسپتال روڈ پر اس کی دکان تھی۔ کچھ عرصہ پہلے اُس نے مسلما نو ں کے مذہب کے بانی کے خلاف ایک پمفلٹ چھاپ کر مسلمانوں کو دُکھ پہنچایا تھا۔ ؒراج پال کو دفعہ ایک سو تریپن اے جو کہ پبلی کیشن کے متعلق ہے کہ مطابق جنوری 1927 کو قصور وار ٹھرایا گیا تاہم مئی 1927 میں ہائی کورٹ نے اُس کی سزا کو معطل کردیا۔ چھ اپریل 1929 کو راج پال پر دن دو بجے قاتلانہ حملہ کیا گیا راج پال کو آٹھ زخم آئے زخموں کی نوعیت سے لگتا ہے کہ راج پال نے خود کو بچانے کی کوشش کی ، راج پال کے ہاتھ پر چار زخم لگے تھے۔ اُس کے سر کے با لکل اوپر ایک زخم لگا جس سے اُس کے سر کی ہڈی کریک ہوئی ۔ اُس کی چھاتی پر بھی ایک گہرا زخم آیا۔PW-8 جو کہ آتما رام ہے، اُس سے اپیل کندہ علم دین نے چھ اپریل کی صبح ایک چاقو خریدا علم دین راج پال کی دکان پر دن دو بجے پہنچاراج پال برآمدہ سے باہر گدی پر بیٹھا خطوط لکھ رہا تھا کہ اس پر علم دین نے حملہ کر دیا اس واقعہ کے چشم دید گواہ ناتھ PW-2اور بھگت رام (pw-3)جو کہ راج پال کے ملازم تھے۔ان میں سے گواہ (pw-2)بر آمدے کے اندر بیٹھا تھا اور (pw-3)گواہ برآمدے کے باہر شیلف میں کتابوں کو ترتیب دے رہا تھا۔انھوں نے الارم بجایا کتابیں علم دین پر پھینکیں ۔کر دناتھ اور بھگت رام جن کے ساتھ باہر سے نانک چاندpw-1) اور پارمانانند مل گئے اور انھوں علم دین کا پیچھا کیاودیا راتھن جوکہ علم دین کو اپنے دفترکے دروازے سے دیکھ رہا تھا نے دوسرے لوگوں کی مددسے علم دین شہید کو پکڑ لیا۔علم دین بارباراونچی آواز میں شور مچانے لگا کہ وہ نہ تو چور ہے نہ ہی ڈاکو بلکہ اس نے تو نبی پاک ﷺ کا بدلہ لیا ہے۔
علم دین کو مقتول کی دوکان پر لے جایا گیا اور پولیس کو بلایا گیا اور پولیس نے علم دین کو پکڑ لیا اور تفتیش کے دوران کردناتھ نے جو بیان دیا اس کے مطابق جب علم دین کو پکڑا گیا۔اُس نے نہ تو کوئی مزاحمت اور نہ ہی اُس نے اپنے کسی ساتھی کا نام بتایا علم دین کے بیان پر آتمارام کی دکان کو تلاش کیا گاااور 9 اپریل کو آتمارام نے علم دین کو شناخت پریڈ میں شناخت کرلیا یہ شناخت پریڈ مجسٹریٹ کی زیر نگرانی ہوئی اور علم دین کو اُسی شخص کے طور پر پہچان لیا جس کو اُس نے چاقو فروخت کیا تھا جوکہ راچبال کی دکان سے ملا اس میں کوئی شک نہیں کہ آتمارام نے اس طرح کے چاقو اور لوگوں کو بھی فروخت کیے ہوں گئے۔ اسی طرح کے دو چاقو اُس نے بطور ثبوت عدالت پیش کیے آتمارام نے بتایا کہ اُس نے یہ چاقو ایک میڈیکل ا سٹور سے نیلامی میں خریدے تھے۔ مسٹر جناح نے پراسیکیوشن کی کہانی پر مختلف groundsپر attackکیا انھوں نے اسی بات پر زور دیا کردی ناتھ قابل اعتما د گواہ نہیں ہے کیونکہ1) (وہ مقتول کا ملازم تھاپس وہ اس لیے intrested تھا2) (اُس نے ایف آئی آر میں نہیں بتایاکہ (a) کہ بھگت رام اُس کے ساتھ تھا ) (b اور علم دین نے یہ کہا کہ انھوں پیغمبرا سلامﷺ کابدلہ لیا ۔کیونکہ بھگت رام بھی راج پال کا ملازم تھا اس لیے وہintrestedکی صف میں ہے بیانات کی صحت پر اعتراض لگائے گئے جوکہ پولیس کو دئیے گئے تھے جس کے سبب آتمارام کاپتہ چلا اور آتمارام کی وجہ سے علم دین کی شناخت ہوئی اور آتمارام نے چاقوکی فروخت کی بابت بیان دیامسٹر جناحؒ نے اُس کو جھوٹا قرار دیا ۔
جج صاحب نے شہادتوں کو ڈسکس کرنے کے بعدیہ قرار دیا کہ جرم ثابت ہو گیا ہے علم دین کی عمر کم ہے وہ19 یا20 سال کاہے اور اُس کا یہ ایکٹ اپنے مذہب کے بانی کی وجہ سے ہے جیساکہ عامر بنام امپیرر کیس میں تھا اس بناءپر کہ کیونکہ قاتل کی عُمرکم ہے اور وہ 19یا20سال کا ہے یہ وجہ کافی نہیں ہے کہ اُسے قانون کے مطابق سزانہ دی جائے ۔ مسٹر جناحؒ کی یہ Reason کے قاتل کی عُمر تھوڑی ہے اور اُس کو کپیٹل سزانہ دی جائے ۔ اور اُسے جان بوجھ کر کسی کو قتل کرنے کی سزانہ دی جائے ۔ میں اپیل کو ڈ سمس کرتا ہوں اور سزائے موت کی توثیق کرتا ہوں ۔یہ فیصلہ ہے جو لاہور ہائی کورٹ نے لکھا اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا غازی علم دین شہید صاحب نے یہ بات کہی کہ اُنھوں نے راج پال کو قتل نہیں کیا۔سوال یہ بھی ہے کہ کیا غازی صاحب نے راج پال کو کسی شے کے لالچ میں قتل کیا۔ اُنھوں نے تو یہاں تک کہہ د یا کہ جب لوگوں نے اُن کو راج پال کو جہنم رسید کرنے پر پکڑا تو انھوں نے کہا کہ نہ تو میں چور ہو اور نہ ہی ڈاکو میں نے تو یہ سب اپنے نبی پاک ﷺ کی عزت کی خاطر کیاہے ایک اور سوال یہ بھی ہے کہ اگر غازی صاحب مصلحت کا شکار ہو جاتے تو جرم سے انکار کردیتے اور اپنی جان بخشی کروالیتے۔یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی بھی الہامی مذہب کے پیروکاروں کو
کیا صرف آزادی رائے کے اظہار کے نام پر دکھ پہنچایا جاسکتا ہے۔ دین اسلام کے مطابق تمام انبیاءاکرام کی عزت و ناموس کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ لیکن نبی پاک ﷺ کے خلاف آئے روز مغربی ممالک کے نام نہاد آزادی رائے کے پرستاوروں کی جانب سے گستاخی کی جاتی ہے اور مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کا امتحان لیا جاتا ہے۔ ایسے میں پاکستان میں 295C کا قانون اِس بات کی دلیل ہے کہ اگر کسی بھی شخص پر انبیاءاکرام کی گستاخی کا الزام لگتا ہے تو قانون کے مطابق کاروائی کی جائے اور انصاف کے تما م تر تقاضوں کو پورا کیا جائے۔ نہ کہ عوام خود انصاف کریں انصاف کرنا عدالتوں کا کام ہے۔
آج تک توہین رسالت کے قانون کے تحت کسی بھی غیر مسلم کوپاکستان میں سزا نہیں دی گئی۔ آخری الہامی کتاب قران مجید نے صاحب قران جناب نبی پاک ﷺ کی عزت وحرمت کے متعلق واضع احکامات دیئے ہیں ۔اقبالؒ کے مطابق مسلمان کے اندر روح محمدﷺ ہے اور جب روح محمد مومن کے اندر ہے تو پھر کوئی بھی مومن کسی بد بخت کی جانب سے نبی پاک ﷺ کی شان اقدس میں کیسے گستاخی برداشت کرسکتا ہے۔ اگر غازی علم دین شھید ؒ کے دور میں بھی توہین رسالت کا قانون ہوتا تو پھر کسی راج پال کو ایسا کرنے کی جُرات نہ ہوتی۔ جناب غازی علم دین شہید نے اپنی زندگی قربان کرکے اپنے آقاﷺ کی شفاعت حاصل کرلی۔ حضرت قائد اعظمؒ جیسی عظیم ہستی جناب غازی صاحبؒ کی وکالت کرنے کے لیے لاہور پہنچی۔ لیکن شہادت کا جام پینے کے لیے بےقرار غازی صاحبؒ اپنے آقا کریم ﷺ کے نام پر فدا ہوگے۔ اِس لیے جو نام نہاد لبرل فاشسٹ یہ شور مچاتے ہیں کہ 295C قانون کو ختم کیا جائے تو اِن کو یہ نظر نہیں آتا کہ اِسی قانون کی وجہ سے تو عدالت کو انصاف کرنے کا موقع ملتا ہے ورنہ ہر مسلمان غازی علم دین شھید ہی تو ہے۔بقول جناب مولانا رومیؒ ، ملتِ عشق از ہمہ ملت جُدا است ، عاشقاں را مذہب و ملتِ خدا ست، یعنی عشق والوں کا مسلک سب سے جُدا ہوتا ہے، عاشقوں کا مسلک اور مذہب صرف خُدا ہوتا ہے۔