اے ڈی خواجہ کو ہٹانے کافیصلہ
شیئر کریں
وزیراعلیٰ سندھ کی زیر صدارت سندھ کابینہ کے اجلاس میں ایک بار پھر آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو ہٹاکر نیا آئی جی لانے کی سفارش کردی گئی ہے۔ کابینہ میں آئی جی سندھ نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ایڈیشنل آئی جی، ڈی آئی جی اور ایس ایس پی کی پوسٹنگ دو سال کے لیے ہوتی ہے، باقی افسران کی تعیناتی کا دورانیہ ایک سال تجویز کیا ہے۔اے ڈی خواجہ نے کہا کہ آئی جی کو پولیس افسر کے ٹرانسفر کا اختیار ہونا چاہیے،اور مدت سے قبل کسی افسر کا ٹرانسفر ٹھوس وجوہات پر ہی کیا جائے۔آئی جی سندھ نے تجویز دی کہ ایس ایچ او زپر اسکول کورس کوالیفائیڈ ہونا چاہیے، ایس ایچ او کی عمر 55 سال سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے جب کہ ایس ایچ اوز کو سب انسپکٹر یا انسپکٹر کے رینک کا ہونا چاہیے۔آئی جی سندھ کی بریفنگ کے بعد سیکریٹری داخلہ نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ وزیر داخلہ، ایڈووکیٹ جنرل اور سیکریٹری داخلہ کی کمیٹی وزیر اعلیٰ نے قائم کی تھی، آئی جی سندھ نے پولیس افسران کی 4 کیٹگریز بتائی ہیں، لیکن کمیٹی نے آئی جی سندھ کی اس تجویز کی مخالفت کی ہے۔سیکریٹری داخلہ نے کمیٹی کی رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا ہے کہ سینئرافسران کی ٹرانسفر اور پوسٹنگ کا اختیار حکومت کے پاس ہوتا ہے، ٹرانسفر اور پوسٹنگ کا اختیار دیگر صوبوں میں وزیراعلیٰ کے پاس ہے، گریڈ 1 سے گریڈ 21 تک کے ٹرانسفر اور پوسٹنگ کے اختیارات آئی جی کے پاس نہ ہوں۔جب کہ سیکریٹری سروسز نے بریفنگ میں کہا کہ اے ڈی خواجہ کو 2016 میں او پی ایس پر آئی جی لگایا گیا لیکن اب سپریم کورٹ نے تمام او پی ایس ختم کردی ہیں اس لیے سندھ حکومت اے ڈی خواجہ کی خدمات وفاق کے سپرد کرے اور اے ڈی خواجہ کو عدالتی فیصلے کی روشنی میں فوری ہٹایا جائے۔سیکریٹری سروسز کا کہنا تھا کہ صوبے میں اس وقت اے ڈی خواجہ سے سینئر 22 گریڈ کے افسر سردار عبدالمجید دستی موجود ہیں جنہیں نیا آئی جی بنانے کی سفارش کی جائے گی، وفاقی حکومت سے کہا جائے گا کہ سندھ حکومت پر بھی دیگر صوبوں کی طرح رولز لاگو کیے جائیں۔اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ ہم پولیس رولز آئین و قانون کے مطابق بنانا چاہتے ہیں، چاہتے ہیں رولز سے پولیس کی کارکردگی بہتر ہو جب کہ پولیس رولز ایسے ہوں جس میں حکومت کی رٹ قائم رہے۔مراد علی شاہ نے کہا کہ چاہتے ہیں کہ عوام کے مفادات میں کام کریں، میری کوشش ہے کہ اداروں کو بہتر کروں۔دوسری جانب ترجمان وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ آئی جی پولیس رولز بنائیں گے، سندھ پولیس رولز پر کابینہ بحث کرے گی اور کابینہ پولیس رولز کو آئین کے مطابق منظور کرے گی۔
انسپکٹر جنرل سندھ کو تبدیل کرنے کے حوالے سے سندھ کابینہ کافیصلہ اصولی طور پر درست ہے کیونکہ حکومت کو اپنے صوبے میں امن وامان قائم رکھنے کے لیے انتظامات کرنے اورضرورت کے مطابق اپنے اہلکاروں اور افسران اور محکموں کے سربراہوں کو تبدیل کرنے کاحق ہونا چاہئے،وفاق کی جانب سے کسی صوبے پر زبردستی کسی افسر کو مسلط کرنے کاحق نہیں ہونا چاہئے،جہاں تک سندھ کے موجودہ آئی جی اے ڈی خواجہ کاتعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک فرض شناس اور دیانت دار افسر کی حیثیت سے مشہور ہیں،اگرچہ وہ اپنی تعیناتی کے دوران کراچی میں اسٹریٹ کرائمز ختم کرنے میںمکمل طورپر ناکام رہے اور حال ہی میںگلستان جوہرمیں خواتین پر چھری سے حملے کی وارداتوں میں ملوث ملزم یا ملزمان کا پتہ چلاکر شہر کی خواتین کو تحفظ کا احساس دلانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ، اسی طرح اے ڈی خواجہ اپنی تمام تر نیک نامی کے باوجود سندھ کاتھانہ کلچر تبدیل کرنے یہاں تک کہ تھانیداروں کو سائلین کی ایف آئی آر درج کرنے کاپابند بنانے میں بھی کامیاب نہیںہوسکے اورآئی جی سندھ کے تمام تر دعووں کے باوجود سندھ کے دیہی علاقے توکجا کراچی جیسے بڑے شہروں میں بھی لوگ واقعات کی ایف آئی آر درج کرانے کے لیے دھکے کھاتے نظر آتے ہیں، اور لوگوں کے تحفظ کے لیے پیٹرولنگ کے لیے تھانوں کو دی جانے والی موبائلیں لوگوں کو اغوا کرکے ان سے رقم بٹورنے کے لیے استعمال ہورہی ہیں اور جگہ جگہ چیکنگ کے نا م پر ناکے لگاکر لوگوں کولوٹنے کاسلسلہ بند کرانے کے حوالے سے موجودہ نیک نام آئی جی قطعی طورپر ناکام رہے ہیں ، لیکن اس کے باوجود سندھ حکومت کے پاس ان کو ہٹانے اوران کی جگہ ان سے زیادہ بہتر گریڈ کے کسی افسر کوتعینات کرنے کا پورا پورا قانونی اور اخلاقی جواز موجود ہے ، کیونکہ خود پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ اوپی ایس پر تعینات کیے جانے والوں کو ہٹاکر دیگر اہل افراد کو ان کی جگہ تعینات کرنے کاحکم دے رکھاہے ، اس لیے سندھ حکومت کی جانب سے ان کو ہٹائے جانے کی سفارش سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد کی جانب ایک قدم کہاجاسکے گا اسی طرح چونکہ ان کی جگہ ان سے کسی جونیئر افسر کو تعینات نہیں کیاجاسکا ہے بلکہ ان سے زیادہ گریڈ کے افسرکو یہ ذمہ داری سونپنے کا خیال ظاہرکیاجارہا ہے اس لیے اخلاقی طورپر ایک بڑے گریڈ کے افسر کے ہوتے ہوئے کمتر گریڈ کے افسر کو کسی بھی عہدے پر فائز رکھنا زیادہ گریڈ کے سینئر افسر کے ساتھ ناانصافی اور بے اصولی ہے، جہاں تک اے ڈی خواجہ کے اس موقف کا تعلق ہے کہ دیگر صوبوں میں بھی گریڈ 21 کے پولیس افسر ہی آئی جی کے عہدے پر براجمان ہیں تو ان کی اس دلیل میں اس لیے کوئی وزن نہیں ہے کہ ہوسکتاہے کہ دیگر صوبوں میں اس عہدے کے لیے گریڈ 22 کا کوئی افسرا دستیاب ہی نہ ہو، اور اگر ایسا نہیں بھی ہے تو کسی اور صوبے میں سینئر افسر کے ساتھ ناانصافی کو جواز بنا کر سندھ حکومت کو بھی ناانصافی پر کاربند رہنے کا مشورہ کسی طو ر بھی درست قرار نہیں دیاجاسکتا ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ وفاقی حکومت کو سندھ کابینہ کے اس فیصلے کااحترام کرتے ہوئے موجودہ آئی جی سندھ کی خدمات سندھ سے واپس لے کر سندھ حکومت کی سفارش کے مطابق گریڈ 22کے ایک قابل اور دیانت دار افسر کو اس عہدے پر تعینات کرنے کا اعلان کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے، وفاق کی جانب سے اس حوالے سے سندھ حکومت کی سفارش تسلیم کیے جانے سے سندھ اور وفاق کے درمیان تعلقات زیادہ بہتر اور خوشگوار بنانے کاموقع ملے گا اور ایک حقدار افسر کو اس کاجائز حق بھی مل جائے گا۔