سزا کے خوف سے شریف خاندان کا واویلا
شیئر کریں
احتساب عدالت کی جانب سے تیسرے مقدمے میںبھی فرد جرم عاید کئے جانے کے بعد سے سابق وزیراعظم نوازشریف اور انکی صاحبزادی مریم سپریم کورٹ کے فیصلوں پر برہم نظرآتے ہیں۔ سابق وزیراعظم نے گزشتہ دنوں کہا کہ اْن کیخلاف عدالتیں انصاف کا خون کر رہی ہیں وہ سپریم کورٹ کے اقامہ پر فیصلہ کرنے اور احتساب عدالت کا انکی غیرموجودگی میں فردجرم عائد کرنے کو نئی روش کی عدالتیں اور نرالے ڈھنگ کے فیصلے قرار دے رہے ہیں۔ گزشتہدنوں احتساب عدالت نے نا اہل قرار دیے گئے میاں نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم اور داماد صفدر پر لندن میں غیر قانونی اثاثے اور جعلی دستاویزات بنانے پربد عنوانی کے الزام میں فرد جرم عاید کی گئی ہے۔ فرد جرم کے مطابق 2006کی ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے اور گلف اسٹیل کی فروخت کا معاہدہ بھی درست نہیں۔ اس پر نواز شریف نے اپنا پرانا موقف دہرایا کہ کیس پانامہ کا تھا، فیصلہ اقامہ پر آیا۔ یہ اشارہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی طرف ہے جس کے تحت نواز شریف کو بطور وزیراعظم نا اہل قرار دیا گیا۔ لندن میں گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے کہاکہ ’’انصاف ہورہاہے یا اس کا خون؟ واپس آکر مقدمات کا سامنا کروں گا‘‘۔ فرد جرم عاید ہونے پر ان کا کہناتھا کہ غیر موجودگی میں فرد جرم عاید کرنے کی نظیر نہیں ملتی۔ اس مسئلے پر ماہرین قانون کی آرا منقسم ہیں۔ سابق اٹارنی جنرل سمیت کئی ماہرین کا اس پر اتفاق ہے کہ کسی کی غیر موجودگی میں اس پر فرد جرم عاید نہیں کی جاسکتی، تاہم کچھ کا کہناہے کہ احتساب عدالت کے قانون کے تحت غیر موجودگی میں فرد جرم عاید ہوسکتی ہے۔ اس پر احتجاج کے بجائے میاں نواز شریف عدالت کی طلبی پر حاضر ہوجاتے تو ایسا کوئی سوال ہی نہ اٹھتا۔ لیکن وہ اپنی اہلیہ کی علالت کو عدم حاضری کا جواز بنا تے رہے ،دراصل انھیں اس بات کا اندازہ تھا کہ عدالت ان پر فرد جرم عاید کرے گی اس لیے انھوں نے جان بوجھ کر عدالت سے غیر حاضر ہوکر عدالتی فیصلے کو متنازع بنانے کی کوشش کی اور اب اپنے خلاف ہونے والے فیصلوں کو انصاف کا خون قرار دے کر عوام کی ہمدردیاں سیمٹنے کی کوشش کررہے ہیں،یہ ایک حقیقت ہے کہہر سزا یافتہ شخص یہی سمجھتا ہے کہ اس کے ساتھ پوری طرح انصاف نہیں ہوا، لیکن ہر ایک اس کا اعلان نہیں کرتا کہ عدالتی فیصلے کو نا انصافی قرار دینا توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔ تاہم پورا شریف خاندان اور ن لیگ کے چوٹی کے رہنما توہین عدالت کے شوق میں تمام حدیں پار کرچکے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل غورہے کہ ابھی تو عدالت نے فرد جرم عاید کی ہے عدالت نے انھیں مجرم نہیں قرار دیاہے،لیکن یہ احساس جرم ہے جس کی وجہ سے وہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی چوری پکڑی جاچکی ہے اور اب ان کابچنا محال ہے یہی وجہ ہے کہ مقدمے کی باقاعدہ سماعت شروع ہونے سے قبل ہی رونے پیٹنے کاآغاز کردیاگیاہے تاکہ جب فیصلہ آئے تو یہ کہہ سکیں کہ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہوگا ،ہمیں سزا دینے کافیصلہ کرلیاگیاہے ، مریم نواز فرماتی ہیں کہ ’’تما شہ نہ بنائیں،اس کے ساتھ ہی وہ احتساب عدالت کو دبائو میں لینے کے لیے دھمکیاں بھی دے رہی ہیں،اور عام اجتماعات میں وہی بات دہرارہی ہیں جو ان کے والد محترم نے اپنے ایک جان نثار نہال ہاشمی کی زبان سے ادا کروائے تھے ،مریم صفدر نے گزشتہ روز ایک نہیں بلکہ کئی مقامات پر یہ دھمکی دی کہ احتساب کو انتقام بنانے والوں کا بھی احتساب ہوگا، انتقام سرچڑھ کر بول رہا ہے، ملی بھگت ہے تو سزا سنادیں‘‘۔ مریم نواز کا مخاطب کون ہے، کون تماشا بنارہاہے اور وہ کس کے احتساب کی بات کررہی ہیں؟ اس کی وضاحت چنداں ضروری نہیں ہے کیونکہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ وہ کیاکہنا چاہتی ہیں اور ایک ہی زبان میں کس کس کو نشانہ بنانا چاہتی ہیں۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ان کے والد بھی ملی بھگت اور انتقا م کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ مریم نواز کا مخاطب کون ہے، اس کی وضاحت ایک وفاقی وزیر کی طرف سے پیش کی گئی صفائی سے ہوجاتی ہے کہ مریم نواز نے عدالت کے بارے میں یہ باتیں نہیں کہیں،لیکن اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ مریم صفدر نے یہ باتیں عدالت کے بارے میں نہیں کہیں تو انھیں اب یہ بھی بتادینا چاہئے کہ ان سے انتقام کون لے رہا ہے۔ اگر شریف خاندان سمجھتا ہے کہ فرد جرم میں لگائے گئے الزامات کی کوئی حقیقت نہیں تو بہتر یہ ہے کہ وہ اپنا یہ دعویٰ عدالت ہی درست ثابت کرنے کی کوشش کریں۔ نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے پاس دولت کے انبار موجود ہیں ان کے پاس بہترین وکیلوں کی فوج ہے جو ایک عرصے تک مقدمہ لڑسکتی ہے پھر انھیں ڈر کس بات کاہے اور وہ بلبلاتے کیوں پھر رہے ہیں۔
چوہدری نثار کے سمجھانے اور خود شہباز شریف کے توجہ دلانے کے باوجود شریف ،ان کی صاحبزادی اور مصاحبین کی جانب سے عدلیہکے ساتھ محاذ آرائی بڑھتی جارہی ہے اور عدالتی فیصلوں کو ملی بھگت قرار دے کراس معاملے میںبالواسطہ طورپر ایک مقتدر ادارے کو بھی گھسیٹنے کی کوشش کی جارہی ہے، نواز شریف نے اسے عدلیہ اور طاقت کا گٹھ جوڑ قرار دیا تھا۔ عدالت عظمیٰ کے بڑے جج کہہ رہے ہیں کہ سب سننے اور جاننے کے باوجود صبر اور حوصلے سے کام لے رہاہوں۔ عدلیہ کو نشانہ بنانے والے ہوش کے ناخن لیں۔خود نواز شریف کی اتحادی جماعتیں بھی نواز شریف کے اس طرز عمل کو غلط سمجھتی ہیں جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کو بھی مجبوراً یہ کہنا پڑگیا ہے کہ عدلیہ کو نشانہ بنانے والے ہوش کریں اور ملکی مفاد کے لیے اپنے اداروں پر اعتماد رکھیں، انھوں نے بھی یہ بھی واضح کردیاہے کہ وہ خود بھی ملکی مفاد کے لیے صبر اور حوصلے سے کام لے رہے ہیں اور سب سننے اورجاننے کے باوجود کوئی ایکشن نہیں لے رہے ہیں۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ یہ ملک ایک گہرے ہمہ جہتی بحران کی گرفت میں ہے یہ بحران سیاسی بھی ہے آئینی بھی، معاشی بھی اور معاشرتی بھی۔ گزشتہ ستر سال کے دوران سوائے چند مستثنیات کے اس ملک میں قانون، عدالتی، عدل و انصاف، سماجی اور معاشی عدل سے کوسوں دور ہے۔ انتظامیہ کی ہٹ دھرمی اور خصوصاً مسلم لیگ(ن) کے سربراہ میاں نواز شریف کی ’’میں نہ مانوں‘‘ کی گردان نے عدلیہ اورفوج کے اداروں کو بے توقیرکرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے یہ بات اپوزیشن نہیں کہہ رہی بلکہ خود نواز شریف کے جاں نثار چوہدری نثار، شہباز شریف، حمزہ شہباز بھی دھیمے لب و لہجے میں اپنے بڑے بھائی اور لیڈرکو عدلیہ اور فوج سے محاذ آرائی کرنے سے منع کررہے ہیں ۔موجودہ صورت حال میں جب یہ ملک قرضوں کے بے پناہ بوجھ میں دباہواہے اگر آرمی چیف اور انکے ترجمان پاکستان کی معیشت کو قومی سلامتی کے ساتھ جوڑتے ہیں تواس میں کیا غلط ہے۔ معیشت ڈانواں ڈول ہے ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے طاقتور لابیاں چاہے وہ حکومت کی حمایتی ہیں یا مخالف پورا ٹیکس دینے کے لیے تیار نہیں اور اسحاق ڈار صاحب عام لوگوں پر بالواسطہ ٹیکس بڑھائے چلے جارہے ہیں۔ 80 ارب روپے سے زائد کا منی بجٹ آگیا ہے درآمدی اشیاپر 40 سے 80 فیصد تک ڈیوٹیاں لگا دی گئی ہیں۔ سامان تعیش پر تو ڈیوٹی بڑھانا سمجھ میں آتا ہے مگر دوائوں دودھ اور بچوں کے استعمال کی چیزوں کو مہنگا کرنا، عوام سے کون سی سے ہمدردی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات پر حکومت 35 فیصد سے زائد فی لٹرکما رہی ہے۔ عام آدمی ٹیکسوں کے بوجھ تلے سسک رہا ہے مگرحکومت بڑے بڑے ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس کو ٹیکس نیٹ میں لانے سے گریزاں ہے۔ صحت کے نام پر بڑے بڑے ڈاکٹر10 لاکھ سے 50 لاکھ روپے ماہانہ کی ذاتی پریکٹس کرتے ہیں۔ لاکھوں روپوں کے عوض دل، دماغ اور گردوں کے آپریشن کرتے ہیں مگرٹیکس ایک دھیلے کا نہیں دیتے ہیں۔ مریضوں کو 3 ہزار فیس کے عوض ٹوکن عنایت کرتے ہیں اور کوئی رسید اور آمدنی کا ریکارڈ نہیں دکھاتے ہیں۔
بجٹ کا خسارہ دور کرنے کے لیے صرف اگر بڑی بڑی فیسوں والے ڈاکٹروں سرجنوں حتیٰ کہ نیم عطائیوں کی ناجائز آمدنیوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔اس طرح سالانہ 500 ارب کی وصولیاں ہوسکتی ہیں۔ بڑے بڑے جاگیرداروں سے ان کی زرعی آمدنی پرٹیکس لگانے سے 300 ارب روپے سے زائد وصولیاں ہوسکتی ہیں۔لیکن اس کا ہوش کسے ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ میاں نواز شریف خود سیاسی شہید بننے کے لیے بے تاب ہیں تاکہ عام انتخابات میں اسے کیش کراسکیں۔