بھارت کی تھانیداری پاکستان کے لیے ناقابل قبول ہے
شیئر کریں
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی کا کہنا ہے کہ امریکا پاکستان پر نظر رکھنے کے لیے بھارت سے بھی مدد لے سکتا ہے کیونکہ واشنگٹن خطے میں ایسی حکومت کو برداشت نہیں کرے گا جو دہشت گردوں کو پناہ دیتی ہے۔ بھارتی نڑاد امریکی سیاست دان کا کہنا تھا کہ امریکا کو افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے بھارت کی مدد کی ضرورت ہے جبکہ امریکا، افغان جنگ کے جلد خاتمے کے لیے جنوبی ایشیا کی اس طاقت ور ریاست کی جانب مدد کے لیے دیکھ رہا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت، افغانستان کے بنیادی ڈھانچے اور تعمیر نو کے لیے دی جانے والی امداد کے تناظر میں امریکا کی مدد کر سکتا ہے بلکہ بھارت پڑوسی ملک پاکستان پر نظر رکھنے کے لیے بھی امریکا کی مدد کر سکتا ہے۔
نکی ہیلی نے کہا کہ ہم پاکستان کوجوابدہ بناناچاہتے ہیں جس کے لیے بھارت ہماری مدد کرنے جارہا ہے۔ایک غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی سفیر نے واشنگٹن میں امریکا بھارت دوستی کونسل کی ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان اور جنوبی ایشیامیں امریکا کا مفاد وہاں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کا خاتمہ ہے جو امریکی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بنے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم جوہری ہتھیار بھی دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگنے کے خواہاں ہیں ۔ اس تناظر میں ہم اہم اہداف کے حصول کے لیے اپنی قومی طاقت کے تمام اقتصادی‘ سفارتی اور عسکری عناصر کا بھرپور استعمال کرینگے۔ انکے بقول صدر ٹرمپ نے پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے دفاع کے حوالے سے سخت پالیسی اپنائی ہے۔ پاکستان دہشت گردی کیخلاف جنگ میں امریکا کا زبردست اتحادی ہے اور ہم اسکی قدر کرتے ہیں تاہم دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتیں گے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا کو محفوظ افغانستان کے لیے بھارت کی مدد درکار ہے کیونکہ نئی دہلی نہ صرف کابل کی تعمیرنو میں اہم کردار ادا کررہا ہے بلکہ یہ ملک ہمیں پاکستان پر گہری نظر رکھنے اور دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے خاتمہ میں بھی بھرپور معاونت فراہم کر سکتا ہے۔ انکے بقول بھارت کے تعاون سے ہی افغانستان کی خوشحالی‘ استحکام اور دہشت گردی کے انفراسٹرکچر کو مکمل طور پر تباہ کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن نے بھی اس امر کا اظہار کیا ہے کہ امریکا بھارت کو مزید بہتر دفاعی صلاحیتوں کا حامل دیکھنا چاہتا ہے‘ ان کے بقول دہشت گردی کیخلاف امریکا بھارت ایک ساتھ ہیں ۔
ری پبلکن ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کا صدر منتخب ہونے کے بعد اس وقت کے وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف سے ٹیلی فونک بات چیت کے دوران پاکستان کے لیے جن نیک توقعات کا اظہار کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کردار ادا کرنے کی بھی خواہش ظاہرکی جس کا بعدازاں امریکی نائب صدر پنس نے اعادہ کیا‘ اس سے پاک امریکا تعلقات خوشگوار ماحول میں مثبت دھارے پر استوار ہوتے نظر آنے لگے تھے اور یوں محسوس ہونے لگاتھا کہڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران دہشت گردی کی جنگ کے حوالے سے پاکستان اور مسلمانوں پر ملبہ ڈالنے کی اپنی کوششوں اور اپنے انتخابی منشور اور بیانات کی وجہ سے پاک امریکا تعلقات میں پیداہونے والی دوریوں کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں تاہم صدر کے منصب کا حلف اٹھانے کے بعد انہوں نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں ہی مسلمانوں اور پاکستان کے حوالے سے پہلے سے بھی زیادہ تلخ لہجہ اختیار کرلیا اور ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کی اصطلاح ایجاد کرکے انہوں نے ہر قسم کی دہشت گردی کا ناطہ دین اسلام کے ساتھ جوڑنے کی اپنی سوچی سمجھی حکمت عملی کا اظہار کردیا۔ اس کے بعد کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب ٹرمپ انتظامیہ اور خودڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان سے ڈومور کے تقاضے کرتے ہوئے اسے مطعون ٹھہرانے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ ٹرمپ نے جنوبی ایشیاکے لیے امریکا کی نئی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے تو پاکستان کو دہشت گردی کے حوالے سے موردالزام ٹھہرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور پاکستان سے حقانی گروپ اور دوسری کالعدم تنظیموں کے مبینہ محفوظ ٹھکانوں کیخلاف سخت آپریشن کا ہدایت نامہ جاری کرکے یہ بھی باور کرادیا کہ بصورت دیگر پاکستان کو امریکا کی جانب سے ملنے والی فوجی اور سول گرانٹ میں کمی یا اس کے مکمل خاتمہ‘ فرنٹ لائن اتحادی کے اسٹیٹس کی واپسی اور ڈرون حملے بڑھانے جیسے سخت اقدامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان کے بارے میں یہی لب و لہجہ بعدازاں امریکی نائب صدر‘ وزیر خارجہ‘ وزیر دفاع اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی نے بھی اختیار کرلیا جبکہ بھارت کے ساتھ ٹرمپ انتظامیہ کی گاڑھی چھننے لگی۔ انتہاپسند بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے امریکا کا دورہ کیا تو ان کے ساتھ بیٹھ کر صدر ٹرمپ نے پاکستان سے ڈومور کے تقاضے کئے اور ساتھ ہی یہ ہدایت نامہ بھی جاری کیا کہ وہ اپنی سرزمین بھارت اور افغانستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔ یہی موقف بعدازاں امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے اپنے دورہ بھارت کے موقع پر اختیار کیا جبکہ وزیر خارجہ پاکستان خواجہ محمد آصف کے دورہ امریکا کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرس بھی افغانستان میں امن کی بحالی کے لیے بھارت کے کردار کا حوالہ دے کر پاکستان سے ڈومور کے تقاضے میں پیچھے نہیں رہے۔
اس صورتحال میں پاک امریکا تعلقات انتہائی نازک مرحلے میں داخل ہوتے نظر آئے اور پاکستان ڈونلڈٹرمپ انتظامیہ کو یہ باور کرانے پر مجبور ہوگیا کہ اب ہمارے لیے ’’ڈومور‘‘ نہیں ہوگا بلکہ ہماری جانب سے ’’نومور‘‘ ہوگا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے اندر کارروائی کے اعلان اور ڈرون حملے بڑھانے کی دھمکی محض زبانی جمع خرچ نہیں تھی بلکہ امریکی فوج نے پاکستان کی سرزمین پر یکے بعد دیگرے ڈرون حملے کرکے اس دھمکی پر عملدرآمد بھی شروع کردیا ہے،پاکستان پر ڈرون حملہ عین اس وقت کیاگیا جب وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف واشنگٹن میں ٹرمپ انتظامیہ کو یہ یقین دلا رہے تھے کہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی نشاندہی پر ہم امریکا کے ساتھ مشترکہ آپریشن کے لیے بھی تیار ہیں ‘ اس کے باوجود واشنگٹن انتظامیہ نے پاکستان کے بارے میں جارحانہ طرزعمل برقرار رکھا اور امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع نے وزیر خارجہ پاکستان کی جانب سے پاکستان کے دورے کی دعوت قبول کرتے ہوئے بھی یہی بیان دیا کہ پاکستان کو حقانی گروپ اور دوسری کالعدم تنظیموں کے ٹھکانوں پر بہرصورت سخت ایکشن لینا ہوگا ‘ بصورت دیگر امریکا خود کارروائی کرے گا۔ اس کے جواب میں دفتر خارجہ پاکستان نے باور کرایا کہ حقانی نیٹ ورک کے جتنے بھی سینئر کمانڈر مارے گئے وہ سب افغانستان میں موجود تھے۔ اسی طرح گزشتہ دنوں امریکا کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ کی بنیاد پر پاک افغان سرحد پر افغانستان کے اندر کئے گئے آپریشن میں بھی جماعت الاحرار کے سربراہ خالد عمر خراسانی سمیت کالعدم تنظیموں کے متعدد عہدیداروں اور کمانڈرز افغانستان کے اندر ہی ہلاک ہوئے جو اس حقیقت کا بین ثبوت ہے کہ ان دہشت گرد تنظیموں کے محفوظ ٹھکانے پاکستان میں نہیں ‘ افغانستان کے اندر ہیں جبکہ ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان میں امن کی بحالی کی ذمہ داری بھارت کو سونپ دی ہے جو پہلے ہی دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی منصوبہ بندی کے تحت افغان سرزمین استعمال کررہا ہے۔
اس تناظر میں تو بھارت کو پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے جبکہ اب اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نے یہ انکشاف بھی کردیا ہے کہ بھارت درحقیقت دہشت گردوں کے تحفظ کے حوالے سے پاکستان کی نگرانی کے لیے امریکا کی معاونت کررہا ہے۔ اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ امریکا بھارت گٹھ جوڑ پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی کیخلاف ہے جس کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کے پاکستان سے اچھے تعلقات کی خواہش پر مبنی بیانات منافقت کے سوا کچھ نظرنہیں آتے۔ گزشتہ ہفتے کرم ایجنسی میں پاکستانی سیکورٹی فورسز کے سخت آپریشن کے باعث ایک امریکی خاتون اور اس کے کینیڈین شوہر کی اپنے تین بچوں سمیت طالبان کی قید سے بازیابی ہوئی تو امریکی صدر ٹرمپ اور واشنگٹن انتظامیہ نے اس آپریشن کا خیرمقدم کیا اور امریکی خاتون کو اس کے شوہر اور بچوں سمیت بازیاب کرانے پر پاکستان سے اظہار تشکر بھی کیا گیاجبکہ ٹرمپ نے اس آپریشن کو پاکستان امریکا حقیقی تعلقات کی شروعات قرار دیا جس سے پاکستان امریکا تعلقات میں امریکی پالیسیوں کے باعث پیدا ہونیوالی کشیدگی اور سردمہری کی فضا میں خوشگوار تبدیلی کا عندیہ ملا۔ بازیاب ہونیوالے جوڑے نے بھی کینیڈا پہنچنے کے بعد اپنی بازیابی پر پاکستان اور افواج پاکستان سے اظہار تشکر کیا اور توقع یہی تھی کہ اس آپریشن کی بنیاد پر پاک امریکا تعلقات دوبارہ ٹریک پر آجائیں گے مگر ٹرمپ انتظامیہ تو متذکرہ کامیاب آپریشن کا کریڈٹ بھی پاکستان کو دینے پر آمادہ نظر نہیں آتی اور امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے اس دعوے نے پاکستان کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ کی اصل حکمت عملی بے نقاب کردی ہے کہ پاک فوج امریکی خاتون اور اس کے شوہر کو آپریشن کے ذریعہ بازیاب نہ کراتی تو امریکی نیوی پاکستان کے اندر آپریشن کے لیے تیار بیٹھی تھی‘ گویا پاکستان کو یہ باور کرایا جارہا ہے کہ اس نے طالبان کی قید سے امریکی خاتون کو اس کے شوہر اور بچوں سمیت بازیاب کراکے امریکا پر کوئی احسان نہیں کیا۔ ٹرمپ اس آپریشن کے حوالے سے پہلے ہی یہ باور کراچکے ہیں کہ پاکستان نے اس آپریشن کے ذریعہ ہمارے ڈومور کے تقاضوں پر عملدرآمد کا آغاز کردیا ہے۔ امریکا اس اپریشن پر پاکستان کاممنون احسان نہیں ہوا بلکہ بعض امریکی حلقے اب یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ بازیاب کرایاگیا امریکی اور کینیڈین خاندان کو یرغمال بنانے جانے کے بعد گزشتہ 5سال سے پاکستان ہی میں رکھاگیاتھا ،اس کے ساتھ ہی پاکستان کویہ باور کرایا جارہا ہے کہ اس کے ساتھ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے حوالے سے کوئی نرمی نہیں کی جائیگی اور اس کی نگرانی کے لیے بھارت کی معاونت حاصل کی جائیگی یعنی اس طرح ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کویہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ انھوں نے بھارت کو علاقے کاتھانیدار بنانے کافیصلہ کرلیاہے اور پاکستان کو اسے قبول کرناہوگا ،اس سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ پاکستان کے حوالے ڈونلڈ ٹرمپ کی نیت صاف نہیں ہے، اور ڈونلڈ انتظامیہ سے کسی خیر کی امید کرنا عبث ہوگا۔موجودہ صورت حال میں ہمارے وزیر خارجہ کو امریکا کو یہ باور کرانے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے کہ اگر امریکا پاکستان کی سلامتی کے درپے بھارت کے ہاتھ مضبوط کریگا اوراسے علاقے کا تھانیدار بنانے پر مصر رہے گا تو یہ صورتحال پاکستان کے لیے قطعی ناقابل قبول ہوگی اور ایسی صورت میں پاکستان کے لیے بھی اپنے دفاع کے لیے چین‘ روس اور ایران سے روابط بڑھانے اور معاونت حاصل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔