میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
جنرل اسمبلی سے وزیراعظم کاخطاب ۔۔۔اہم عالمی مسائل کی نشاندہی

جنرل اسمبلی سے وزیراعظم کاخطاب ۔۔۔اہم عالمی مسائل کی نشاندہی

منتظم
اتوار, ۲۴ ستمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے عالمی سربراہوں پر واضح کیا ہے کہ پاکستان افغانستان کی جنگ اپنی سرزمین پر لڑنے نہیں دے گااور پاکستان اب کسی کے لیے قربانی کا بکرا بننے کے لیے تیار نہیں،انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ طالبان کی محفوظ پناہ گاہیں پاکستان میں نہیں بلکہ افغانستان میں طالبان کے زیر قبضہ وسیع علاقے میں ہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے اس موقع پر دنیاکو یہ بھی بتادیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی بے شمار قربانیوں کے بعد افغانستان میں سیاسی اور فوجی تعطل کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا جانا پریشان کن ہے‘۔اوزیراعظم نے یہ بھی واضح کیا کہ ہم کسی ایسی ناکام حکمت عملی کی تائیدنہیں کرسکتے جو افغانستان اور پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کو درپیش مسائل میں اضافے کا سبب بنے۔
پاکستان نے کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کے لیے اقدامات کا مطالبہ کرتے ہوئے اس مطالبے کااعادہ کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ اور پرامن حل کے لیے اقوام متحدہ کا خصوصی نمائندہ مقرر کیا جائے اوربین الاقوامی برادری صورتحال کو خطرناک ہونے سے بچانے کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کرے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 72 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں اپنے حق خودارادیت کے حصول کے لیے جدوجہد کرنے والے نہتے عوام پر مظالم کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کشمیریوں کو دبانے کے لیے طاقت کا اندھا دھند اور بلا امتیاز استعمال کر رہا ہے، خواتین، بچوں اور نوجوانوں کو بلاامتیاز نشانہ بنایا جا رہا ہے۔وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بجا طورپرجنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک دنیابھر کے اعلیٰ سطحی وفود کو بتایا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کو ان کے حق خودارادیت سے محروم کرنے اور جدوجہد آزادی کو دبانے کے لیے 7 لاکھ فوج تعینات کر رکھی ہے۔ حالیہ تاریخ میں کسی بھی غیر ملک کی جانب سے تعینات کی جانے والی فوج کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔وزیراعظمنے عالمی برادری کوبتایا کہ آج کشمیری عوام بھارت کے تسلط سے آزاد ہونے کے لیے ایک تاریخی اور مقبول جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں معصوم کشمیری مارے اور زخمی کئے جا چکے ہیں۔ شارٹ گن پیلٹ سے بچوں سمیت ہزاروں کی تعداد میں کشمیری اپنی بینائی سے محروم یا معذور ہو چکے ہیں۔ یہ اور اس طرح کے دیگر مظالم جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی اور جنگی جرائم کے زمرہ میں آتے ہیں۔
وزیراعظم نے عالمی برادری کو میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے بھی آگاہ کیا اور میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اورروہنگیا مسلمانوں کے خلاف نسلی فسادات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ نہ صرف تمام انسانی اقدار کے منافی ہے بلکہ ہمارے اجتماعی ضمیر کے لیے بھی بہت بڑا چیلنج ہے۔مسئلہ فلسطین پر بات کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے عالمی برادر ی کو متنبہ کیا کہ فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے طویل قبضے اور غیرقانونی یہودی بستیوں کی توسیع سے خطے میں بڑے پیمانے پرجنگ چھڑ سکتی ہے۔
وزیراعظم نے عالمی برادری پر ایک دفعہ پھر یہ واضح کردیا کہ پاکستان ہمسایوں کے ساتھ امن کے ساتھ رہنے کا خواہاں ہے،انھوں نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام دیرینہ تنازعات کے حل کے لیے جامع مذاکرات کی بحالی اور امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے اقدامات پر بات چیت کا خواہاں ہے تاہم ان مذاکرات کے لیے بھارت کو پاکستان کے خلاف ریاستی پشت پناہی سے کی جانے والی دہشت گردی بشمول ہماری مغربی سرحد کے پار سے کی جانے والی دہشت گردی اور بھارت کی طرف سے پاکستان کیخلاف تخریب کاری کی مہم سے اجتناب کرنا ہو گا۔ وزیراعظم نے کشمیر میں بھارتی جرائم کی بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور انسانی حقوق کے ہائی کمشنر پر زور دیا کہ وہ بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا پتہ چلانے اور اس کے ذمہ داروں کو سزا دلوانے اور متاثرین کو انصاف اور ریلیف فراہم کرنے کے لیے انکوائری کمیشن بھجوائیں۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بین الاقوامی برادری کو افغانستان، کشمیر‘ میانمار اورفلسطین سمیت تمام اہم مسائل سے پوری طرح آگاہ کرنے کافریضہ احسن طورپر انجام دیاہے ، اور بجا طورپر عالمی برادری پر یہ واضح کیا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو صورتحال کو خطرناک ہونے سے بچانے کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہو گا، اس امر میں کوئی شک نہیں کہ عالمی برادری کا فرض ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں پیلٹ گنوں سے کشمیریوں پر حملوں اور نہتے شہریوں پر تشدد اور مظالم کا سلسلہ رکوائے۔ ریاستی پالیسی کے طور پر خواتین سے زیادتیوں کا سلسلہ بند کرایا جائے۔ میڈیا کا بلیک آؤٹ ختم کرایا جائے۔ مقبوضہ کشمیر میں ڈرائیکونن ہنگامی قوانین ختم کرائے جائیں اوربھارتی قیادت کو تمام کشمیری سیاسی قیادت کو رہا کرنے پر مجبور کیا جائے۔وزیراعظم نے عالمی برادری پر یہ بھی واضح کردیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ پرامن اور فوری حل کے لیے اقدامات کرنا ہونگے۔ عالمی برادری اس حقیقت سے ناواقف نہیں ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ امن عمل بحال کرنے پر تیار نہیں ہے جبکہ پاکستان ابتدا ہی سے سلامتی کونسل پر زور دیتارہا ہے کہ وہ جموں و کشمیر پر اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داری پوری کرے اورا س مقصد کے لیے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کشمیر پر خصوصی نمائندہ مقرر کریں جو سلامتی کونسل کی دیرینہ قراردادوں پر عملدرآمد کرائے۔
پاکستان عالمی برادری کو مسلسل اس بات سے آگاہ کرتا رہاہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنے مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے کشمیر میں کنٹرول لائن پرفائر بندی کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے اور یہ سلسلہ روزبروز بڑھتاہی جارہاہے جس اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ رواں سال جنوری سے اب تک بھارت فائر بندی کی 600 خلاف ورزیاں کر چکا ہے۔ پاکستان نے اس صورتحال پرمسلسل تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ وزیراعظم نے بجاطورپر عالمی برادری پر یہ بھی واضح کردیاہے کہ پاکستان کے حوالے سے بھارت کے عزائم اچھے نہیںہیں اور بھارت کسی نہ کسی بہانے پاکستان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ شروع کرنا چاہتاہے لیکن اگرکنٹرول لائن پر بھارت کسی بھی قسم کی مہم جوئی کا ارتکاب کرے گا یا پاکستان کیخلاف محدود جنگ کے ڈاکٹراین پر عمل پیرا ہو گا تو اسے مضبوط اور برابر کا جواب دیا جائے گا۔ جہاں تک افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی پوزیشن کاتعلق ہے تو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے عالمی برادری پر بجاطورپر صاف صاف بتادیاہے کہ پاکستان افغانستان کی جنگ کو اپنی سرزمین پر لڑنے نہیں دے گا، اورکسی ایسی ناکام حکمت عملی کی توثیق نہیں کر ے گا جو پاکستان اور افغانستان اور دیگر علاقائی ملکوں کے عوام کی تکالیف میں اضافہ اور اسے طویل کرنے کاسبب ثابت ہو۔اس امر میں کوئی شبہ نہیں اور پوری عالمی برادری بالواسطہ یابلاواسطہ طورپر اس حقیقت کااعتراف کرچکی ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف عالمی جنگ میں بہت زیادہ مالی اور جانی نقصان اٹھایا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان سے زیادہ افغانستان میں امن کا کوئی اور خواہشمند نہیں ہوسکتا۔افغانستان میں 16 سالہ جنگ کے بعداب امریکہ سمیت پوری دنیا کو یہ بات تسلیم کرلیناچاہئے کہ افغانستان میں امن کو جنگ جاری رکھ کر بحال نہیں کیا جا سکتااورکوئی بھی فریق ایک دوسرے پر فوجی حل نہیں لاگو نہیں کر سکتا۔
وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران بجاطورپر یہ واضح کیاہے کہ پاکستان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ افغانستان میں فوری اور حقائق پر مبنی مقاصد حاصل کرنے کے لیے داعش، القاعدہ اور ان کے حمایتیوں کے خاتمے کے لیے بھی ٹھوس اقدامات شامل ہونے چاہئیں۔
جہاں تک دہشت گردی کے خاتمے کی کوششوں میں پاکستان کے کردار کاتعلق ہے تو اس حوالے سے پاکستان کے اقدامات پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ نائن الیون کے بعد پاکستان کی کاوشوں سے ہی القاعدہ کا خاتمہ کیا گیا۔ پاکستان نے فوجی آپریشنوں کے ذریعہ پہاڑی علاقوں سے تمام عسکریت پسند گروپوں کو ختم کر دیا ہے، پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف بھاری قیمت چکائی ہے۔ 6500 فوجی اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں سمیت 27 ہزار پاکستانی اس جنگ میں شہید ہوئے ہیں۔وزیراعظم نے عالمی برادری کی توجہ دہشت گردی کے عالمی مسئلے سے جامع طور پر نمٹنے کی عالمی حکمت عملی میں اہم نقائص کو بھی اجاگر کرکے یہ ثابت کیاہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف عالمی برادری کی ہدایات پر نہ صرف یہ کہ پوری طرح عمل کرتاہے بلکہ اس کی ان خامیوں پر بھی گہری نظر رکھتا ہے جس کی وجہ سے اس مسئلے سے نمٹنے میں ناکامی ہورہی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی برادری کو ان امور پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے وزیراعظم پاکستان نے جن کی نشاندہی کی ہے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر انگلی اٹھانے سے پہلے یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ پاکستان کو ایک مخالفانہ اور بڑھتی ہوئی عسکری قوت والے ہمسائے کا سامنا ہے اور پاکستان کے لیے قابل بھروسہ ڈیٹرننس کے لیے اپنی صلاحیت کو برقرار رکھنا ناگزیر ہے۔ پاکستان نے ایٹمی اسلحہ کی تیاری میں پہل نہیں کی ہے بلکہ پاکستان نے اپنے جوہری ہتھیار صرف اس لیے بنائے ہیں کیونکہ اس کے ہمسائے نے خطے میں ان ہتھیاروں کو متعارف کرایا ہے۔ ہمارے جوہری اثاثے جارحانہ دھمکیوں سے نمٹنے کے لیے ناگزیر ہیں۔جہاں تک ایٹمی اسلحہ کے محفوظ ہونے کاتعلق ہے تو نہ صرف یہ کہ پاکستان بار بار اس بات کی یقین دہانی کراچکاہے کہ پاکستان کے جوہری اثاثے پوری طرح سے موثر کنٹرول میں ہیں ،بلکہ عالمی ماہرین بھی اس بات کی تصدیق کرچکے ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے قطعی محفوظ ہیں اور ان کی کسی بھی طرح دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے یا غلط استعمال کئے جانے کاکوئی خدشہ موجود نہیں ہے ، اس لیے اب عالمی برادری کو چاہئے کہ پاکستان کو غیر امتیازی بنیاد پر نیوکلیئر سپلائرز گروپ جیسے عالمی ایٹمی عدم پھیلاؤ کے انتظامات میں شامل کرے۔عالمی برادری کو اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے اس انتباہ کا بھی سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہئے کہ مشرق اور مغرب کے درمیان حالیہ تناؤ یورپ کو ایک اور سرد جنگ میں دھکیل سکتا ہے جبکہ ایشیا میں امن اور خوشحالی کو جنوبی مشرقی اور مغربی ایشیا میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور ابھرتی ہوئی عالمی طاقتوں کی مزاحمت سے خطرہ ہے۔شام، عراق ، یمن سمیت مشرق وسطیٰ میں ہر جگہ جنگ اور تشدد ہیں، اگرچہ عراق اور شام میں داعش کمزور ہوئی ہے لیکن مشرق وسطیٰ، افریقہ اور دنیا کے دوسرے حصوں میں دہشت گردانہ تشدد پھیل چکا ہے،عالمی برادری کی جانب سے فلسطین کامسئلہ طے نہ کرائے جانے کی وجہ سے یہ مسئلہ اب ایک ایسے المیے میں تبدیل ہوتاجارہاے جس کا اختتام ہوتا نظر نہیں آ رہا، اسرائیل کے غیر قانونی تسلط اور غیر قانونی بستیوں میں توسیع سے مقدس سرزمین پر تشدد پھیلتاجا رہا ہے۔ نسل پرستی اور مذہبی منافرت، اسلامو فوبیا اور زینوفوبیا میں ڈھل چکی ہے اور دنیا کی مختلف اقوام اور عوام کے مابین دیواریں اور نفسیاتی رکاوٹیں کھڑی ہورہی ہیں۔ روہنگیا کے مسلمانوں کی نسل کشی نہ صرف انسانیت کے تمام بنیادی اقدار سے متصادم ہیں بلکہ یہ ہمارے اجتماعی ضمیر کے لیے بھی چیلنج ہے۔
امید کی جاتی ہے کہ عالمی برادری وزیراعظم پاکستان کی جانب سے نشاندہی کردہ مسائل ومعاملات پر سنجیدگی سے غور کریں گی اور اس دنیا کو زیادہ پرامن اورمحفوظ بنانے کے لیے دھونس اور جبر کے رویئے کو ترک کرکے سب کو ساتھ لے کرچلنے کی حکمت عملی اختیار کرے گی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں