روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے پر آنگ سان سوچی کی ہٹ دھرمی
شیئر کریں
میانمار سے ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کے انخلاکے بعد دنیا بھر کی جانب سے لگائے جانے والے نسل کشی کے الزامات پر جمہوریت پسندی کی دعویدار رہنما آنگ سان سوچی نے پوری دنیا کی جانب سے کی جانے والی تنقید کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا ملک بین الاقوامی جانچ پڑتال سے خوف زدہ نہیں۔امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی ایک رپورٹ کے مطابق رکھائن میں جاری کشیدہ صورتحال پر اپنے پہلے قومی خطاب میں میانمار کی نوبل انعام یافتہ رہنما نے کہاکہ ایک ماہ کی قلیل مدت میں 4 لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمانوں کی بنگلہ دیش ہجرت کے باوجود کشیدہ علاقے میں مسلمانوں کی ’بڑی تعداد‘ موجود ہے۔آنگ سان سوچی نے دعویٰ کیا کہ ‘رکھائن میں روہنگیا مسلمانوں کی نصف سے زائد بستیاں اب بھی آباد ہیں’۔اگرچہ رکھائن میں مسلمانوں پر شروع ہونے والے ظلم و ستم پر آنگ سان سوچی کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑالیکن وہ اس تنقید کو خاطر میں لانے اور روہنگیا مسلمانوں پر ظلم وستم بند کرانے پر تیار نظر نہیں آتیں ،جبکہ میانمار کی فوج کے سربراہ روہنگیا مسلمانوں کو سرے سے میانمار کاشہری تسلیم کرنے کو بھی تیار نہیں ہیں ،اور گزشتہ روز ایک بیان میں انھوںنے واضح طورپر کہاہے کہ روہنگیا مسلمان میانمار میں غیر قانونی طورپر مقیم ہیں وہ میانمار نہیں بلکہ بنگلہ دیش کے شہری ہیں۔
دوسری جانب اقوام متحدہ بھی روہنگیا مسلمانوں کے مصائب کااعتراف کررہی ہے لیکن ا س مسئلے کے حل کے لیے کسی عملی اقدام سے گریزاں نظر آتی ہے جس کا اندازہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتو نیوگوئٹریس کی جانب سے جاری کی جانے والی تازہ ترین وارننگ سے لگایاجاسکتاہے،اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتو نیوگوئٹریس نے کہاہے کہ برما کی حکمران آنگ سان سوچی کے پاس روہنگیا مسلمانوں کے خلاف فوجی آپریشن روکنے کا آخری موقع ہے اگر آپریشن نہ رکا تو انتہائی خوفناک سانحہ رونما ہوگا۔ جسے سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔ انہوں نے میانمر حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کو واپس آنے کی اجازت دے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی جانب سے جاری کردہ اس بیان سے تو ایسا لگ رہا ہے جیسے وہ یا توا س معاملے میں خود کو بالکل بے بس محسوس کررہے ہیں یا پھر وہ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی وجہ سے پید ا ہونے والے بحران کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے اور محض رواں تبصرہ کرنے پر اکتفا کررہے ہیںکیونکہ یہ بات تو پوری دنیا کو معلوم ہے کہ اگر فوجی آپریشن نہیں روکا گیا تو المیہ مزید سنگین ہوجائے گا۔ ایسی صورت حال میں اقوام متحدہ کا کام اس متوقع المیے کی نشاندہی کرنایا میانمار کی ظالم حکمراں سے مطالبہ یا اپیل کرنا یا یہ اطلاع دینا کہ فوجی آپریشن سے کیا المیہ جنم لے گا نہیں ہے بلکہ اس کامطلب میانمار کی فوج کے ہاتھوں میں کھیلنے والی نام نہاد جمہوریت پسند رہنما آنگ سان سوچی کو موقع دینا ہے اور فوج کو مزید مظالم جاری رکھنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔
اس صورت حال کا تقاضا تھا کہ اقوام متحدہ فوری طور پر امن فوج میانمار بھیجنے کا اعلان کرتی جو روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام اور ان پر مظالم کے سلسلہ رکواکر جان بچا کر بنگلہ دیش اور دیگر ممالک فرار ہوجانے والے مسلمانوں کو واپس آنے کاموقع دینا اور ان کی دوبارہ آبادکاری کو بحالی کو یقینی بناناتھا ،یہ اقوام متحدہ کے لیے کوئی اچھوتا کام نہ ہوتا بلکہ اقوام متحدہ نے اس سے قبل امریکاکے اشارے پر کئی ممالک میں امن فوج اتاری ہے اور قراردادیں وغیرہ بعد میں منظور کرائی گئی ہیں پھر میانمار میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتاتھا یا کیوں نہیں کیاجارہا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو اچھی طرح معلوم ہے کہ میانمار کی فوج روہنگیا کے مسلمانوں پر مظالم میں براہ راست ملوث ایسی صورت میں یہ بات واضح ہے کہ کسی ملک کی فوج کو صرف مطالبات کے ذریعے زیادتیوں اورمظالم سے نہیں روکا جاسکتا اس کے خلاف فوجی کارروائی ہی کی جانی چاہئے کیونکہ فوجی کارروائی کے ذریعے ہی ان کے بڑھتے قدم روکے جاسکتے ہیں،میانمار کے معاملے میں پوری دنیا خاص طورپر مسلم امہ اقوام متحدہ کی جانب سے میانمار کے مسلمانوں کو مظالم سے بچانے کے لیے عملی کارروائی کی منتظر ہے ۔
جہاںتک روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار کا تعلق ہے تو میڈیا کے ذریعے یہ خبریں پوری دنیا تک پہنچ چکی ہیں کہ روہنگیا کے جن مسلمانوںنے نام نہاد فوجی کریک ڈاؤن سے جان بچا کربنگلہ دیش کا رخ کیا تھا میانمار کی فوج نے پیچھے رہ جانے والی ان کی بستیاں شعلوں کی نذر کردیں۔ دوسری جانب افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ میانمار کی حکومت اس تمام صورتحال کا ذمہ دار روہنگیا مسلمانوں کو ہی قرار دینے کی کوشش کررہی ہے جبکہ پوری دنیا کومعلوم ہوچکاہے کہ فوجی اہلکار اور بدھ مت کے ماننے والے مشتعل افراد ان پر مظالم ڈھا رہے ہیں۔
میانمار کے دارالحکومت نیپیاتو میں غیر ملکی سفارت کاروں سے بات کرتے ہوئے آنگ سان سوچی نے گزشتہ روز کہا تھاکہ ان کی حکومت علاقے کی صورتحال معمول پر لانے کے لیے کام کررہی ہے۔انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھاکہ ’5 ستمبر سے کشیدگی کے شکار علاقے رکھائن میں نہ کوئی جھڑپ ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی کلیئرنس آپریشن‘۔انہوں نے مسلمانوں کی بڑی تعداد کے ہجرت کرکے بنگلہ دیش جانے پر بھی حیرت کااظہار کرتے ہوئے کہاتھا کہ، ہم سمجھنا چاہتے ہیں کہ اس ہجرت کی وجہ کیا ہے، ہم میانمار چھوڑ کر جانے والے اور یہاں موجود روہنگیا مسلمانوں سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں‘۔اس موقع پر انہوں نے وہاں موجود سفارت کاروں کو بھی دعوت دی کہ وہ حکومت کے ساتھ کشیدہ صورتحال کا شکار علاقوں کا دورہ کریں تاکہ صورتحال کو بہتر انداز میں سمجھا جاسکے بظاہر یہ ایک اچھی بات ہے کہ میانمار کی سربراہ غیر ملکی سفارتکاروں کو روہنگیا کے متاثرہ علاقوں کادورہ کرنے کی دعوت دے رہی ہیںلیکن یہ دعوت وہ متاثرہ علاقوں کے مکمل کلین اپ کے بعد دے رہی ہیں جبکہ اس سے چند دن قبل ہی انھوںنے متاثرہ علاقوں کی صورتحال کاجائزہ لینے کے لییمتاثرہ علاقے میں پہنچنے کی کوشش کرنے والے صحافیوں کو گرفتار کرکے ڈی پورٹ کرنے سے بھی گریز نہیں کیاتھا۔
روہنگیا کے مسلمانوں کی حالت زار کے بارے میں آنگ سان سوچی کی وضاحتوں کی صداقت کا اندازہ میانمار سے جان بچاکر بنگلہ دیش پہنچنے والے مسلمانوں کے بیانات سے لگایا جاسکتاہے ،گزشتہ روز ایک بین الاقوامی میڈیا نے بنگلہ دیش کے سرحدی علاقے میں ریلیف کیمپوں میں موجود ایک روہنگیا مسلمان عبدالحافظ کا بیان نشر کیاجس کا کہنا تھا کہ ‘ایک وقت تک ہم سوچی پر فوج سے زیادہ بھروسہ کرتے تھے لیکن وہ ’جھوٹی‘ ہیں اور آج روہنگیا مسلمان ابتر حالت میں ہیں’۔عبدالحافظ کا کہناتھا ’سوچی غیرملکی صحافیوں کو تباہ حال علاقوں تک رسائی دیں، اگر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ روہنگیا مسلمان غلط ہیں تو دنیا ہمیں قتل کردے یا سمندر میں دھکیل دے ہمیں منظور ہے‘۔
میانمار میں مسلمانوں پر مظالم اورا ان سے نفرت کا اظہار اور انھیں قومی دھارے میں شامل ہونے سے روکنے کی کوششیں اظہر من الشمس ہیں لیکن گزشتہ پانچ سال سے راکھائن میں لسانی اور مذہبی تناؤ میں اضافہ ہوا ہے لیکن حالیہ پرتشدد واقعات کی لہر سب سے بدتر ہے اور اس سے جان بچا کر بھاگنے کی کوشش میں کئی افراد سمندر میں ڈوب کر اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔2012 میں بھی پرتشدد واقعات کے نتیجے میں ہزاروں روہنگیا مسلمان ہلاک اور لاکھوں ہجرت کرنے یا گھر بار چھوڑ کر کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ میانمار کی فوج نے حال ہی میں پولیس چوکیوں پر عسکریت پسندوں کے حملوں کوبہانہ بنا کر اس کی ذمہ داری روہنگیا مسلمانوں پر عاید کردی تھی اور اس کی بنیاد پر عسکریت پسندوںکے بجائے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیاتھا اور روہنگیا افراد کے متعدد گاؤں نذر آتش کردیے تھے، جبکہ لاکھوں کی تعداد میں روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش ہجرت کرنے پر مجبور کردیاگیا ۔
موجودہ صورت حال کاتقاضا ہے کہ مسلم ممالک عالمی برادری کو روہنگیا مسلمانوں پر مظالم بند کرانے کے لیے اقوام متحدہ پر بھرپور دبائو ڈالنے پر مجبور کریں، روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے متذکرہ بیان سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ جب تک مسلم ممالک اس صورت حال پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دیں گے ،روہنگیا مسلمانوں کی اشک شوئی نہیں ہوسکے گی۔