نیب نابینہ، ملک میں کوئی نظام موجود نہیں ہے ، سپریم کورٹ
شیئر کریں
اسلام آباد(بیورو رپورٹ) مضاربہ اسکینڈل کے مجرم مفتی ثاقب کی سزاکے خلاف اپیل کی سماعت کے دوران جسٹس دوست محمد خان نے ریمارکس دیے کہ نیب نابینا ہے ملک میں کوئی نظام موجود نہیں، نظام کی ناکامی کے باعث کالعدم جماعتوں کو بھی الیکشن لڑنے کی کھلی چھٹی ہے، لاہور میں کالعدم تنظیموں نے بھی الیکشن لڑا ان پر کس کی چھتری تھی، انڈیا میں مجسٹریٹ نے گرو کو سزا دی ہم بھی وہی کریں گے، جو قانون میں لکھا ہے۔ منگل کو مضاربہ اسکینڈ کے مجرم مفتی ثاقب کی سزا کیخلاف اپیل کی سماعت جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں عدالت عظمی کے تین رکنی بنچ نے سماعت کی دوران سماعت مجرم کے وکیل امجد قریشی نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ میرے موکل کو 26.5ملین کے مبینہ فراڈ میں ایک سال ایک لاکھ جرمانے کی سزا ہوئی ہے 8.1ملین روپے پلی بار گین کے ذریعے نیب کو دیدیے ہیں، رقم واپس دیدی تو جرمانے کی رقم دینے کی ذمہ داری نہیں ہے، 17متاثرین نے بیان حلفی میں کہا ہے کہ ہمیں پیسے مل گئے ہیں، ملزم کی سزا نہیں چاہیے، اس پر جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے میں لکھا ہے کہ متاثرین نے کہا پیسے مل جائیں تو ملزم کی سزا سے کوئی سروکار نہیں ہے، لیکن انوسٹی گیشن رپورٹ کے مطابق متاثرین صرف سترہ نہیں بلکہ زیادہ ہیں۔ جسٹس دوست محمد خان نے ریمارکس دیے کہ کسی ملک میں اتنے بڑے گھپلے کی مثال نہیں ملتی، حیران ہیں اتنی کم سزا سنائی گئی مجرم کو تو چودہ سال کی سزا ہونی چاہیے تھی۔ دوران سماعت ملزم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ مجرم پراپرٹی کا کام کرتا ہے، اس پر عدالت کا کہناتھا کہ پراپرٹی کا کام کرتا ہے تو پیسے کیسے وصول کرسکتا ہے، پیسے وصول کرنا تو بینک کا کام ہے۔ عدالت نے ملزم کے وکیل سے استفسار کی کیا آپ مجرم پر لگا داغ ختم کرانے آئے ہیں، اس پر وکیل نے کہا جی میں سزا ختم کرانے آیا ہوں،میرا موکل مفتی ہے اور اس کا معاشرے میں ایک مقام ہے۔ اس پر جسٹس دوست محمد خان نے ریمارکس دیے کہ پاکستان میں کوئی نظام ہی نہیں ہے، نظام کی ناکامی کے باعث کالعدم جماعتوں کو بھی الیکشن لڑنے کی کھلی چھوٹ ہے، لاہور میںکالعدم جماعتوں نے الیکشن لڑا ان پر کس کی چھتری تھی انڈیا میں گرو کے ساتھ کیا ہوا، ایک مجسٹریٹ نے سزا دیدی گرو روتا رہا، لیکن کسی نے اس کے رونے کی پروا نہیں کی ہم بھی قانون پر عمل کریں گے وہی کریں گے، جو قانون کہتا ہے۔ جسٹس دوست محمد نے مجرم کے وکیل سے استفسار کیا کہ اس مجرم نے کتنے طلبہ کو پڑھایااس پر وکیل کا کہنا تھا کہ انہیں طلبہ کے لیے ہی یہ کلنک ختم کرانا چاہتے ہیں ۔میرے موکل کیخلاف فراڈ کا الزام ثابت نہیں ہوتا ،مفتی ثاقب نے پیسے بھی واپس کیے اور سزا بھی بھگت لی ،عدالت ٹرائل کورٹ کا فیصلہ ختم کرے تاکہ سزا دھل سکے، دوران سماعت نیب پراسکیوٹر عدالت میں پیش ہوئے تو عدالت کو بتایا کہ مفتی ثاقب نے عام لوگوں سے پیسے لے کر انوسٹمنٹ کر کے منافع دینے کا کہا منافع نہ دینے پر پلاٹ دینے کا لارا لگایا اور کہا کہ پلاٹ نہ دے سکا تو 1کروڑ 88لاکھ دوں گا، اس پر جسٹس دوست محمد خان نے ریمارکس دیے کہ نیب نابینا ہے، ٹرائل کے دوران مفتی ثاقب کے خلاف دوسرا فراڈ سامنے آیا نیب نے دوسرا مقدمہ نہ بنایا ٹرائل کورٹ نے مہربانی کر کے ایک سال سزا دی۔ بعد ازاں عدالت نے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد مجرم کی درخواست خارج کر دی۔ واضح رہے کہ مفتی ثاقب نے مضاربہ کے لیے عام لوگوں سے اڑھائی کروڑ لیے تھے اور جرم ثابت ہونے پر ٹرائل کورٹ نے مجرم کو ایک لاکھ جرمانہ اور ایک سال قید کی سز ا سنائی تھی۔