میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
احسن اقبال کا آئی بی اور این آئی اے کو فعال بنانے کا فیصلہ

احسن اقبال کا آئی بی اور این آئی اے کو فعال بنانے کا فیصلہ

منتظم
پیر, ۱۸ ستمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

وزیراعظم اوروزیرداخلہ کی کوشش ہے کہ سویلین ایجنسیوں میں ایسے افسران رکھے جائیں جن کی کارکردگی ماضی میں شانداررہی ہے
وفاقی وزرارت داخلہ نے خط کے ذریعے چاروں صوبائی حکومتوں سے اچھی شہرت کے حامل پولیس افسران کی خدمات مانگ لیں
صوبائی حکومتیں اچھے افسران کوچھوڑنے کوتیارنہیں ‘ آئی جی سندھ نے افسران کی پوسٹنگ کرکے ان کا وزارت داخلہ میں جانا ناممکن بنادیا
الیاس احمد
جب سے شاہد خاقان عباسی نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا ہے تب سے انہوں نے ایف آئی اے میں اچھی شہرت رکھنے والے پولیس افسر بشیر میمن کو ڈی جی ایف آئی اے بنادیا ہے۔ جو ایف آئی اے کے لیے اچھے ثابت ہوں گے۔ بشیر میمن نے عہدہ سنبھالنے کے بعد جب صورتحال دیکھی تو وزیراعظم اور وفاقی وزیر داخلہ سے کہا کہ وہ ایف آئی اے کی تنظیم نو کریں، اس میں اچھے افسر تعینا ت کریں اور اس کے لیے اچھے افسر لائے جائیں۔
وزارت داخلہ نے دوسری جانب سول خفیہ ادارے انٹیلی جنس بیورو میں بھی تنظیم نو شروع کردی ہے اور جب وہاں بھی دیکھا گیا کہ اچھے افسران کی کمی سے تو فوری طورپر وفاقی وزارت داخلہ نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ایک خط لکھ ڈالا جس میں ملک بھر کے 17پولیس افسران کی خدمات طلب کی گئی تھیں۔ یہ خط اس وقت اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو مل چکا ہے۔ اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے چاروں صوبائی حکومتوں سے پوچھا تو چاروں صوبائی حکومتوں نے ایسے اچھے افسران کو چھوڑنے سے انکار کردیا ہے ، ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح وہ ان افسران کو اپنے صوبوں میں ہی رہنے دیں اور وفاقی حکومت سے کہیں کہ وہ دوسرا متبادل انتظام کریں اور نئے افسران کا تقرر کریں۔
وفاقی وزارت داخلہ نے جو نام حاصل کیے ہیں اُن میں محمد اعظم، شکیل درانی، ڈاکٹر امیر شیخ، منیر شیخ، یونس چانڈیو، سلام شیخ، خرم رشید ، کیپٹن(ر)شعیب، محمد وسیع حیدر، مجاہد اکبر، جاوید اکبر ریاض، گوہر مشتاق بھٹا، عبدالرب، جاوید علی خان، کامران علی، علی شیر جکھرانی اور شیروز کلہوڑو شامل ہیں۔ یہ افسران اس وقت پنجاب، سندھ، خیبرپختونخواہ، بلوچستان اور نیب میں کام کررہے ہیں ان کی خدمات لینے کے بعد وفاقی وزارت داخلہ طے کرے گی کہ کس افسر کو ایف آئی اے اور کس کو آئی بی میں تعینات کیا جائے۔
مگر سندھ میں جن افسران کو وفاقی وزارت داخلہ نے طلب کیا ان افسران کو پوسٹنگ دے دی گئی ہے۔ اس لیے ان افسران کا اب وفاقی وزارت داخلہ میں جانا بھی مشکل ہو گیا ہے کیونکہ سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر آئی جی سندھ پولیس نے ان افسران کی پوسٹنگ کی ہے اور یقینا ان کی پوسٹنگ تین سال کے لیے ہوگی۔ وہ افسران بھی چاہیں گے کہ وہ سندھ میں تین سال کے لیے پرکشش عہدوں پر رہیں کیونکہ اب سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر جن افسران کی پوسٹنگ ہوگی وہ تین سال کے لیے ہی ہوگی اور ان کے سرپر تبادلے کی تلوار بھی نہیں لٹکے گی اس لیے وہ سندھ میں ہی کام کرنے کو ترجیح دیں گے۔
ایف آئی اے اور آئی بی میں اس وقت اچھے افسران کی واقعی کمی ہے۔ اس وقت جو حالات ہیں اس کے پیش نظر ایف آئی اے اور آئی بی کی تنظیم نو ضروری ہے۔ ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کی ساکھ اچھی ہے اور وہ ہر صورت میں اپنے عہدے کا لحاظ کریں گے اور بہتر افسر لانے کی کوشش کریں گے۔ یہی حال آئی بی کا ہے وہاں بھی موجودہ حالات میں تجربہ کار افسران کی اشد ضرورت ہے۔ اس لیے وزیراعظم اور وزیر داخلہ کی کوشش ہے کہ سائبر کرائم، انسداد دہشت گردی، انسداد انتہاپسندی کے قوانین پر عمل کرنے ملک سے دہشت گردی ،تخریب کاری کے خاتمے کے لیے سویلین ایجنسیوں میں ایسے افسر رکھے جائیں جو واقعی اچھا کام کرسکیں۔ وفاقی وزارت داخلہ نے پہلی مرتبہ ایک اچھاقدم اُٹھایا ہے ۔
وفاقی وزارت داخلہ کے خط کے بعد اب وزیراعظم ہی تمام صوبائی حکومتوں سے رابطہ کریں گے کہ کس طرح یہ افسران وفاقی وزارت کو دیے جاسکتے ہیں ۔ اس وقت سائبر کرائم سب سے بڑا ایشو ہے اور پھر ایئرپورٹس پر منشیات کی اسمگلنگ ہورہی ہے، انسانی اسمگلنگ بھی تیز ہوگئی ہے۔ سرحدی علاقوں سے ممنوعہ اشیاء ملک میں لائی جارہی ہیں۔ ایسے میں ایف آئی اے اور آئی بی کا کام ہے کہ ان کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات کرے۔ وفاقی حکومت اس مشن میں کس طرح کامیاب ہوگی اس کااندازہ آئندہ چند روز میں ہوجائے گا ، ایف آئی اے کے سربراہ بھی اچھے افسر کیسے حاصل کریں گے اور ادارے کی کارکردگی بہتر بناسکیں گے ،یہ بھی ایک امتحان سے کم نہیں۔ تاہم یہ کوشش قابل تعریف ہے کہ سویلین ایجنسیوں کو موثر بنایا جائے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں