سبزیاں اوراناج اُگانے کے لیے آلودہ پانی کااستعمال
شیئر کریں
دنیا کے 60 ممالک میںآلودہ پانی سے فصلیں سیراب کرنے کا رحجان عام ‘ گزشتہ تخمینوں کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ ہے
زرعی مقاصدکے لیے آلودہ پانی کے استعمال کی بڑی وجہ صاف پانی کی قلت ‘کسان اسے اپنی فصلوں کے لیے مفید قراردیتے ہیں
ماہرین کے مطابق آلودہ پانی میں موجود مناسب اجزاء فصلوں کے لیے لاکھ اچھے سہی لیکن انسانوں ‘زرخیز مٹی کو نقصان پہنچاسکتے ہیں
تہمینہ حیات
انوائرمینٹل ریسرچ لیٹرز‘ نامی ریسرچ جرنل میں شائع ہونے والی ایک تازہ جائزہ رپورٹ میں انکشاف کیاگیاہے کہ پاکستان بڑے پیمانے پر شہروں اور صنعتوں کی نکاسی کا پانی زراعت میں استعمال کرنے والے اُن پانچ بڑے ممالک میں شامل ہے۔ جن میں چین، ایران، بھارت اور میکسیکو شامل ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پوری دنیا کے کم وبیش 60 ممالک میںآلودہ پانی سے فصلوں کو سیراب کرنے کا رحجان عام ہے اور یہ رحجان گزشتہ تخمینوں کے مقابلے میں بھی 50 فیصد زیادہ ہے۔ ریسرچ لیٹرز‘ نامی ریسرچ جرنل میں شائع ہونے والی اس روایتی کیس اسٹڈی کے ساتھ ہی کیلی فورنیا یونیورسٹی برکلے کی پروفیسر این لوئیس تھیبو نے جیوگرافکل انفارمیشن سسٹم (جی آئی ایس) کی طرز پر پوری دنیا سے ڈیٹا جمع کیا ہے۔ اس ڈیٹابیس سے انکشاف ہوا ہے کہ براہِ راست گندے پانی سے اُگائی جانے والی فصلوں اور زراعت سے لگ بھگ 85 کروڑ افراد کی صحت کو خطرات لاحق ہیں۔
رپورٹ کے مصنفین کے مطابق زرعی مقاصد کے لیے اتنے بڑے پیمانے پر آلودہ پانی کے استعمال کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اول تو زراعت کے لیے صاف پانی ( بلیو واٹر) کی شدید قلت ہے اور دوم کسانوں کا اصرار ہے کہ اس سے فصل اچھی ہوتی ہے اور مہنگی مصنوعی کھادوں اور کیڑے مار ادویہ کی ضرورت بھی کم ہوجاتی ہے۔
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ نکاسی کے آلودہ پانی میں فاسفیٹ اور نائٹریٹس کی بڑی مقدارپائی جاتی ہے جو ایک حد تک فصلوںکے لیے بہتر ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ انسانی فضلے سے بھرپور پانی بھی فصلوںکے لیے مفید ہوتا ہے۔کسانوں کے لیے اس کی اہمیت کااندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ میکسیکو میں جب فصلوں کو بھیجے جانے والے آلودہ پانی کو کم کرنے کی کوشش کی گئی تو کسانوںنے اس کے خلاف باقاعدہ احتجاج کیا۔لیکن اب ماہرین، زراعت کے لیے آلودہ پانی کے استعمال کے اس کا خطرناک اور تاریک پہلوکو اجاگر کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں شہروں اوردیہات کے گندے پانی سے فصلوں اور سبزیوں کی کا شت انسانوں کی جانوں سے کھیلنے اور انھیں مختلف بیماریوں کاشکار کرنے کے مترادف ہے ،ماہرین کااصرار ہے کہ ایسے پانی سے افزائش کی جانے والی فصلوں، سبزیوں اور پھلوں میں بیماریوں کے جراثیم، بیکٹیریا، حشرات اور ان سب سے بڑھ کر بھاری دھاتیں شامل ہوتی ہیں۔جو یہ فصلیں استعمال کرنے والوں کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کردیتی ہیں ۔
ماہرین کاکہناہے کہ’آلودہ پانی میں فصلوں کے لیے مناسب اجزاموجود ہوتے ہیں جو فصلوں کے لیے اچھے ہوتے ہیں لیکن ان میں بھاری دھاتیں بھی پائی جاتی ہیں جو نہ صرف انسان بلکہ خود زرخیز مٹی کو بھی نقصان پہنچاسکتی ہیں،‘ ان خیالات کا اظہار پروفیسر رفیع الحق نے کیا جو انٹرنیشنل یونین فار دی کنزرویشن آف نیچر (آئی یوسی این) پاکستان کے مشیر اور ماہرِ ماحولیات ہیں۔
پاکستانی زراعت میں بھاری دھاتوں کی موجودگی
جہاں تک پاکستانی زراعت میں بھاری دھاتوں کی موجودگی کاتعلق ہے تو اس کااندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ2013 میں پاکستان کے دو اہم صنعتی شہروں سیالکوٹ اور وزیرآباد کی صنعتوں سے خارج ہونے والے آلودہ پانی، اس میں موجود بھاری دھاتوں اور ان کے فصلوں پر اثرات کا ایک جائزہ لیا گیا اور ساتھ ہی ٹیوب ویل کے پانی سے اس کا موازنہ بھی کیا گیا تھا۔یہ تحقیق قائدِاعظم یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیاتی حیاتیات کے ماہرین نے کی تھی۔ انہوں نے آلودہ اور ٹیوب ویل کے پانی سے اُگائی گئی فصلوں کا جائزہ لیا جن میں پیاز، بینگن، پالک، پودینہ، گاجر، مولی، ٹماٹر اور گندم وغیرہ شامل تھے۔ یہ فصلیں ایک نالے اور پلکو ندی سے اگائی جارہی تھیں۔تب ماہرین نے یہ حیرت انگیز انکشاف بھی کیا تھاکہ بالخصوص پتے دار سبزیوں میں کیڈمیئم، سیسے اور کرومیم کی مقداراجازت کردہ مقررہ پیمانے سے بھی کہیں زیادہ نکلی جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سبزیاں کسی طرح بھی کھانے کے قابل نہیں تھیں۔
کراچی میں آغا خان یونیورسٹی میں کمیونٹی ہیلتھ کے ماہر ڈاکٹر ظفر احمد فاطمی کہتے ہیں کہ اگر کیڈمیئم دھات غذا میں شامل ہوجائے تو گردے اور پھیپھڑوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔ بچے ہوں یا بڑے، یہ ہڈیوں کو کمزور کرکے بار بار فریکچر کی وجہ بنتی ہے۔ڈاکٹر ظفر فاطمی کاکہنا ہے کہ سیسہ بچوں میں دماغی نشوونما کو روکتا ہے اور خون کے امراض کی وجہ بن سکتا ہے۔ ایک اور دھات جست ہے جو آلودہ پانی میں موجود ہوتی ہے اور انسانوں میں امنیاتی، دماغی، تولیدی اور نشوونما سے وابستہ امراض اور مسائل پیدا کرتی ہے۔تاہم انہوں نے کہا کہ اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ جسم کے اندر جانے والی غذا اور مقدار کا احتیاط سے اندازہ لگایا جائے کیونکہ اسی بنا پر ان ممکنہ جسمانی مسائل کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔دوسری جانب پاکستان کونسل برائے آبی ذخائر (پی سی آر ڈبلیو آر) سے وابستہ سینئرماہر ڈاکٹر غلام مرتضی نے کہا کہ سندھ اور پنجاب میں آلودہ پانی کو صاف کرنے والے کئی ٹریٹمنٹ پلانٹس لگائے گئے ہیں لیکن وہ روبہ عمل نہیں جس میں بدانتظامی کا دخل ہے۔
دوسری جانب ڈاکٹر غلام مرتضیٰ کا استدلال ہے کہ سندھ میں صورتحال مزید ابتر ہے کیونکہ لوگ یہ آلودہ پانی پینے پر بھی مجبور ہیں۔ حال ہی میں کراچی کے مختلف علاقوں میں لوگوں کو پینے کے لیے فراہم کیے جانے والے پانی کے تجزیئے سے یہ ظاہرہواتھا کہ کراچی کے مختلف علاقوں کے لوگوں کو پینے کے پانی میںسنکھیا نامی زہر کی بھاری مقدار موجود ہے جس کے استعمال سے موت بھی واقع ہوسکتی ہے، تاہم اب ہائی کورٹ کے حکم پر سندھ بھر کے ٹریٹمنٹ پلانٹس کا جائزہ لیا جارہا ہے جن کا سروے جلد ہی شروع ہوجائے گالیکن ٹریٹمنٹ پلانٹس کے سروے سے ہی یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ اس کے اصلاح کے لیے ایک لمبے اور طویل پراسیس سے گزرنا ہوگا اور اس کی تکمیل میں کتنا وقت لگے گا اس کاتصور کرنا بھی محال ہے۔ اس حوالے سے بس یہی کہاجاسکتاہے کہ ’’خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک‘‘ تاہم ہمیں مایوسی کے بجائے امید کادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔
لاہور میں واقع انٹرنیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین نے ایک اہم مطالعے میں انکشاف کیا ہے کہ آلودہ پانی جب فصلوں میں جمع ہوتا ہے تو وہ کئی خطرناک مچھروں کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ پنجاب کے بعض اضلاع میں دیکھا گیا ہے کہ آلودہ پانی اینوفلیز، ایڈیز اور کیولکس مچھروں کا گھر بن گیا تھا۔ یہ مچھر خوفناک اور جان لیوا امراض کی وجہ بن سکتے ہیں جبکہ ان کے پہلے شکار خود کسان اور وہاں رہنے والے بچے ہوسکتے ہیں۔تاہم یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں کہا ہے کہ ترقی پزیر ممالک نکاسی آب کی سخت پالیسیاں اپنائیں تاکہ اس رحجان میں کمی لائی جاسکے۔