روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام
شیئر کریں
چار سو سے زائد روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام اور ہزاروں گھروں کے جلاڈالنے پر مغربی دنیا اس طرح خاموش رہی جیسے اسے زہریلاکالاسانپ سونگھ گیا ہو ۔پاکستانی سیاستدان خورشید شاہ نے سکھر میں تقریب کے دوران ان کے بہیمانہ قتل پرضروربیان ریکارڈ کرایا ہے۔سینیٹر سراج الحق نے لوئر دیر میں عید ملن پارٹی سے خطاب کے دوران میں عالم اسلام کی متحدہ فوج فوراً برما بھجوانے اور برمی سفیر کو پاکستان سے واپس بھجوانے کا بجا مطالبہ کیا ہے تاکہ مسلمانوں کی نسل کشی کو ختم کیا جا سکے۔ہمیشہ کی طرح شریفین نے اس پر کوئی بیان نہیں دیادیگر حکمران بدستور خاموش تما شائی کا کردار اداکررہے ہیں ۔
بلاول بھٹو نے برما کے مسلمانوں کے قتل عام پر بہت زبردست احتجاجی بیان جاری کیا ہے اور تحریک انصاف نے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں قرارداد جمع کروادی ہے۔صرف وزیر خارجہ نے مذمت کی روایت نبھائی ہے کاش کوئی قابل وزیر خارجہ متعین ہوجاتا تو وہ فوراً اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رابطہ کرکے میانمار میں قتل عام کو رکواتا مگر امریکا، برطانیا، جاپان اور جنوبی کوریا کوــ "تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبھیرتو” کے بمصداق اپنی حفاظت کی پڑی ہوئی ہے ۔ کیونکہ شمالی کوریا نے پھر ہائیڈروجن بم کا دھماکا کردیا ہے اور وہ ان سبھی کے لیے خطرہ کا نشان بنا ہوا ہے۔ سلامتی کونسل کا اجلاس شمالی کوریا پر مزید پابندیاں عائد کرنے پر غور کررہا ہے کیونکہ کفر ملت واحدکی طرح اپنے اپنے مفادات کے لیے اکٹھا ہے مگر کشمیر میں ایک لاکھ شہیدوں کے بعد بھی 67سالہ پرانی سلامتی کونسل کی قراداد پر عمل درآمد کیوں رکا ہوا ہے۔ صرف اس لیے کہ اس میں مسلمانوں کا ہی بہیمانہ قتل ہورہا ہے اور مخالف فریق ہندو ہیں ۔کاش عالم اسلام بھی متحد ہو کر مشترکہ فوج مشترکہ کرنسی مشترکہ کاروبار مشترکہ بینکنگ کا اسلامی طریقہ کار اختیار کرلے تو مسلمانوں پر ہر جگہ سامراجیوں کے مظالم ختم ہوسکتے ہیں مگر سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔
جب ہم کئی اسلامی ممالک کوبڑے غنڈہ سامراج کی باجگزار ریاستوں کا روپ دھارے ہوئے دیکھتے ہیں ۔اور جہاں جہاں اسلامی ملک کی فوج مضبوط ہے ان کو دبانے اور فرقہ واریت کے عفریت کے ذریعے تباہ و برباد کرنے کی مذموم کوششیں جاری ہیں یہی حال روہنگیا مسلمانوں کا ہے کہ وہ در بدر پھر رہے ہیں ۔ بنگلہ دیش چونکہ بھارتیوں کے زیر اثر ہے اس لیے وہ بھی ان مسلمانوں کو تحفظ دینے سے گریزاں ہے۔ اس کے بارڈر پر ساٹھ ہزار مظلوم موجود ہیں مگر وہ ملک کے اندر آئے ہوئے لوگوں کو بھی واپس دھکیل رہا ہے۔80کی دہائی میں پاکستان نے روہنگیا مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دی تھی مگر کیا ایسا آج بھی ہوسکتا ہے؟چونکہ برسر اقتدار افراد اپنے ہی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اس لیے ان کا دھیان ادھر جاتاہی نہیں ۔ اپنا اقتداری سنگھاسن ڈول رہا ہو تو مقتدر افراد کم ہی دوسروں کی تکالیف کی طرف دھیان دیتے ہیں ۔
برما کی افواج کی طرف سے اقلیتی مسلمانوں کے قتل عام پر پاکستان کی قومی اسمبلی و سینیٹ کوفوری طور پر اس معاملہ کو اٹھانا چاہیے۔ او آئی سی نے اب تک کوئی کردار ادا نہیں کیا، وہ بدستور خواب خرگوش میں مدہوش ہے۔ عالم اسلام بھی تقریباً سو رہا ہے۔ صرف ترک صدرطیب اردگان نے بنگلہ دیش سے مطالبہ کیا ہے کہ اپنی سرحدیں مظلوم مسلمانوں کے لیے کھول دیں ، سارا خرچہ ترکی دے گا۔ہنگامی مشترکہ پریس کانفرنس میں ایرانی صدر حسن روہانی اور طیب اردگان نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر چوبیس گھنٹے کے اندر اندر سلامتی کونسل نے روہنگیا مسلمانوں کے قتل اور انہیں جلا کر مار ڈالنے کا نوٹس نہ لیا تو وہ ساری سرحدیں عبور کرکے برمی مسلمانوں کی امداد کو پہنچیں گے۔
عالمی برادری و انسانی حقوق کی تنظیمیں اور موم بتی مافیا بھی اب تک کوئی رول ادا نہیں کر سکیں ۔برمی افواج بھی فلاحی تنظیموں کو جائے وقوعہ پر پہنچنے سے روک رہی ہیں ۔چائناکے ساتھ بھی میانمار کا 1270کلومیٹر کا بارڈر ملحقہ ہے، وہ بھی اس میں ممد و معاون ہو سکتا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا تو 400افراد کے قتل کا ہی دعویٰ کر رہا ہے مگر وہاں 1400سے زائد شہید افراد میں سے زیادہ تعداد زندہ جلائے جا نے والوں کی ہے۔ ساٹھ سے زائد بچوں کے چھریوں سے سر کاٹے گئے ہیں اور انھیں عملاً ذبح کیا گیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ ایشیا نے ہزاروں گھروں کو 17مقامات پر نذر آتش کیا ہوا دیکھا ہے۔
آنگ سان سوچی جو کہ وہاں کی واحد نسل پرست حکمران ہیں ۔ان کی ایسے بہیمانہ ہلاکتوں پر غیر جانبدارانہ پالیسی کی پوری دنیا میں مذمت کی جارہی ہے اور ان کو دیا گیا امن کا نوبل پرائز واپس لینے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔ ان کابلوائیوں اور اپنی افواج کو روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام سے نہ روکناخود بہت بڑا جرم ہے۔پاکستان جو کہ واحد ایٹمی
اسلامی ملک ہے اس میں موثر کردار ادا کرسکتا ہے اور اسے عالم اسلام کے سربراہوں کی کانفرنس اپنے ہاں بلواکردنیائے اسلا م کے ا س مسئلہ کو فوری حل کروانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔