میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نیب میں پیشی سے گریز ۔۔میاں نوازشریف کیا پیغام دینا چاہتے ہیں

نیب میں پیشی سے گریز ۔۔میاں نوازشریف کیا پیغام دینا چاہتے ہیں

منتظم
اتوار, ۲۰ اگست ۲۰۱۷

شیئر کریں

قوم سے جھوٹ بولنے اور ذرائع آمدنی چھپانے کے الزام میں نااہل قرار دیے گئے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے نیب کی جانب سے طلبی پر جوابدہی کے لیے حاضری سے گریز کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیاہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپنی دائر کردہ اپیل کے فیصلے تک وہ نیب کے سامنے پیش نہیں ہوسکتے، سپریم کورٹ میں اپیل کے فیصلے تک نیب کے سامنے پیش نہ ہونے کا فیصلہ نواز شریف نے اپنے وکلا کے ساتھ مشورے کے بعد کیا ہے اور یقینا ان کے وکلا نے ان کو اس کا مشورہ نیب کے تمام قوانین اور دائرہ کار اورطلبی پر عدم پیشی کی صورت میں ممکنہ کارروائی کے اختیارات کو مد نظر رکھ کر ہی دیا ہوگا اس لیے اس فیصلے کے قانونی پہلوؤں پر کسی بحث کی گنجائش نہیں ہے لیکن اس حوالے سے یہ ضرور کہاجاسکتاہے کہ نواز شریف اور ان کے صاحبزادوں کی نیب میں عدم پیشی پر عوام میں ان کے صادق اور امین نہ ہونے اور مبینہ طورپر بے قاعدگیوں میں ملوث رہنے کے حوالے سے پائے جانے والے شکوک وشبہات میں اضافہ ہوگا اس کے علاوہ نیب کے سامنے پیش نہ ہوکے نواز شریف نے ایک دفعہ پھر یہ ثابت کیا ہے کہ ملکی اداروں کی ان کی نظر میں کوئی وقعت نہیں ہے،نواز شریف کایہ عمل ا گزشتہ روز علامہ اقبال کے مزار پر حاضری کے بعد میڈیا سے ان کی بات چیت کے بھی منافی ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ قائداعظم اور علامہ اقبال کا پاکستان بنانے کے لیے آئین و قانون کا احترام کرنا ہوگا۔ میاں نوازشریف نے کہا تھاکہ ووٹ کا احترام نہ ہونے کی وجہ سے ملک نے مصیبتیں جھیلی ہیں جبکہ جمہوریت عوام کے ووٹ کے تقدس‘ قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کا نام ہے۔ ہمیں پاکستان کو اقبال اور قائد کا پاکستان بنانا ہے تو یہاں آئین و قانون کا احترام کرنا ہوگا۔
ابھی ان کی ان باتوں کی باز گشت فضاؤں میں موجود ہی تھی کہ نیب کے سامنے پیش نہ ہونے کافیصلہ کرکے یہ ثابت کردیا کہ وہ قانون تو کجا خود اپنی باتوں پر کتنا عمل کرتے ہیں ،میاں نوازشریف نے اپنی عمر کا بڑا حصہ اقتدار کی کرسی پر براجمان رہنے کے بعد اب لوگوں کو ووٹ کے تقدس اورقانون کے احترام کا درس دینے کی کوشش کی تھی اور ووٹ کے تقدس کو اولین ایجنڈا بنانے کی تلقین کے ساتھ ہی آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے جان لڑادینے کے عزم کااظہار بھی کیاتھا، لیکن قوم کو یہ بتانے سے گریزاں ہیں کہ انھوں نے اپنے دور اقتدار میں ووٹ کے تقدس کو یقینی بنانے کے لیے کیا کوششیں کیں اور اداروں کاکتنا احترام کیا، ان کے دور اقتدار میں ووٹ کی حرمت کے تحٖفظ کیلیے کتنے قوانین بنائے گئے اوران میں سے کتنے قوانین پر عمل کیا گیا ، خود ان کے حلقہ انتخاب میں ووٹ کاتقدس پامال کرنے کی درجنوں شکایات کے باوجود انھوں نے ان میں سے کسی ایک شکایت پر ہی کوئی فوری کارروائی کیوں نہیں کرائی ۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان قائداعظم کی پرامن جمہوری جدوجہد کے نتیجہ میں ہی وجود میں آیاتھا اور اس ملک کی بقا اورترقی کاانحصار جمہوریت کی عملداری ہی پرہے جو آئین و قانون کے تابع ہوتی ہے جبکہ ووٹ کی پرچی کا تقدس برقرار رکھ کر ہی جمہوریت کی عملداری کو یقینی اور مستحکم بنایا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں میاں نوازشریف کا یہ تاسف اپنی جگہ درست ہے کہ یہاں جمہوریت کی عملداری کو پنپنے نہیں دیا گیا اور آئین کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا رہا ہے۔ اگر قیام پاکستان کے بعد بانیانِ پاکستان اقبال و قائد کی منشااور وڑن کے مطابق اس وطن عزیز کو آئین کے تابع کرکے جمہوریت کے فروغ و استحکام کی بنیاد رکھی گئی ہوتی تو کسی طالع آزماکو ماورائے آئین اقدام کے تحت ووٹ کی پرچی کے ذریعے حاصل ہونیوالے عوامی مینڈیٹ کے تحت قائم کسی منتخب جمہوری حکومت کی بساط الٹانے کی جرات ہوتی نہ ماورائے آئین اقدام کے تحت ملک میں شخصی آمریت مسلط کرنے کی کوئی سوچ پیدا ہوتی۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا اور خود میاں نواز شریف اس ملک میں آئین توڑ کر برسراقتدار آنے والے طالع آزماؤں کے حامی اور مددگار بن کر اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ۔اس دوران ان کو کبھی بھی ووٹ کے تقدس اور جمہوریت کی عملداری کا کوئی خیال نہیں آیا۔ہماری تاریخ کا المیہ یہی ہے کہ ہمارے مفادپرست سیاست دان ہی اسٹیبلشمنٹ اورآمروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرتے رہے ہیں اور میاں نوازشریف کی اپنی سیاسی زندگی کا آغاز بھی ایسے ہی گٹھ جوڑ کی فضا میں ہوا ہے، وہ خود آمر ضیاء الحق کے رطب اللسان رہے اور انہیں چیلنج کرنیوالی سیاسی قوتوں کی مخالفت میں پیش پیش رہے تاہم جب وہ اپنے اقتدار کے دوران خود بھی ایسی محلاتی سازشوں کا شکار ہوئے تو اس حادثے نے ان کی سیاسی سمت درست کردی اور وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کی علامت بن کر ابھر آئے۔ وہ سانحہ سقوط ڈھاکا کے بعد باقی ماندہ پاکستان کے خلفشار میں گزرنے کے جس عرصے کو شمار کرتے ہیں اس میں کسی نہ کسی حیثیت میں وہ خود اقتدار میں شامل یا اقتدار کا حصہ بنے رہے ہیں ۔ اگر وہ اپنے اقتدار کے اس عرصے کے دوران ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی راسخ کردیتے اور آئینی ریاستی اداروں کی آئینی حدود و قیود کی پابندی کرادیتے تو یقیناً باقیماندہ پاکستان جمہوریت کی عملداری کا شاہکار بن جاتا مگر اس بچے کھچے پاکستان میں تو سب سے زیادہ آئین و قانون اور اس کے تحت قائم جمہوریت کی ہی پامالی کی جاتی رہی ہے۔ نتیجتاً ملک میں سیاسی استحکام ایک خواب بنا رہا اور آئین کے تحت قائم پارلیمانی جمہوری نظام ہچکولے ہی کھاتا رہا ہے۔
آج میاں نوازشریف کو سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تحت اپنی نااہلیت کے بعد آئین و قانون کی حکمرانی اور جمہوریت اور ووٹ کی پرچی کا تقدس شدت سے یاد آرہا ہے اور وہ اسلام آباد سے لاہور تک ایک تاریخی ریلی کے ساتھ سفر کرتے ہوئے عوام کے سامنے یہ سوال اٹھاتے رہے ہیں کہ انہیں کس جرم میں نکالا گیا ہے اور 20 کروڑ عوام کے مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں آنیوالے نوازشریف کو سپریم کورٹ کے پانچ فاضل ججوں نے کیسے فارغ کردیا ہے۔ وہ اس تناظر میں آئینی ترمیم کا عندیہ دے رہے ہیں تاکہ آئندہ قوم سے جھوٹ بولنے اور حقائق چھپانے کے باوجود عوام کسی حکمراں کوکسی عدالتی فیصلے کے تحت گھر جانے پر مجبور نہ ہونا پڑے ،گویا وہ یہ چاہتے ہیں کہ عوام سے جھوٹے وعدے کرکے انھیں سبز باغ دکھا کر ووٹ حاصل کرنے کے بعد برسراقتدار آنے والے فرد کو اپنی تجوریاں بھرنے کی مکمل چھوٹ ملنی چاہئے اور ان کی دروغ گوئی اور قومی دولت کی لوٹ مار پر ان کاکوئی احتساب نہیں ہونا چاہئے۔ اس حوالے سے نواز شریف کے ذہن میں جو بھی منصوبہ بندی ہے وہ منتخب ایوان میں اپنی دوتہائی اکثریت کے بل پرہی اسے عملی جامہ پہنا سکتے ہیں لیکن اگروہ اپنی پارٹی کی حکومت کو پیروں پر کھڑا رکھیں گے تب ہی ایسا کر پائیں گے جبکہ اس وقت بادی النظر میں وہ ایوان اقتدار سے اپنی رخصتی کو اپنی پارٹی کی حکومت اور سسٹم کی رخصتی کے ساتھ تعبیر کرکے اس پر تاسف کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں اور برملا یہ کہہ رہے ہیں کہ انھیں اقتدار سے علیحدہ کرکے ملک
کی ترقی کے سفر کو بریک لگادیاگیاہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں بدستور ان کی اپنی ہی پارٹی کی حکومت قائم ہے جو ترقی کا یہ سفر ان کے ویژن کے مطابق جاری رکھ سکتی ہے۔
ہوسکتاہے کہ نواز شریف یا ان کے وکلا یہ سمجھتے ہوں کہ ان کی نااہلیت سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ میں کچھ قانونی خامیاں موجودہوں جن پر ان کے اور ان کی پارٹی کے تحفظات کا اظہار قرین قیاس ہیں اور اس کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کا بھی انہیں مکمل حق حاصل تھا جو انھوں نے استعمال کرلیا ہے تاہم جیسا کہ وہ آئین و قانون کے تقدس کی پاسداری کا تقاضا کرتے ہیں تو انہیں اس کے لیے سپریم کورٹ کا تقدس بھی ملحوظ خاصر رکھنا چاہیے جسے آئین کے تحت ہی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ انہیں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد یقیناً عوام میں بھی سبکی کاسامنا کرنا پڑا ہے اورسپریم کورٹ کے خلاف ان کی مہم جوئی کی وجہ سے ان کے لیے عوام کی ہمدردیاں جو انکے ساتھ تھیں اب بہت کم ہوگئی ہیں ،اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ پبلک ریلیوں کے ذریعے سپریم کورٹ کیخلاف غصہ نکالنے اور عدلیہ کے فاضل ججوں کو کوسنے دینے کے بجائے عوام کی بچی کھچی حمایت کو آئندہ انتخابات میں نئے قومی مینڈیٹ کے لیے استعمال کریں تو اس سے ان کی سیاسی ساکھ مضبوط اور سیاسی مستقبل محفوظ ہو سکتا ہے۔ اگر اس وقت مزار اقبال پر کھڑے ہو کر جہاں انہیں اس سے پہلے جانے کی اپنے پورے عرصہ اقتدار کے دوران شاید ہی توفیق ہوئی ہو‘ وہ اپنی حکومت کی کارکردگی کا کریڈٹ لے کر عوام کے روٹی روزگار کے تحفظ اور توانائی کا بحران ختم کرنے کے نئے وعدے کررہے ہیں تو پھر عوام کے دلوں کو وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کی یہ فکرمندی ضرور گڑبڑائے گی کہ ان سمیت ملک کی اشرافیہ محض اپنی تقدیر بدلتی اور قوم کی خراب کرتی رہی ہے جس کے باعث آج ساری اشرافیہ کٹہرے میں کھڑی ہے۔ یقیناً میاں نوازشریف بھی اسی اشرافیہ کا حصہ ہیں جس کے بارے میں ان کے برادر خورد شہبازشریف شکوہ سنج ہیں چنانچہ میاں نوازشریف اپنے عرصہ اقتدار کو اس شکوے سے محفوظ کیسے تصور کر سکتے ہیں جبکہ اس وقت بھی عملاً انکی ہی حکومت قائم ہے۔ اگر وہ اپنے اقتدار کے حوالے سے اپنی جواب دہی کے لیے تیار ہوں اور آئندہ کے لیے عوام کی محرومیاں دور کرنے کے عزم کا اظہار کریں تو انہیں یقیناً عوام میں ایک دفعہ پھر پزیرائی حاصل ہوگی۔ صدر مملکت ممنون حسین نے بھی یوم پاکستان کی قومی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے اسی تناظر میں اس بات پر زوردیاتھا کہ معاملات جوش سے نہیں ‘ دانشمندی سے حل کرنا ہوں گے۔ انہوں نے ذمہ داروں سے رنجشیں بھلا کر قومی مفاد میں آئین پر متحد ہونے کا مشورہ دیاتھا، جو اداروں کے ساتھ مزاحمت اور ٹکراؤ کا راستا اختیار کرنے کے بجائے باہمی افہام و تفہیم کا ہی متقاضی ہے۔ اگر ملک میں تمام ا سٹیک ہولڈرز کے افہام و تفہیم سے فی الواقع آئین و قانون کی حکمرانی قائم ہو جائے جس میں بلاامتیاز ہر شخص آئین و قانون کے سامنے جوابدہ ہو تو یہی بانیانِ پاکستان اقبال و قائد کے ویژن کی تکمیل ہوگی اور اس سے بہتر اور کوئی معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا۔ میاں نوازشریف کو اپنی پارٹی کی حکومت کے ماتحت اسی معاشرے کی تشکیل کی راہ ہموار کرنی چاہیے۔ ابھی انہیں اقتدار سے فارغ ہوئے عرصہ ہی کتنا ہوا ہے کہ انہیں ملک کی ترقی کا عمل جامد ہوتا نظر آنے لگا ہے۔ وہ دانشمندانہ سوچ کو بنیاد بنا کر ملک کی ترقی کے منصوبوں کے ساتھ آئندہ انتخابات میں عوام کے پاس جائیں گے تو عوام یقینا آئین و قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی عملداری کے لیے انکے ہاتھ مضبوط کرنے پر تیار ہوجائیں گے لیکن اپنے ملک کے قابل احترام اداروں کے تقدس کو پامال کرکے اگروہ عوام کے سامنے جائیں گے تو عوام ان سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اپنے ہی اداروں کا تقدس پامال کرنے کے بعد اب آپ کو اس ملک کی حکمرانی کاحق کیسے دیاجاسکتاہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں