پاک بھارت خفیہ مذاکرات کی امریکی تجویز
شیئر کریں
اخباری اطلاعات کے مطابق برطانوی پارلیمنٹ نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن مقبوضہ کشمیر بھیجنے کااعلان کیاہے۔چنانچہ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے لیے برطانوی ممبران پارلیمنٹ کا ایک وفد اقوام متحدہ میں بھیجا جائے گا جو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور دیگر عہدیداروں سے مل کر کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے لیے زور دے گا۔اسی طرح مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے برطانیا میں ایک کانفرنس بلائی جائے گی جس میں بھارت اور پاکستان کے نمائندے شریک ہوں گے، اس بات کا فیصلہ برطانوی پارلیمنٹ ہائوس آف کامنز میں آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر و برطانوی پارلیمنٹ میں قائم آل پارٹیز کشمیر کمیٹی کے چیئرمین اینڈریو گرفتھس کے درمیان ڈیڑھ گھنٹے کی تفصیلی ملاقات میں کیا گیا، اس موقع پر اینڈریو گرفتھس نے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو یقین دلایا کہ وہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلوانے کے لیے تیار ہیں اور ہم ہر فورم پر اس سلسلے میں آواز اٹھائیں گے، مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم کی برطانوی پارلیمنٹ مذمت کرتی ہے۔ اس سے قبل امریکا بھی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ثالثی کی پیشکش کے ساتھ ہی اس مسئلے پریہ کہتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے درمیان خفیہ مذاکرات کی حمایت کااعلان کرچکاہے کہ اگر دونوں ممالک کو اعلانیہ طور پر مذاکرات کی بحالی میں کوئی مجبوری ہے تو پھر خفیہ سفارتکاری کے ذریعے ہی اس مسئلے پر بڑی پہل کرنے کے لیے راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے تاکہ خطے میں استحکام پیدا کیا جا سکے۔
بھارتی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ امریکا پاکستان اور بھارت کو قریب لانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان معطل شدہ مذاکرات پھر سے بحال ہوں۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے اعلانیہ مذاکرات کے بجائے خفیہ مذاکرات کا راستا بھی اختیار کر سکتے ہیں اور وقت آنے پر اس کا کھل کر اظہار کیا جائے۔ امریکی ترجمان کا کہنا تھا کہ اعلانیہ طور پر مذاکرات کی بحالی کے لیے امریکا بھی کوششیں جاری رکھے گا تاہم مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ایک بڑی پہل ناگزیر بن گئی ہے لہٰذا دونوں ممالک کو خفیہ سفارتکاری کو بھی جاری رکھنا ہو گا۔ ترجمان کا کہنا تھا امریکی انتظامیہ کو کافی مایوسی ہو رہی ہے کہ جب بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہونا شروع ہو جاتے ہیں تب کوئی دہشت گردانہ حملہ ہو جاتا ہے جس کے باعث دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھ جاتی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف مل کر لڑیں تاکہ بہتر نتائج برآمد ہو سکیں۔
مقبوضہ کشمیر میںبھارتی فوجیوں کی جانب سے حقوق انسانی کی سنگین خلاف ورزیوں کاجائزہ لینے کے لیے فیکٹ فائنڈنگ مشن مقبوضہ کشمیر بھیجنے کے حوالے سے برطانوی پارلیمنٹ کے فیصلے اور امریکا کی جانب سے اس مسئلے کے حل کے لیے خفیہ مذاکرات کی ضرورت کے اظہار سے یہ ثابت ہوتاہے کہ مقبوضہ کشمیر میں نہتے نوجوانوں پر بھارتی فوج کے مظالم اب حد سے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ بھارت کی بیجا حمایت کرنے والے مغربی ممالک بھی اس پر روک لگانے کی ضرورت محسوس کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔یہ صورت حال مقبوضہ کشمیر میں حق خود ارادیت کے حصول کے لیے جانیں قربان کرنے والے نوجوانوں کی ایک بڑی کامیابی ہے ،اور اگر برطانیا اور امریکا یہ مسئلہ حل کرانے کے لیے سنجیدگی سے اقدامات پر تیار ہوجائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ دیرینہ مسئلہ منصفانہ بنیادوں پر حل نہ کیاجاسکے ۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے پاک بھارت مذاکرات کی ضرورت پر زوردیتے ہوئے بجاطورپر اس بات پرزوردیاہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی بحالی پر تعطل کا خاتمہ کیا جانا چاہئے تاکہ دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف مل کر کام کرسکیں ، امریکی محکمہ خارجہ کے اس خیال سے بھی عدم اتفاق نہیں کیا جاسکتا کہ خطے میں قیام امن اور استحکام پاکستان اور بھارت کی مشترکہ ذمہ داری ہے ،جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے جس کاامریکا سمیت پوری دنیا اعتراف کرتی ہے۔ اسی طرح پاکستان نے خطے میں قیام امن اور استحکام کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی حتی المقدور کوششیں کی ہیں اور کررہاہے ، پاکستان کی جانب سے بھارت کو مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے طے کرنے کی بار بار دعوت اور پیشکش اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ کسی طور بھی کشیدگی قائم رکھنا نہیں چاہتا اور ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت کے طورپر اپنے قریب ترین پڑوسی کے ساتھ اچھے ہمسائیگی کے تعلقات قائم کرنے کا خواہاں ہیں ، مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھی پاکستان کا موقف بالکل واضح اور اقوام متحدہ کے منشور اور اس کی منظور کردہ قراردادوں کے عین مطابق ہے۔ پاکستان نے مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کے لیے کبھی پیشگی کوئی شرط عاید نہیں کی اور پاکستان کا ہمیشہ سے یہی موقف رہاہے کہ مذاکرات مسئلے کو حل کرنے کے پختہ عزم کے ساتھ شروع کیے جانے چاہئے ۔
جہاں تک مسئلہ کشمیرکا تعلق ہے تو یہ کوئی پیچیدہ اور ٹیڑھا مسئلہ نہیں ہے‘ یہ سادہ اور سیدھا مسئلہ ہے‘ جس کا حل اقوام متحدہ، استصواب کی صورت میں تجویز کرچکا ہے۔ اس مسئلے کا جتنا سادہ حل ہے‘ اسکے حل نہ ہونے سے خطے کے امن کے لیے یہ مسئلہ اتنا ہی شدید اور سنگین ہے۔ اسی مسئلے پر پاکستان اور بھارت کے مابین تین جنگیں ہوچکی ہیں۔ یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو ایک اور جنگ کے خدشات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ۔ دو ایٹمی ممالک کے مابین جنگ کے بھیانک انجام کا دنیا کو ادراک ہونا چاہیے جس سے علاقائی امن تو تلپٹ ہوگا ہی‘ اسکے مہلک اثرات سے پوری دنیا بھی محفوظ نہیں رہ سکے گی۔ بھارت نے مسئلہ کشمیر کم و بیش 70 سال سے لٹکایا ہوا ہے۔ وہ کشمیریوں کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے ان کو لالچ دے رہا ہے‘ ظلم‘ جبر اور بربریت کے ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے مگر کشمیری حق خودارادیت سے کم پر کسی طور تیار نہیں۔ تقسیم ہند کے ہر اصول قاعدے اور ضابطے کے مطابق پورے کشمیر کو پاکستان میں شامل ہونا تھا‘ اسی سے تقسیم ہند کے ایجنڈے کی تکمیل ہونی تھی مگر برطانوی حکومت تقسیم کے ایجنڈے کو ادھورا چھوڑ کر خطے میں بدامنی کی داغ بیل ڈال گئی۔ اقوام متحدہ نے بجا طور پر مسئلہ کشمیر کا حل تجویز کر دیا مگر اقوام متحدہ کے دست و بازو سمجھے جانیوالے ممالک مصلحتوں کا شکار ہوئے جس سے اسکی قراردادوں پر عمل درآمد سردخانے کی نذر ہو گیا جس کا خمیازہ کشمیری عوام بھارتی فورسز کے مظالم اور خطہ بدامنی کی صورت میں بھگت رہا ہے۔ مسئلہ کشمیر کی سات دہائیوں سے موجودگی بھارت کی توسیع پسندانہ پالیسیوں اور پاکستان سے بدترین دشمنی کی غماز ہے۔ اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کے ذریعے اس مسئلے کو بلاتاخیر حل کراسکتی تھی مگر بھارت کی ہٹ دھرمی اور عالمی برادری کی مصلحتوں کے باعث کشمیریوں کو آزادی ملنے کے بجائے ان کی زندگی اجیرن بنا دی گئی‘ ان کے حقوق سلب کرلیے گئے۔عوامی جمہوریہ چین کی حکومت اس مسئلے پر ثالثی کی پیشکش بھی کرچکاہے اس سے قبل امریکا نے بھی ایسی ہی پیشکش کی تھی لیکن بھارتی رہنمائوں نے یہ مخلصانہ پیشکشیں بھی حقارت سے ٹھکرادیں ۔ بھارت پر عالمی برادری کا جب بھی دبائو بڑھتا ہے وہ مذاکرات کی میز سجا لیتا ہے اور پھر کسی حیلے بہانے سے انہیں سبوتاژ کردیتا ہے۔ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے نیک نیت ہو تو یقیناً مذاکرات نتیجہ خیز ہوسکتے ہیں۔ بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے تیار ہی نہیں اس لیے وہ مذاکرات کی کوشش کو سبوتاژ کردیتا ہے۔ امریکا کے بقول جب بھی پاکستان بھارت تعلقات بہتر ہونا شروع ہوتے ہیں تو دہشت گردی کا کوئی نہ کوئی حملہ ہوجاتا ہے۔ ایسے حملے بھی بھارت کی ایما پراور بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے منصوبے کے مطا بق ہوتے ہیں‘ سمجھوتہ ایکسپریس‘ ممبئی حملے اور گجرات میں مودی کی سرپرستی میں دو ہزار مسلمانوں کو آگ اور بارود سے جلا کر ان حملوں کا الزام پاکستان پر تھوپ دینا بھارت کا وطیرہ ہے جو اس کی پاکستان دشمنی کا مظہر اور مذاکرات سے فرار کے حیلے بہانے ہیں۔
بھارت نہ صرف افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کرتا ہے بلکہ وہ افغان حکمرانوں کو بھی پاکستان کے خلاف زہر اگلنے اور ہرزہ سرائی پر اُکساتا ہے۔ پاکستان بھارت کے درمیان اس سے قبل بھی بیک ڈور مذاکرات ہوتے رہے ہیں مگر بھارت کے مخاصمانہ اور معاندانہ رویے کے باعث وہ بے سود رہے ہیں۔ امریکا اب دونوں ممالک کے مابین اعلانیہ کے بجائے خفیہ مذاکرات پر زور دے رہا ہے۔ مذاکرات خفیہ ہوں یا اعلانیہ‘ انکی کامیابی کا انحصار فریقین کی نیت پر ہوتا ہے جبکہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے قراردادوں پر عمل اور مذاکرات کے حوالے سے بھارت کی بدنیتی اظہر من الشمس ہے۔اس لیے اگر امریکا پاکستان اور بھارت مذاکرات پر زور دینے کے بجائے اپنے وقتی اتحادی بھارت کو اسکی ہٹ دھرمی سے باز رکھ کر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کے لیے آمادہ کرلے تو مسئلہ کشمیر آسانی سے حل ہوسکتا ہے۔ اگر بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کے لیے تیار نہیں ہوتا جس کا اسکی فطرت کو مدنظر رکھتے ہوئے یقین ہے تو امریکا پابندیوں کا ہتھیار استعمال کرکے بھارت کو راہ راست پر لا سکتا ہے۔ مگر یہاں سوال یہ ہے کہ کیا امریکا اوربرطانیا بھی مسئلہ کشمیر حل کرانے کے لیے نیک نیت اور پرخلوص ہیں؟یہی وہ سوال ہے جس کے جواب میں مسئلہ کشمیر کاحل مضمر ہے۔