سپریم کورٹ میں فیصلہ محفوظ۔۔متبادل وزیر اعظم پر غور
شیئر کریں
شریف خاندان کے مالی اثاثوں کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی حتمی رپورٹ پر سپریم کورٹ میں پانچویں روز سماعت ہوئی اور تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت عظمیٰ نے فیصلہ محفوظ کرلیا، جس کی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔پاناما کا اونٹ کس کروٹ بیٹھ رہا ہے؟اس کے لیے پوری قوم کی نظریں اعلیٰ عدلیہ پر لگی رہیں گی ،تاہم سیاسی بازی مگراپنی اپنی سیاست بچانے کے لئے ابھی تک جھوٹ اور سچ ملائے جا رہے ہیںاور فیصلہ آنے تک یہ سلسلہ جاری رہنے کاامکان ہے ایسا معلوم ہوتاہے کہ پاناما اور جے آئی ٹی کی اس ہماہمی میں پاکستان کے دیگر تمام محکمے عضو معطل ہوکر رہ گئے ہیں،اوران پر توجہ دینے والا کوئی نظر نہیں آرہا ہے کہ اس وقت بین الاقوامی تناظر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات کیا ہیں؟کیا اس وقت پاکستان کی کوئی خارجہ پالیسی ہے بھی یا نہیں۔کیا ملک میں کوئی گورننس کا نظام بھی موجود ہے کہ نہیں کیونکہ سارے وزرا اور کارندے اس وقت اپنے کام چھوڑ چھاڑ کر پاناما میں اپنا اپنا حصہ بقدر جثہ ڈال رہے ہیں ،لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نواز کابینہ کے وزرا ء اور مشیر پاناما میں اپنااپنا حصہ ڈالنے والے خوداپنی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کررہے ہیں۔
جہاںتک پاناما کاتعلق ہے تو اس امر سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ ابتدا میں وزیر اعظم نواز شریف کا غالباً یہی خیال تھا کہ دیگر بڑے مسائل اور اسکینڈلز کی طرح چند روز کی ہماہمی اور اپوزیشن اور حکومت کے درمیان گرما گرمی کے بعد یہ اسکینڈل بھی اپنی موت آپ مر جائے گا اور انھیں بدستور اپنی حکومت چلانے کاموقع مل جائے گا لیکن ،نواز شریف کا یہ اندازہ غلط ثابت ہوا کیونکہ اپوزیشن نے اس مسئلے کو حکومت کے خلاف دبائو بڑھانے کا زریں موقع تصور کرتے ہوئے اسے ہر قیمت پر زندہ رکھنے کا فیصلہ کیا اس طرح اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی تمام ہی جماعتیں دیگر تمام معاملات کو بالائے طاق رکھ کر اس معاملے پر ڈٹ گئیں اس طرح اپوزیشن نے پوری قوت کے ساتھ اس مسئلے کو بڑھایا ،لیکن نواز شریف اور ان کے رفقا اپوزیشن کی اس حکمت عملی اور اس کے سنگین نتائج کو بھانپنے میں ناکام رہے اور حکومت اور ان کے کارندوں نے اسے ایک ہنگامہ بنادیا۔اگر حکومت اس مسئلے کی سنگینی کاابتدا ہی اندازہ لگالیتی اور وزرا ء اورمشیران حکومت کوئی سیاسی اور عقل کی بات کرتے تو شاید نوبت یہاں تک نہ پہنچتی اور بات اس حد تک نہ بڑھتی کہ سپریم کورٹ کو اس معاملے پر توجہ دینے اوراس معاملے کو اپنے ہاتھ میں لینے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ اس طرح یہ کہاجاسکتاہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کی پوری ٹیم میں چوہدری نثار کے علاوہ کوئی دوسرا ایسا فرد شامل نہیں ہے جسے دور اندیش کہاجاسکے یاجو نازک معاملات کوبگڑنے سے بچانے کے لئے آگے آسکے اور وزیر اعظم کی ہر بات پر آمنا صدقنا کہنے کے بجائے ان کو حقیقت سے آگاہ کرنے کی جرات رکھتاہو۔
وزیراعظم نواز شریف اور ان کے رفقا کی اسی عاقبت نااندیشی کانتیجہ ہے کہ آج سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کے حوالے سے مقدمے کافیصلہ محفوظ کئے جانے کے بعد حکومتی صفوں میں اطمینان کے بجائے بے چینی کے آثار صاف نظر آرہے ہیں اور وزیر اعظم ان
دعوؤں کے باوجود کہ وہ استعفیٰ نہیں دیں گے اور نہ صرف یہ کہ اپنی مدت پوری کریں گے بلکہ اگلے عام انتخابات میں بھی منتخب ہوکر اسی منصب پر فائز رہیں گے، اب اپنی نااہلی کی صورت میں متبادل وزیر اعظم کے نام پر غور کرنے پر مجبور ہیں، اگرچہ نواز شریف اوران کے وزرا اس حقیقت سے انکاری ہیں کہ کسی متبادل وزیر اعظم کے بارے میں غور نہیں کیا جارہا ہے لیکن آثاروقرآئن سے ظاہرہوتاہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے رفقا عوام کو حقیقت حال سے آگاہ کرکے اپوزیشن کو مزید تقویت پہنچانے اور اپنی پارٹی کو بکھرنے سے بچانے کے لیے اسے ظاہر کرنے سے گریز کررہے ہیں لیکن عین وقت پر عجلت میں کوئی فیصلہ کرنے سے بچنے کے لیے احتیاطی طورپر متبادلات پر نہ صرف یہ کہ غور کیاگیاہے بلکہ اس کے لیے باقاعدہ حکمت عملی بھی طے کرلی گئی ہے۔تاہم صورت حال سے بظاہر یہی معلوم ہوتاہے کہ ابھی بھی وقت ہے پاکستان کی ساری سیاسی اشرافیہ کو چاہیے کہ وہ ہوش کے ناخن لے اور یا تو سیاست فرشتوں کے حوالے کردے یا پھر بیٹھ کر ایک دفعہ فیصلہ کرلے کہ سیاستدانوں کے احتساب کا عمل کیسا اور کتنا آزاد ہونا چاہیے نہیں تو شاید اس حوالے سے مستقبل میں عمران خان بھی محفوظ نہ رہ سکیں کیونکہ یہ دنیا جائے مکافات عمل ہے آج جو ن لیگ نے کیا وہ انہیں بھگتنا پڑرہا ہے اور کل شاید تحریک انصاف یا دوسری پارٹیوں کو بھی بھگتنا پڑے۔پاکستان میں سیاست کے طالب علموں کے لیے موجودہ سیاسی حالات میں سے کچھ ایسی چیزیں سامنے آرہی ہیں جن کی بنا پر انہیںمستقبل کے فیصلوں میں آسانی ہوگی۔پاناما کا سب سے بڑا فائدہ یا نقصان نوازشریف کی شخصیت کو ہو گا۔اب وقت ہے کہ وہ فیصلہ کرلیں کہ کیا وہ ایک شخص ہیںیا پاکستان کے لیڈر، اس حوالے سے ماضی میں بھٹو کی مثال موجود ہے جن کا عدالتی ٹرائل جتنا بھی متنازع رہا ہو کبھی پیپلز پارٹی نے عدالتوں کا مذاق نہیں اڑایا یہی وجہ ہے کہ آج اس لیڈر کے نام پر زرداری قبیلہ بھی اس ملک پر حکومت کررہا ہے۔
پاناما کیس کا فیصلہ جو بھی آئے اس معاملے سے سب سے اہم سبق جو نواز شریف کو سیکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ اگر وہ 2013کے انتخابات کے فوری بعد ملک میں عمران خان کے مطالبات کو مانتے ہوئے 4 حلقے کھول دیتے تو شاید ان کے حالات اس قدر خراب نہ ہوتے اور نہ ہی ملک کی سیاست اس قدر مکدر ہوتی۔دیکھا جائے تو اس میں نواز شریف کی مبینہ کرپشن یا منی لانڈرنگ کی بجائے ان کی عاقبت نا اندیشی کا زیادہ کردار ہے جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی راہ میں کانٹے بچھالیے ہیں جن سے اب انہیں نہ صرف خود گزرنا پڑرہا ہے بلکہ ان کی فیملی ایک عجیب عذاب میں مبتلا ہوگئی ہے۔دوسرا اہم ترین سبق یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ نواز شریف کو بہت بڑا مینڈیٹ یا قوت ملی ہوئی ہو اوراپوزیشن کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو نواز شریف کو چاہیے تھا کہ آپ اپوزیشن کو اس قدر دیوار کے ساتھ نہ لگا دیتے کہ حالات ایسے ہوجاتے کہ پاکستان پیپلزپارٹی جیسی جماعت جو کہ دھرنے کے دوران ن لیگ کا ساتھ دے رہی تھی اب حکومت کے درپے ہے۔اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے کوئی بڑی سازش کی ہے یہ ایک سادہ سا فارمولا ہے کہ آپ نے میثاق جمہوریت کی پاسداری نہیں کی جس کے جواب میں اب ان کے لیے بھی اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں رہا کہ وہ تحریک انصاف کی ہاں میں ہاں ملائیں۔۔