سہولتوں کے لیے ترسے لوگ
شیئر کریں
احمد اعوان
خواب دیکھنا ہر شخص کوپسند ہے، اس لیے آئیے آج مل کر ایک خواب دیکھتے ہیں، وہ خواب جو دیکھنا آپ کو ضرور پسند آئے گا۔تصور کریں کہ ہماری ایک اسلامی فوج ہے جو امریکا میں داخل ہوچکی ہے ،تمام دنیا کے مسلمانوں کی نمائندہ فوج نے وائٹ ہاﺅس پر قبضہ کرلیا ہے، اس کے ساتھ ہی اقوام متحدہ کا صدر دفتر بھی ہمارے کنٹرول میں ہے ،نیٹو کا دفتر بھی ہمارے قبضے میں آچکا ہے ۔تمام دشمن جنرل نیٹو کے دفتر کے سامنے سڑک پر گردنیں جھکائے کھڑے ہیں ،مغرب اور یورپ سمیت تمام دشمن ممالک کے صدور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی بلڈنگ میں شرمندہ اور ندامت کی تصویر بنے اپنے مستقبل کا فیصلہ سننے کو تیار ہیں۔ دنیا بھر کی مالیاتی اور تجارتی کمپنیوں کے سربراہان ہاتھ جوڑے ادب کے ساتھ گزارش کررہے ہیں کہ ہم آپ کا ہر حکم مانتے کو تیار ہیں، آپ کو جتنی رقم چاہیے دینے کو تیار ہیں۔
اب اگلے مرحلے کی تصویر دیکھیں،دنیا کے تمام طاقتور لوگ جو اب اس بات کا اقرار کرچکے ہیں کہ وہ ہم سے فیصلہ کن جنگ ہار بیٹھے ہیں، اب ہم سے تقاضا کررہے ہیں کہ ہم ان پر حکومت کریں وہ ہمارے ہر حکم کو قبول کریں گے، دلی سے ماسکو اور جاپان سے اسپین، اور آسٹریلیا سے واشنگٹن تک ہمارا پرچم لہرارہا ہے ۔یہ تمام لوگ ہم سے ہماری شرائط پر مذاکرات کرنے پر آمادہ ہیں۔ شکست کھانے والے اپنی طرف سے تین فلسفیوں کو مذاکرات کرنے بھیجتے ہیں، ہماری طرف سے ہماری فوج کاسپہ سالار،ہمارا خلیفہ اور ہمارا مفتی اعظم جاتا ہے۔ شکست خوردہ فلسفی ہمارے بزرگوں سے کہتے ہیں کہ حضور آپ کو دنیا کو فتح کرنا مبارک ہو آپ دنیا کی امامت سنبھالیں ،ہم آپ کو دل سے اپنا حکمران تسلیم کرتے ہیں ۔آپ جیسا کہیں گے ہم اس پر عمل کرینگے ،آپ میں اور ہم میں بہت سی قدریں مشترک ہیں لہٰذا ہمیں آپ کی حکمرانی میں زندگی گزارنے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن ہماری تین چھوٹی سی گزارشات ہیں۔ وہ ذرا سن لیجئے! ہمارا خلیفہ کہتا ہے ، بولو کیا گزارشات ہیں؟ فلسفی کہتا ہے کہ حضور ہماری طرح آپ حضرات بھی انسانی حقوق کے علمبردار ہیں بلکہ آپ مسلمان تو فرماتے ہیں کہ انسانی حقوق تو خطبہ جج الوداع سے ماخود ہے، لہٰذا آپ مہربانی فرماکر انسانی حقوق کو دنیا پر نافذرہنے دیں۔
گزارش نمبر2 دنیا بھر کی عالی شان عمارتیں، پل، کھیل کے میدانوں کو نہ گرایا جائے۔
گزارش نمبر3ہماری ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اسی طرح کاروبار کرنے کی اجازت دے دی جائے جیسے وہ آج تک کرتی آئی ہیں۔
اگر آپ ہماری ان تین گزارشات کو قبول کرلیں تو یہ لیں وائٹ ہاﺅس کی چابیاں، آپ بیٹھیں ہم آپ کے دربان بننے پر بھی راضی ہیں۔
تینوں مسلمانوں نے فلسفی کے خاموش ہونے پر ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر مفتی اعظم فرمانے لگے۔
ہم آپ کی ان تینوں گزارشات پر لعنت بھیجتے ہیں ،اگر یہ تینوں گزارشات ہم نے تسلیم ہی کرنی ہوتی تو پھر ہم حکمرانی کرکے کیاکر ینگے؟ اور پھر ہمارا آپ سے جھگڑا ہی کیا تھا؟
مغربی فلسفی نے کہا:آپ کو ان تین گزارشات پر اعتراض کیا ہے؟
مسلمان مفتی: پہلی بات ہم کسی انسان کے حق کے علمبردار نہیں ہماری تہذیب میں انسان ہوتا ہی نہیں ،ہمارے ہاں عبد ہوتا ہے، عبداللہ ہوتا ہے اورہم اللہ کے غلام ہیں، غلام کے کیاحقوق؟لہذا یہ ممکن ہی نہیں کہ ہم تمہارے فلسفہ انسانی حقوق جوتمہارے ہاںمذہب کادرجہ رکھتا ہے ،اس کوتسلیم کریں چہ جائے کہ نافذ کریں ناممکن۔
مغربی فلسفی!اچھااگرتمہارااعتراض بس یہی ہے توہم انسان کی جگہ عبدحقوق کردیتے ہیں ،اللہ کے بندے کے حقوق، لواب بتاﺅاورکوئی اعتراض؟ مفتی اعظم:ہمیں پھربھی یہ قبول نہیں تم انسانی حقوق میں دنیاکے تمام مذاہب کوبرابرتسلیم کرتے ہو،تم کہتے ہو کہ تمام انسان برابر ہیں ۔یہ سادہ سے جملے اداکرکے اصل میں تم یہ کہہ رہے ہوتے ہوکہ جب سب برابر ہیں توکوئی ایک مقدس نہیں، جب کوئی ایک مقدس نہیں توکوئی بھی اعلیٰ نہیں ،جب کوئی اعلی نہیں تو پھرکسی بھی نبی یا اس کی تعلیمات کو ماننے یانہ ماننے سے کیافرق پڑے گا۔لہٰذا تم مذاہب عالم کے ردکودرحقیقت جواز دیتے ہو،ہم کبھی تمام انسانوں کوبرابرتصورنہیں کرسکتے۔ ہمارے ہاںآج سے چودہ سوسال پہلے کے صحابہ کارتبہ آج تک کسی کوحاصل نہیں ہوسکا ،صلاح الدین ایوبی کوبھی نہیں، امام ابوحنیفہ کوبھی نہیں،کسی قطب کسی ولی کسی ابدال کو بھی نہیں، ہمارے ہاں برتری کامعیار تقویٰ ہے۔
مغربی فلسفی :چلودوسری بات مان لو، دیکھو عمارتیں ، پل اورکھیل کے میدان روزروز نہیں بنتے، یہ ہم نے بنائے ہیں، انہوں نے توتم مسلمانوں سے کوئی جنگ نہیں کی اورپلوں پرچل کرتو تم ہم تک جلدی پہنچے ہولہذا ان عمارتوں اور کنکریٹ سے آپ جناب کی کیادشمنی؟
مفتی اعظم:ہماری تہذیب، ہماری تاریخ ،بلند عمارتوں کے بغیرکھڑی تھی اورکھڑی رہے گی۔ ہم نے بلند عمارتوں کی تعمیرپروقت ضائع نہیں کیا،ہم نے بلندکردار کی تخلیق پروقت صرف کیا تھا ۔ہماری تہذیب میں اورتاریخ میں وہ لوگ پیداہوئے جو تقویٰ اور اعلی اوصاف میں اس قدراعلیٰ تھے کہ تم ان جیسا ایک بھی پیدانہیں کرسکے۔ہم دنیاکی زندگی پرآخرت کو فوقیت دیتے ہیں۔ ہمارے بنی ﷺ کاذاتی مکان جب وہ حکمران تھے اوردولت کے انبار مکہ میں پہنچ چکے تھے ،اس وقت بھی اس کی چھت اتنی اونچی تھی کہ ان کاسرمبارک اس سے ٹکراتا تھا ۔ہماری تہذیب سادگی کی ہے ،ہم وقت دنیا بنانے میں نہیں آخرت سنوارنے میں گزارتے ہیں۔ہم عارضی ٹھکانے کے بجائے ابدی گھروں کی تعمیر کا سامان اکٹھا کرنے دنیا میں بہت تھوڑی سی مہلت لیکر آئے ہیں لہٰذا ہم ان تمام تعمیرات کو ویسے ہی توڑ دینگے جیسے کہ حکم ہے ۔اگر وائٹ ہاﺅس میں بیٹھنا ہی مقصد تھا تو پھر تم سے جنگ کرنے کا کیا فائدہ ؟ تم تو ہم سے اچھا نظام چلارہے تھے۔ تیسری گزارش بھی پہلی اور دوسری کی طرح قابل قبول نہیں، تمہاری تجارت سودی ہے ،تمہاری معیشت سودی ہے، تم جمع کرنے کے فلسفے پر عمل پیرا ہو جبکہ ہم سود کو اللہ تعالیٰ سے جنگ سمجھتے ہیں لہٰذا تمہاری تیسری شرط بھی قابل قبول نہیں۔
اس لمحے مغربی فلسفی اپنی جگہ اسے اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ ٹھیک ہے تم ہماری ان تینوں گزارشات کو نہ مانو لیکن مجھے ایک مرتبہ تم اجازت دو کہ میں تمہاری اس عوام سے مخاطب ہوسکوں جسے تم یہاں تک لیکر آئے ہو اور جو فتح کے نغموں پر مسلسل دوراتوں سے جھوم رہے ہیں۔ تینوں مسلمان بزرگ ایک بار پھر ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اور اس فلسفی کی اس شرط کو قبول کرلیتے ہیں۔
فلسفی وائٹ ہاﺅس کی گیلری میں آتا ہے اور سیٹلائٹ کے ذریعے پوری دنیا کے مسلمانوں کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ مسلمانوں مبارک ہو تمہارے حکمران ہم پر غالب آگئے ہیں ہم مغلوب ہوچکے ہیں اب ہم شکست کھاچکے ہیں بلکہ ہم نے اپنی شکست تسلیم بھی کرلی لیکن میں تم مسلمانوں کو وہ گفتگو سنانا چاہتا ہوں جو تمہارے مفتی اعظم اور میرے درمیان ہوئی ہے، تم آج سے پوری دنیا کے حکمران ہو بس ہم نے تمہارے وفد کے سامنے تین گزارشات رکھی تھیں جو انہوں نے رد کردی ہیں۔
ایک اچھا انسان ہونے کے ناطے میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ یہ تمہارے رہنما تمہیں کیسی زندگی دینا چاہتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں ہم تمام دنیا سے اعلیٰ تعمیرات کا نشان تک مٹا دینگے یہ جو وائٹ ہاﺅس ہے یہ اس کو بھی مسمار کرینگے، وہ جو ایفل ٹاور ہے وہ بے چارا بھی پانی میں گرے گا، یہ کہتے ہیں کہ یہ تعمیرات ہمارے آقا ﷺکے دور میں نہ تھی اب کیسے برداشت کی جائے۔ میں تم سے پوچھتا ہوکیا تم ایسی دنیا دیکھنا چاہتے ہو جہاں مٹی اڑتی ہو، جہاں کوئی عالی شان عمارت کا نام ونشان نہ ہو؟ بتاﺅ !ایک طویل خاموشی ہے مجمع میں۔
اور مزید یہ کہ یہ تم تمام مسلمانوں کو بھی برابر نہیں سمجھتے، یہ تمہارے رہنما مجھ سے کہتے ہیں ہم انسانی حقوق کو نہیں مانتے ،یہ تمہیں نماز نہ پڑھنے پر سزادینگے، یہ تمہیں رات 12 بجے باہر گھومنے پر سزادینگے ،یہ تمہیں کرکٹ نہیں کھیلنے دینگے بلکہ تمہاری کرکٹ ٹیم ہی نہیں ہوگی نہ فٹ بال ٹیم ،یہ کہتے ہیں یہ وقت کا ضیائع ہے اور اللہ پاک نے وقت امانت کے طور پر دیا ہے، جب موت کا وقت متعین نہیں تو کھیل کود کر زندگی گزارنے کا حق کیسے دے دیا جائے ؟ اس بار بھی مجمع خاموش ہے۔
تیسری بات بھی سنو! یہ تمام ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ختم کرنے والے ہیں ،یہ تمہیں روایتی طریقے سے گزاری جانے والی زندگی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں یہی صحابہ کرامؓ کا طرزِزندگی تھا ! لہٰذا ہمیں وہ طرز زندگی محبوب ہے۔
دنیا بھر کے مسلمانو! بولو، تم اس لیے دنیا کو حاصل کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے؟ کیا تم اس لیے آئے تھے؟ کہ تمہاری اولادیں آج سے بھی بدتر زندگی کل گزاریں، کیا تم ترقی نہیںکرنا چاہتے ؟ بتاﺅ فیصلہ تمہارے ہاتھوں میں ہے، میں نے فلسفی ہونے کے ناطے تاریخ کے پردے پر تمہیں جگانے کی کوشش کی اب تم جانو اورتمہارا کام۔
فلسفی واپس پلٹتا ہے اور مسکراتے ہوئے تینوں مسلمان بزرگوں سے کہتا ہے کہ سنو۔۔۔۔ باہر کا شور سنو ۔وہ کمرے کا پردہ اٹھاتے ہیں تو لوگ ایک عجیب بے چینی کی تصویر بنے انقلاب نامنظور، انقلاب نامنظور کے نعرے لگارہے ہیں ۔اسی لمحے فلسفی تینوں مسلمانوں سے مخاطب ہوکر کہتا ہے !
تم نے اپنی قوم کو جن وعدوں پر اکٹھا کیا تھا، کیا تمہارے نبیﷺ نے بھی اپنی قوم کو اسی طرح کے دنیا دینے کے وعدوں پر اکٹھا کیاتھا؟؟؟اور کیا صحابہ کرام ؓ کو اسی طرح اکٹھا کیا تھا؟؟؟ تم نے اپنے لوگوں کو جس اچھی اور ترقی والی زندگی کا خواب دکھا یاتھا کیا تمہارے صحابہ کے دور میں ان کی رعایا بھی ایسی ہی زندگی کا خواب دیکھتی تھی؟؟ میرے عزیز اور بھولے دشمنو! تم کس دعوت پران کو اکٹھا کرتے رہے؟ یہ کیا بھول کر بیٹھے تم ؟تم تو جیتی بازی ہار بیٹھے یہ تو ہماری ہی چال تھی؟ سنو پچھلے دروازے سے نکل جاﺅ اور پھر سے تیاری کرو، اگرہم سے مقابلہ کرنا ہے تو پہلے اپنے لوگوں کو دنیا کے مقابلے پر آخرت کو ترجیح دینا سکھاﺅ، ان کو اپنی تہذہب پر، اپنی تاریخ پر، اپنے اکابرین کے طرز زندگی پر، اپنے بزرگوں کے ،دنیا سے دور رہنے والے نظریے پر، فقرہ فاقہ والی تاریخ اور تہذیب پر فخر کرنا سیکھاﺅ ۔یہ جو باہر کھڑے ہیں یقین کرو یہ عیش پرستی اور سہولتوں کی محبت میں تمہارے ساتھ تھے۔ تمہارے مذہبی پیشوا جو اسلامی تاریخ کے ماہر تھے انہوں نے جو تعلیمات خود حاصل کیں انہوں نے وہ عوام تک اس طرح کیوں نہیں پہنچائیں جیساکہ حق تھا؟ ؟؟ وہ عوام کا ہجوم اکٹھا کرنے کی فکر میں حقائق کو، تاریخ کو، اپنی تہذیب کا چہرہ مسخ کرکے کیوں پیش کرتے رہے؟ دیکھو میں ایک فلسفی ہوں میں تو اس وقت بھی سچائی بیان کرنے میں نہیں ڈرا پھر تم زمانہ امن میں کیوں نا مکمل اور اصل سچ بیان کرنے سے باز رہے ؟ ہم سے مقابلہ کرنے آئے تھے ناں تم ؟ لیکن ہمارے اصولوں ،ہمارے طریقوں ،ہمارے راستوں پر چل کر ؟ ارے نادان دشمنو! یہ کیسے ممکن تھا کہ راستہ ہم بتاتے اور اس پر چل کر کامیاب تم ہوجاتے۔ تم نے اپنی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا ؟ میدانوں کی جنگ سے قبل ایک جنگ عملی ، فکری اور تہذیبی محاذ پر لڑی جاتی ہے، تم نے تو بس سارا زور میدان کی جنگ پر رکھا اور فکری محاذ پر تو تم کبھی ڈٹ کر کھڑے ہوئے ہی نہیں۔ تم ہمارے میڈیا کے لیے ترستے تھے اورہم اہل مغرب دل میں حسرت کرتے تھے کہ کاش کبھی کوئی ایسا ذریعہ ہم بناسکیں کہ جس میں ہمارے ہاں اسی طرح سے لوگ ہر ہفتے جمع ہوسکیں جس طرح تمہاری مسجدوں میں جمعہ کو جمع ہوتے تھے ۔تم اتنا بڑااور موثر دعوت کا ذریعہ رکھ کر بھی خالی ہاتھ رہے تمہیں معلوم ہے وجہ کیا تھی؟ وجہ صرف یہ تھی کہ تم ذہنی اور فکری طور ہم سے مرعوب ہوچکے تھے ،تم ہماری ٹیکنالوجی پر ایمان لاچکے تھے، تم ہماری تہذیب کو قبول کرچکے تھے۔ ایسے میں ہم تو اسی روز کا انتظار کررہے تھے کہ تم ہم تک پہنچ کر بھی ناکام رہو تو ہم وہ صبح دیکھیں اور دیکھو آج وہ صبح آہی گئی۔
فلسفی تینوں مسلمانوں کو مسکراتے ہوئے دیکھتا ہے اور کہتا ہے ؟ اگر تم اسی راستے سے باہر نکلے تو یہ سہولتوں کے لیے ترسے لوگ تمہیں نوچ ڈالیں گے لہٰذا ہم سے جیتنے کے لیے اپنے میدان کو پھر سے سجاﺅ اور اس شکست کو یاد رکھو ،ہم کو شکست دینے کے خواب کا انجام دیکھ لو اور اس کی حقیقت پر یقین کرلو۔