میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نیب سندھ حکومت کے لیے درردِ سر کیوں؟

نیب سندھ حکومت کے لیے درردِ سر کیوں؟

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۳ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

دس سے زائد وزراء اور 50 سے زائد سرکاری افسران پر کھربوں روپے کی لوٹ مار کے مقدمات احتساب عدالت میں زیر سماعت ہیں
شرجیل میمن ایک اسٹیٹ ایجنٹ تھے وہ مخدوم امین فہیم اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے ذریعہ آصف زرداری اور فریال تالپر تک پہنچے
الیاس احمد
قیام پاکستان سے لے کر آج تک سندھ میں جتنی بھی لوٹ مار کی گئی ہے اس کا اگر حساب کیا جائے توہزاروں افراد جیلوں میں گل سڑ جائیں گے لیکن حساب پھر بھی ختم نہیں ہوگا۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک حکمرانوں نے ہمیشہ سندھ کو ہی نشانا بنایا ۔کسی نے زمینوں پر قبضے کیے ،کسی نے ٹھیکوں میں بے قاعدگیاں کیں۔ کسی نے نوکریاں فروخت کیں، کسی نے سرکاری خزانے سے اربوں روپے کی ادائیگیاں کیں۔ یوں ہرکسی نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ اگرکوئی کرپشن میں ملوث نہیں ہوا تو وہ صرف اپوزیشن میں ہی ہوگا ورنہ جس کو جہاں موقع ملاوہ پچھلوں سے دو ہاتھ آگے ہی گیا اور پھر آنے والے نے نئے ریکارڈ بنائے۔ صرف ایک مثال کافی ہے کہ سندھ میں ایک نگراں حکومت تین ماہ کے لیے بنی۔ اس کا ایک وزیر رکشہ میں گورنر ہائوس آیا مگر تین ماہ بعد وہ لینڈ کروزر میں گیا ۔کراچی اور خیرپور میں مہنگے گھر بھی بنالیے۔
بیورو کریسی ہمہ وقت تیاررہ کر بیٹھی رہتی ہے جس کا جوشوق ہے اس کا وہی شوق پوراکردیا جاتا ہے۔ اگر کسی وزیراعلیٰ کو مشروب پسند ہو تو اُس کے لیے ہر قسم کی’’ شربت‘‘ حاضر کردی جاتی ہے اور اگر کوئی وزیراعلیٰ’’ تتلیاں‘‘ پکڑنے کادلدادہ ہے تو اس کورنگ برنگی تتلیاں پیش کر دی جاتی ہیں یہاں تک کہ بھارتی تتلیاں بھی پکڑ پکڑ کر اُن کے ہاتھوں میں دی جاتی رہی ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی وزیراعلیٰ تبلیغی اور نیک نمازی ہے تو آدھی بیورو کریسی تبلیغی جماعت میں شامل ہوجاتی ہے اور نماز روزے ایسے رکھ لیتے ہیں جیسے وہ پیدائشی مومن ہوں مگر 2008 ء کے بعد صورتِ حال تبدیل ہوئی ۔ اب وزیراعلیٰ زیادہ بااثر اور طاقتور نہیں رہے۔ اب اصل طاقت کا محور آصف علی زرداری بن چکے ہیں اور اُن کے سامنے وزرائے اعلیٰ بھیگی بلی بنے رہتے ہیں۔ جن کو 1988 ء سے لے کر 2007 ء کے آخر تک مسٹر ٹین پرسنٹ کہلائے جانے کے باوجود ہمیشہ دوسرے اور تیسرے نمبر کی صف میں رکھا گیا، انہیں صف اول میں آنے تک نہ دیا گیا لیکن 27 دسمبر 2007 ء کے بعد جب وہ ایک وصیت کے ذریعہ پارٹی کے سربراہ بنے تب سے وہی طاقت کا مرکز ہیں۔ انہوں نے طاقت کے معیار ہی تبدیل کر دیے ہیں اب وہی حاکم ہیں اور وزیراعلیٰ یا صوبائی وزیر صرف کاغذی شیر ہیں۔ ان کے بعد اگر کوئی طاقتور ہے تو وہ فریال تالپر ہیں جو ان کی بہن ہیں ،باقی رہے نام اللہ کا۔
2007ء کے بعد جس طرح صوبے میں لوٹ مار کی گئی، اس کی مثال دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں ملتی ۔شرجیل میمن ایک اسٹیٹ ایجنٹ تھے۔ مخدوم امین فہیم اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے ذریعہ آصف زرداری اور فریال تالپر تک پہنچے اور پھر محکمہ اطلاعات میں 6 ارب روپے کی ایسی کرپشن کی کہ بڑے بڑے لوگ واہ واہ کہہ اٹھے۔ منظور کاکا کو سندھ بلڈنگ کنٹرول کا سربراہ بنایا گیا اس نے اربوں نہیں کھربوں روپے کی کرپشن کی حتیٰ کہ ملک ریاض کے ساتھ بحریہ ٹائون کی زمینوں کی الاٹمنٹ کے لیے سرکاری طور پر اہم اجلاسوں میں بیٹھتے رہے اور اس کا ذکر سرکاری طور پر جاری کیے جانے والے منٹس میں بھی کیا جاتا رہا۔ مال لوٹ کر وہ بیرو ن ملک چلے گئے پھر ذوالفقار مرزا نے ڈاکٹر نثار مورائی کے ساتھ مل کر زمینوں پر قبضے کیے۔ ایس ایچ اوز کی تقرری کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے بعد ازاں ذوالفقار مرزا نے علیحدگی اختیار کرلی اور نثار مورائی جیل میں بند پڑے ہیں ۔پھر نیب نے سپریم کورٹ میںایک تاریخی اسکینڈل بے نقاب کیا کہ سندھ کے 563 افسران نے نیب کو دس ارب روپے واپس کیے ۔ ان میں موجودہ وزیراعلیٰ کے دوبہنوئی اعجاز شاہ اور مہدی شاہ شامل تھے۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ان افسران کو ملازمت سے فارغ کیا جائے لیکن حکومت سندھ نے انہیں قیمتی اثاثہ سمجھ کر اپنے پاس تاحال محفوظ کیا ہوا ہے۔آخردامادوں کی عزت رکھنا بھی ضروری ہے۔ اس طرح دس سے زائد وزراء اور 50 سے زائد سرکاری افسران پر کھربوں روپے کی لوٹ مار کے مقدمات احتساب عدالت میں زیر سماعت ہیں جو نیب نے ہی بنائے تھے۔ اگر ان تمام مقدمات کا فیصلہ ہو جائے تو پھر آصف زرداری اور فریال تالپر کی سیاست ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔ لیکن سندھ حکومت نے نیب نامی کانٹے کو کرپٹ وزرا اورافسران کے حلق سے نکالنے کی کوشش شروع کردی کیونکہ نیب کے اقدامات سے ہلچل مچ گئی تھی، اگر یہ وزراء اور افسران نا اہل ہوگئے اور جیل چلے گئے تو پھر آنے والے نئے وزراء اور نئے افسران کس طرح لوٹ مار کرنے میں مدد کریں گے؟ اور کس طرح وہ بھاری رقومات زرداری اور فریال کے پاس لے جائیں گے؟ بس اسی بات نے آصف زرداری اور فریال تالپر کی نیندیں حرام کی ہیں، اسی لیے سندھ سے نیب کا قانون ختم کیا گیا ہے۔ یہ سب اتنا جلدی میںکیا گیا ہے کہ خود حکومت سندھ بھی پریشان ہے ۔وجہ صرف ایک تھی کہ نیب کے خاتمے کاقانون فوری طور پر نافذ ہو جائے تاکہ جب آصف زرداری حالیہ دنوں میں صوبے کے تمام اضلاع کا دورہ کریں تو اپنی نئی کرپٹ ٹیم تیار کرسکیں جنہیں عام انتخابات میں ٹکٹ دے سکیں اور ان کو کہہ سکیں کہ جائو کھل کر کرپشن کرو اب ہمیں اس ’’عظیم کام‘‘ سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی کیونکہ ہم نے تو اب اپنا صوبائی احتساب کمیشن بھی بنالیا ہے۔ جس میں اپنی مرضی کے افسران تعینات کیے گئے ہیں لہذا آئو مل کر کرپشن کریں لیکن آصف زرداری یہ بات یاد رکھیں کہ ذوالفقار بھٹو نے مخالفین کے لیے جو قانون بنائے تھے، تاریخ گواہ ہے وہی قانون خود بھٹو کے خلاف استعمال ہوئے تھے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں