وفاقی دارالحکومت میں تبدیلی کی ہوائیں .....آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا ۔۔۔
شیئر کریں
عمران خان نے پرویز رشید کے استعفے اور خواجہ آصف کی دبئی روانگی کو درباریوں کا فرار قرار دیا ،برطرفی کا معاملہ قومی سلامتی سے متعلق ایک خبر سے جڑا ہوا ہے
شیخ رشیدکے کامیاب شو نے حکومت کی جگ ہنسائی کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کو بھی وارم اپ ایکسرسائز کے بغیر ہی دو نومبر کی حکمت علمی کے لیے آسانی پیدا کر دی
انوار حسین حقی
2 نومبر سے پہلے ہی وفاقی حکومت کے اوپننگ بیٹسمین وزیر اطلاعات پرویز رشید کو ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کے اعلان اور وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کی دبئی روانگی نے اسلام آباد کے سیاسی ماحول کو انتہائی بلند درجہ حرارت پر لا کھڑا کیا ہے ۔ وزیر اطلاعات پرویز رشید کی برطرفی کا معاملہ قومی سلامتی سے متعلق ایک خبر سے جڑا ہوا ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اسے ایک کامیابی قرار دیتے ہوئے قوم کو خوشخبری دی ہے ۔ اسلام آباد کے حلقے اس خبر کا گزشتہ 2 دنوں سے انتظار کر رہے تھے ۔ عمران خان نے اس استعفیٰ کو ” درباریوں “ کا فرار قرار دیا ہے ۔ عین اس وقت جب یہ پرویز رشید کے عہدے سے ہٹائے جانے کی خبر الیکٹرونک میڈیا پر بریک ہوئی تو ” بنی گالا “ میں پولیس کی جانب سے پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ساتھ آنکھ مچولی ایک تصادم میں بدلتی نظر آ رہی تھی ۔ پولیس کی شیلنگ سے عمران خان کی ذاتی سکیورٹی کے انچار ج احمد نیازی اپنے ساتھی طاہر حبیب سمیت زخمی ہو گئے ۔ احمد نیازی عمران خان کے قریبی عزیز ہیں ان کا تعلق میانوالی سے ہے، وہ عمران خان کے پھوپھی زاد بھائی کے بیٹے ہیں ۔
پرویز رشید کی رخصتی نے دو نومبر کی آمدسے قبل ہی سیاسی ماحول کو گرما دیا ہے ۔ عمران خان کی طرف سے اعلان کردہ احتجاج نے میاں نوازشریف کی حکومت کے مستقبل کو تحفظات کے حصار میں محصور کر کے رکھ دیا ہے ۔ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں ملنے والا ہرشخص دوسرے سے یہی سوال کرتا نظر آتا ہے کہ دو نومبر کوکیا ہونے جا رہا ہے ۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں ماحول پر سراسیمگی چھائی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ حکمران پارٹی اور اس کے حلیفوں کو عمران خان دباو¿ میں لانے میں کامیاب نظر آتے ہیں ۔
دو نومبر کے احتجاج کو ناکام بنانے کے لیے وفاقی حکومت نے چوہدری نثار کو مخصوص قسم کی ہدایات کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت کی مکمل معاونت فراہم کر دی ہے ۔ پنجاب پولیس کے اہلکاروں کی بڑی تعداد کی خدمات وفاق کے سپرد ہیں ۔ اسلام آباد میں مختلف مقامات پر ایف سی اہلکاروں کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت کے اہلکار ان مقامات پر تعینات ہیں جو اسلام آباد کے انٹری پوائنٹ ہیں یا جن مقامات پر پی ٹی آئی کے کارکن دھرنا دے سکتے ہیں ۔
پنجاب پولیس نے صوبے کے طول و عرض میں ناکہ بندیوں اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کو اسلام آباد کے احتجاج میں شرکت سے روکنے کے لیے حکمت عملی اور رو ڈ میپ کے مطابق عملدرآمد میں مصروف ہیں ۔ اسلام آباد کے قریبی اضلاع جن میں چکوال ، اٹک ، جہلم خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ،ان کی انتظامیہ کو ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اضلاع کے داخلی راستوں پر پی پی ٹی آئی کے کارکنوں کو روکیں ۔
ضلع اٹک کی انتظامیہ خصوصاً پولیس کو صوبہ خیبر پختونخوا سے آنے والے قافلوں کو روکنے کا مشکل ٹاسک دیا گیا ہے ۔پنجاب بھر سے پولیس کی نفری اور ایف سی کے جوان اٹک کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کی ڈسپوزل پر ہیں ۔ اٹک پُل پر کے پی کے اور فاٹا سے بڑے اور منظم قافلوں کی آمد متوقع ہے ۔ خیال کیا جا رہا ہے خیبر پختونخوا سے آنے والے جلوس کے ہمراہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک اور صوبائی وزراءبھی ہوں گے جن کو روکنے میں اٹک پل پر تعینات پنجاب پولیس کو مشکلات کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے ۔ عمران خان کی ہدایت پر وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اپنا دورہ برطانیا مختصر کرکے وطن واپس پہنچنے والے ہیں ۔ شیخ رشید کے کامیاب شو نے جہاں حکومت کی جگ ہنسائی کا سامان پیدا کیا وہاں اپوزیشن جماعتوں خصوصاً پی ٹی آئی کو بھی وارم اپ ایکسرسائز کے بغیر ہی دو نومبر کی حکمت علمی متعین کر نے میں آسانی پیدا کر دی ہے۔
دو نومبر کو عمران خان کا احتجاج ناکام بنانے کے لیے پنجاب میں کنٹینروں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ ایک ہفتہ پہلے سے شروع کر دیا گیا تھا ۔ صوبے میں خصوصاً راولپنڈی کے ملحقہ اضلاع میں پکڑے گئے کنٹینرز سڑکوں کے کنارے ہوٹلوں اور پٹرول پمپوں کر کھڑے کیے گئے ہیں ۔ کنٹینرز مالکان اور ڈرائےورز کا کہنا ہے کہ اکثر کنٹینرز میں کھانے پینے کی اشیاءہیں جن کے خراب ہونے کے امکانات ہیں لیکن پولیس حکام اپنی مجبوریوں کے باعث کنٹینرز چھوڑنے سے معذوری ظاہر کر رہے ہیں ۔
وفاقی حکومت نے دو نومبر کو عمران خان کے احتجاج کو ناکام بنانے کے لیے عمران خان اور پی ٹی آئی کی صفِ اول کی قیادت کو گرفتار اور نظر بند کرنے کے آپشن پر بھی سنجیدگی سے غور کرنا شروع کر رکھا ہے ۔ عمران خان کی گرفتاری کی صورت میں پی ٹی آئی کی قیادت نے متبادل حکمت عملی بھی طے کر رکھی ہے ۔ ایک ذریعے کا کہنا ہے عمران خان کی جانب سے ارکان پارلیمنٹ کو اپنی نشستوں سے مستعفی ہونے کا بھی کہا جا سکتا ہے ۔ اس آپشن کے استعمال کے امکانات دو نومبر کی صورتحال سے مشروط ہیں ۔
عمران خان کی تحریک انصاف کے احتجاج کو کاو¿نٹر کرنے کے لیے مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں کے 33 ارکان نے مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے صوبائی اسمبلی کے رکن حاجی صالح محمد کی قیادت میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے لیے ریکوزیشن سیکرٹری صوبائی اسمبلی کے پاس جمع کروادی ہے ۔ بتایا گیا ہے کہ اس ریکوزیشن پر اے این پی ، پی پی پی اور جمیعت علمائے اسلام کے ارکان شامل ہیں ۔ صالح محمد نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں بعض حکومتی ارکان کی حمایت بھی حاصل ہے ۔
تازہ ترین سیاسی صورتحال نے آنے والے ہر لمحہ کو سنسنی خیز بنانا شروع کر دیا ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے اوپننگ بیٹسمین کا ” ریٹائرڈ ہرٹ “ ہونا حکومت کو درپیش سنجیدہ مشکلات کا مظہر ہے ۔ دو نومبر سے پہلے صورتحال میں مزید ڈرامائی تبدیلیوں کا امکان ہے ۔ تبدیلیوں کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اس کا فیصلہ چند روز میں ہو جائے گا ۔ تاہم اس پر مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا اتفاق ہے کہ سیاسی اونٹ کی کروٹ کا تعین متنازع خبر کی اشاعت کے حوالے سے قائم کی جانے والی اعلیٰ سطحی تحقیقاتی پروگریس پر بھی ہے ۔ اسلام آباد میںتبدیلیوں کی ہوائیں چلنا شروع ہو گئی ہیں ۔ آنے والا ہر لمحہ سنسنی خیز دکھائی دے رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ” آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا ؟؟“