میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
امریکا کے ساتھ تعلقات پرنظر ثانی وقت کی ضرورت

امریکا کے ساتھ تعلقات پرنظر ثانی وقت کی ضرورت

منتظم
هفته, ۸ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں


امریکی سینیٹر جان مکین نے کابل پہنچنے کے بعدپاکستان کے حوالے سے اپنا لہجہ قطعی تبدیل کرتے ہوئے پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان حقانی نیٹ ورک کی حمایت ترک نہیں کرتا تو امریکا کو بھی پاکستانی قوم کے ساتھ اپنا رویہ بدل لینا چاہیے۔امریکی سینیٹر کے بیان سے یہ صاف ظاہر ہے کہ امریکا اپنے سب سے قریبی اتحادی اور بُرے وقت کے ساتھی کے ساتھ اپنا رویہ تبدیل کر رہا ہے۔انگریزی اخبارڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی سینیٹر جان میک کین نے کابل میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کو یہ پیغام پہنچا دیا ہے اورپاکستان پر واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کو اب حقانی نیٹ ورک کی حمایت ترک کرناہوگی،اس کے ساتھ ہی جان مکین نے امیدظاہر کی ہے کہ پاکستان ہمارا ساتھ دے گا اور بالخصوص حقانی نیٹ ورک اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کرے گا’۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر پاکستان اپنا رویہ نہیں بدلتا تو پھر امریکا کوبحیثیت قوم پاکستان کے ساتھ اپنا رویہ تبدیل کر لینا چاہیے۔امریکا کے علاوہ، حال ہی میں نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینس اسٹالٹین برگ نے بھی اپنے بیان میں کہا تھا کہ یہ ہرگز قابل قبول نہیں ہے کہ ایک ملک ایسے دہشت گردوں کو پناہ دے جو دوسرے ملکوں میں دہشت گرد کارروائیاں کررہے ہیں۔
پاکستان میں موجود ذرائع کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ امریکی سینیٹر اور ان کے وفد کی کابل روانگی سے قبل اسلام آباد میں پاکستانی فوج کے اعلیٰ حکام نے انہیں بریفنگ دیتے ہوئے واضح طور پر بتادیاتھا کہ پاکستان اور حقانی نیٹ ورک کے درمیان اب کوئی روابط نہیں ہیںاور اگر پاکستان میں کوئی بھی عسکریت پسند پکڑا گیا تو اسے گرفتار کرکے اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
پاکستان کے حوالے سے امریکی سینیٹر کا بیان اور نیٹو کے جنرل سیکریٹری کی بات چیت سے پاکستان کے بارے میں بدلتے ہوئے امریکی رویے کی عکاسی کرتی ہے ،جان مک کین اور نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینس اسٹالٹین برگ کے بیانات کو ان کے ذاتی خیالات قرار دے کر نظر انداز نہیں کیاجاسکتا،کیونکہ حال ہی میں امریکی محکمہ دفاع پینٹا گون کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میںبھی کہا گیا ہے کہ افغانستان میں سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والا بیرونی عنصر پاکستان ہے۔رپورٹ میں مبینہ طور پر بتایا گیا کہ پاکستان میں طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی اعلیٰ قیادت کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں۔ پینٹاگون نے امریکی سینیٹر کے سامنے اسلام آباد اور کابل کے دورے سے قبل ہی ’افغانستان میں امن و امان کی صورتحال‘ کے حوالے سے یہ پورٹ پیش کی تھی۔پینٹا گون کی اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان سیکورٹی کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرے اور کسی بھی دہشت گرد یا پھر انتہا پسند گروپ کو محفوظ پناہ گاہیں نہ بنانے دے۔تاہم پینٹاگون کی اس رپورٹ میں یہ بھی تسلیم کیا گیا تھا کہ افغانستان میں بھارت کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ پاکستان کو افغانستان میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے سے روک رہا ہے اور پاکستان کی جانب سے افغانستان میں مبینہ طور پر انتہا پسندوں کی مدد کرنے کی بھی یہی وجہ ہے۔پینٹاگون کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھاکہ پاکستان، افغانستان کے امن و استحکام اور امریکی و نیٹو افواج کی کارروائیوں کے نتائج پر اثر انداز ہونے والا سب سے با اثر عنصر ہے۔رپورٹ میں یہ بھی اعتراف کیا گیا تھا کہ داعش کے خراسان گروپ کے خلاف کارروائیوں میں پاکستان نے امریکی اور افغان فورسز کو مدد فراہم کی تھی لیکن اس اعتراف کے ساتھ ہی یہ الزام بھی عاید کیاگیاکہ افغانستان میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں میں پاکستان میں موجود انتہا پسند عناصر ملوث ہیں جن میں طالبان اور حقانی نیٹ ورک شامل ہیں جبکہ پاکستان کو یقین ہے کہ افغانستان میں موجود انتہا پسند عناصر پاکستان میں دہشت گرد کارروائیاں کرنے میں ملوث ہیں اور ان ہی وجوہات کی بنا پر پاکستان اور افغانستان کے تعلقات متاثر ہوتے ہیں۔
ہماری وزارت خارجہ کواس صورت حال پر بطور خاص توجہ دینی چاہئے اور یہ دیکھنا چاہئے کہ امریکی کانگرس کی آرمڈ فورسز کمیٹی کے چیئرمین جان مک کین جب امریکی کانگریس کا وفد لے کر اسلام آباد اترے تو دہشت گردی کی جنگ میں تعاون کے حوالے سے پاکستان کیلئے ان کا طرز تخاطب ملائمت سے لبریز تھا اور وہ پاکستان کے کردار اور قربانیوں کی ستائش کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھی امریکا کی جانب سے کردار ادا کرنے کی خواہش کا اظہار کررہے تھے پاکستان سے کابل پہنچتے ہی جان مک کین نے پاکستان کے بارے میں اپنا لہجہ اور رویہ یکسر تبدیل کیوں کرلیا اور اس طرح تحکمانہ لہجے میں پاکستان سے مخاطب ہونے کابنیادی سبب کیا ہے،جان مک کین کاکہناہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کو افغانستان سے تعاون کرنا چاہیے۔ کابل میں افغان میڈیا سے گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ ہم نے دہشت گرد تنظیموں کیخلاف تعاون کی بات پاکستان پر واضح کردی ہے‘ امید ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کیخلاف آپریشن میں تعاون کریگا۔ افغان ٹی وی ’’دی طلوع نیوز‘‘ کے مطابق امریکی کانگرس کے وفد نے پاکستان میں حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے محفوظ ٹھکانے ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ افغانستان میں اضافی فوجیوں کی تعیناتی کی ضرورت تھی‘ ملک میں جاری جنگ جیتنے کیلئے فورسز کو مزید اختیارات دینا ہونگے۔ دریں اثنامریکی سینیٹروں کے وفد سے ملاقات کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ ہم امریکا کی نگرانی میں پاکستان کے ساتھ مشترکہ سرحدی کارروائیوں کی تجویز پر متفق ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی وفد نے افغانستان کے ساتھ تعاون کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو قیام امن کیلئے دہشت گردی کیخلاف افغانستان سے تعاون کرنا چاہیے۔
جان مک کین کے اس بیان سے نہ صرف وزارت خارجہ بلکہ وزیرا عظم نواز شریف کی آنکھیں بھی کھل جانی چاہئیں اور انھیںصورتحال کا بخوبی اندازہ لگا لینا چاہیے کہ ٹرمپ انتظامیہ اس خطہ میں اپنے فرنٹ لائن اتحادی پاکستان کے بارے میں کیا حکمت عملی طے کررہی ہے۔ جان مک کین نے اسلام آباد آکر پاکستان کیلئے جو ہمدردانہ الفاظ ادا کیے اور جس ریشہ خطمی لہجے میں بات کی وہ سوائے منافقت‘ ریاکاری اور چرب زبانی کے اور کچھ نہیں جبکہ پاکستان کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ کی نیت میں جو فتورپیدا ہوچکا ہے امریکی کانگرس کے وفد نے کابل پہنچتے ہی انتہائی رعونت کے ساتھ اس کا اظہار کردیا ہے افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے ساتھ کھڑے ہو کرجان مک کین نے پاکستان سے اس انداز میں ڈومور کے تقاضے کیے جیسے پاکستان کوئی آزاد اور خودمختار ملک نہیں بلکہ امریکا کی کوئی طفیلی ریاست ہو۔ اس امریکی لب و لہجے سے اسکی کٹھ پتلی کابل انتظامیہ کو بھی اب پاکستان کے ساتھ اپنی ہذیانی کیفیت کے
اظہار کا مزید موقع ملے گا ۔
جہاں تک دہشت گردوں کیخلاف آپریشن کا تعلق ہے تو پوری دنیا اس بات کااعتراف کرچکی ہے اور کررہی ہے کہ پاک فوج نے ردالفساد کے تحت ملک بھر میں پہلے ہی تمام دہشت گردوں کیخلاف بلاامتیاز اور بے لاگ کارروائی کرکے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ،پاکستان کی سرزمین کودہشت گردوں کیلئے تنگ کردیاگیاہے اور اب وہ افغانستان میںاپنی کمین گاہیںبناکر وہاں سے پاکستان میں داخل ہوکر کارروائی کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس کی وجہ سے پاک فوج کوافغانستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کونشانہ بنانا پڑا اور دہشت گردوں کی پاکستان آمد روکنے کیلئے سرحد پر باڑلگانے پر مجبور ہونا پڑا ،پاک فوج کے اس طرح کے اقدامات کے بعد دہشت گردوں کے حوالے سے پاکستان کی نیت پر شک کرنا اور اس سے ڈومور کامطالبہ کرنا خود کو دنیا کی سپر پاور کہلانے والے ملک امریکا کو زیب نہیں دیتی ،جہاں تک امریکی امداد کا تعلق ہے تو ہماری وزارت خارجہ کویہ واضح کردینا چاہئے کہ امریکی حکومت کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ماضی میں بھی وہ مختلف مواقع پر پاکستان کی امداد بند کرتی اور پاکستان کو فوجی سازوسامان کی ترسیل پر پابندیاں عاید کرتی رہی ہے لیکن امریکا کی ان پابندیوں سے پاکستان کی صحت پراس وقت بھی کوئی اثر نہیں پڑا جب سوویت یونین اور عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ پاکستان کے اتنے زیادہ قریبی تعلقات نہیں تھے جتنے آج ہیں ،اس لئے اگر امریکا اب بھارت کو اپنا اسلحہ بیچنے اور اسے اپنے قرضوں کے شکنجے میں کسنے کیلئے پاکستان کے ساتھ طوطا چشمی پر اترنے پر مصر ہے تو پاکستان کو بھی اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے اور پاکستان جس طرح ماضی میں امریکی امداد کے بغیر گزارا کرتا رہاہے اس سے بہتر انداز میں گزارا کرلے گا لیکن امریکاپاکستان کی بھرپور مدد کے بغیر افغانستان میں اپنے ایجنڈے کو تکمیل تک نہیں پہنچاسکے گا۔امریکی حکومت پر یہ واضح کرنے کاوقت آگیا ہے کہ ہمیں امریکا یا کسی اورکے ڈکٹیشن کی قطعاً ضرورت نہیں۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادتیں دہشت گردی کے خاتمہ کے ٹھوس اقدامات کیلئے ایک صفحے پر ہیں اور اسی بنیاد پر آپریشن میں سیکورٹی فورسز کو حوصلہ افزا کامیابیاں بھی حاصل ہورہی ہیں۔ کوئی دہشت گرد پاکستان کیلئے نیلی آنکھ والا بچہ نہیں اس لئے ریاست کیخلاف بندوق اٹھانے والا ہر دہشت گرد سیکورٹی فورسز کے آپریشن ردالفساد کے ہدف پر ہے اور یہ کارروائی پاکستان کی سلامتی تقاضوں کے تحت کی جارہی ہے۔ امریکی کانگرس کے وفد کی اس بات چیت کے بعد اب ہمیں امریکاکے ساتھ کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہیے اوریہ سمجھ لینا چاہئے کہ امریکابھارت اور افغانستان کے مقابل ہمارا کبھی خیرخواہ نہیں ہو سکتا اور اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے آئندہ کی حکمت عملی وضع کرنے پر توجہ دیں۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں