نیب کی صوبہ بدری
شیئر کریں
سندھ اسمبلی نے ایک بل کے ذریعہ نیب کو سندھ میں کرپشن کی تحقیقات اور کارروائیوں سے روک دیا ہے۔ نیب ایک وفاقی ادارہ ہے جس پر الزام ہے کہ یہ ایک آمر کا تخلیق کردہ ادارہ ہے لیکن اس ادارے کو پارلیمنٹ نے سند ِتصدیق یوں عطا کی ہے کہ جنرل محمد ضیاء الحق کے 5جولائی1977 سے 23 مارچ1985 تک اُٹھائے گئے تمام اقدامات کو آئین کی 8 ویں ترمیم کے ذریعہ تحفظ فراہم کر دیا گیا یوں نیب کو بھی تحفظ حاصل ہو گیا ہے ۔
جنرل محمد ضیاء الحق کے ابتدائی دور میں جبکہ وہ 90 دن میں انتخابات کرانے اور رخصت ہو جانے کا عندیہ دے چکے تھے، سیاستدانوں میں سے چند نے پہلے احتساب پھر انتخاب کا نعرہ لگایا اور ان میں نمایاں ترین تحریک استقلال کے سربراہ ریٹائرڈ ایئرمارشل اصغر خان تھے یوں ضیاء الحق کو ایک بہانامل گیا اور 90 دن 9 سال پر محیط ہو گئے ۔
ضیاء الحق کے اقدامات پر تنقید بھی کی جاتی ہے اور تعریف بھی نیب یا نیشنل اکاونٹیبلیٹی بیورو کا قیام ایک ایسا اقدام ہے جس پر چند حلقے تنقید کرتے ہیں تو ایک بڑی تعداد اس محکمہ کی موجودگی سے مطمئن بھی ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ادارے کی کارکردگی متاثر ہوئی ہے اور سیاسی حکومتوں کے قیام کے ساتھ ہی اس ادارے کو اس کے بنیادی مقاصد سے ہٹاتے ہوئے سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا جانے لگا جب یہ ادارہ قائم کیا گیا تھا تو یہ طے کر لیا گیا تھا کہ اس کی سربراہی سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کے حوالے کی جائے گی تاکہ احتساب قانون اور انصاف کے دائرہ میں رہتے ہوئے کیا جا سکے لیکن جب سیاسی حکومتیں قائم ہوئی تو حکمرانوں نے مخالفین کو سبق سکھانے کے لیے ماضی کے بکری چوری اور مرغی چوری کے مقدمات کے بجائے نیب کے ذریعہ یہ سلسلہ شروع کیا۔ اس ادارے کو اس وقت شدید بدنامی کا سامنا کرنا پڑا جب میاں محمد نواز شریف نے حکومت سنبھالنے کے بعد اپنے قریبی دوست سیف الرحمان کو اس ادارے کا چیئرمین مقرر کیا ۔ سیف الرحمان کے چیئرمین شپ کے دور میں بے نظیر بھٹو ،آصف زرداری سمیت میاں صاحب کے سیاسی مخالفین کا حلقہ تنگ کرتے ہوئے نیب میں پے درپے ریفرنسز دائر ہونا شروع ہوئے لیکن ان میں سے کوئی بھی ریفرنس اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچا ۔
نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے دور میں ہی نہیں جنرل پرویز مشرف اور آصف زرداری کے دور میں بھی نیب کے استعمال کا یہی سلسلہ جاری رہا ۔نیب کے موجودہ چیئرمین قمرالزمان چوہدری جو ایک ادارے کے ریٹائرڈ افسر بھی ہیں اور گزشتہ طویل عرصہ سے اس ادارے میں بے روزگاری کا سرٹیفکیٹ جمع کرا کر پنشن بھی وصول کر رہے ہیں ،یوں ان کے دامن کو صاف قرار نہیں دیا جاسکتا ۔جب یہ معاملہ سامنے آیا تھا تو موصوف کا فرمانا تھا کہ اس قسم کا حلف نامہ اس ادارے میں معمولات کا حصہ ہیں اور اس حلف نامہ کے باوجود وہ دامن صاف رکھتے ہیں اب یہ فیصلہ تو کون کرے گا کہ برخلاف حقیقت حلف نامہ دینے والے کا دامن کتنا صاف ہے ۔
نیب کے طریقہ کار اور اقدامات سے کسی کو بھی اختلاف ہو سکتا ہے کہ اختلاف رائے ہر شخص کا حق ہے لیکن آئینی ادارے کو اس طرح سے صوبہ بدر کرنا کیا اس دستور کی خلاف ورزی نہیں ہے جس کے تحفظ کا حلف ہر رکن اسمبلی نے اُٹھایا ہے۔ سندھ اسمبلی نے جو بل پاس کیا ہے وہ دستور پاکستان کے آرٹیکل 6 کی کھلی خلاف ورزی ہے اور وفاق کے ایک یونٹ کاوفاق کے اختیارات کو چیلنج کرنا ہے۔ اب آرٹیکل 6 کا اطلاق اور دستوری اداروں کا تحفظ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن جو صورتحال نظر آتی ہے وہ بہت اچھی نہیں ہے ۔صوبائی حکومت کی طرف سے اس بل کے منظور کیے جانے کے بعد یہ بل گورنر کو توثیق کے لیے بھیجا جائے گا۔ اگر گورنر نے مقررہ مدت میں بل کی توثیق نہیں کی تو آئین کے تحت یہ تصور کیا جائے گا کہ یہ بل گورنر کی رائے میں دوبارہ اسمبلی میں غور کے قابل ہے۔ اسی طرح سے اگر گورنر مقررہ مدت میں یہ بل اسمبلی کو دوبارہ غور کے لیے واپس بھیج دیتے ہیں تو اسمبلی اس بل پر دوبارہ غور کرنے کی پابند ہے لیکن اگر اسمبلی دوبارہ اس بل کو اسی ہیئت میں یا ترامیم کے ساتھ منظور کر کے دوبارہ توثیق کے لیے گورنر کے پاس بھیجتی ہے تو گورنر کے پاس اس بل کی توثیق کے سوا کوئی دوسرا راستا باقی نہیں کہ آئین انہیں پابند کرتا ہے کہ اسمبلی سے ایک ہی بل کے دوبار منظور ہونے کے بعد اس کی توثیق کرنا لازم ہے ۔
سندھ اسمبلی میں اس بل کو پیش کیے جانے کے لیے بیان کیے جانے والے اسبا ب تو ہاتھی کے وہ دانت ہیں جو صرف دکھانے کے ہوتے ہیں۔ اصل اسباب یہ ہیں کہ نیب نے سندھ میں بڑی بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالا ہے جن میں سابق صدر کے قریبی دوست ڈاکٹر عاصم جو 450 ارب کے کرپشن میں ملوث بتائے جاتے ہیں اسی طرح سے منظور کاکا ،قادر پٹیل،شرجیل انعام میمن سمیت سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کے انتہائی قریبی افراد کی ایک بڑی فہرست ہے جو نیب میں زیرتفتیش ہیں یا زیرتفتیش لائے جا سکتے ہیں جن میں انور مجیدسرفہرست ہیں۔ ان حالات میں اگر نیب کو سندھ میں کام کرنے کی اجازت دی جاتی رہی تو سابق صدر کے تمام قریبی دوست جو کرپشن کے دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں انہیں بچانا ممکن نا تھا اور جب کڑیاں ایک دوسرے سے ملنے لگتی تویہ زنجیر اوپرتک بھی پہنچ سکتی ہے۔ ان حالات میں وزیراعلیٰ کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نا بچا تھا کہ وہ بہن فریال تالپور کے دست راست ضیاء الحسن لنجار کے ذریعہ سندھ اسمبلی سے نیب کو صوبائی اداروں کے معاملے میں کارروائی اور سندھ کا شناختی کارڈ رکھنے والوں کو گرفتار کرنے سے روکنے کا بل منظور کرائیں۔ یہ بل منظور کروا کر بظاہر تو سندھ میں نیب کا کردار صرف وفاقی اداروں تک محدود کر دیا گیا ہے لیکن اس بل کا عام آدمی کو کیا فائدہ پہنچے گا یہ غورطلب ہے ۔سندھ میں نیب متاثرین کی سب سے بڑی تعداد حیسکو اور سیپکو کے صارفین کی ہے اگر ہم نیب سندھ کے پاس زیرتفتیش معاملات کے اعدادوشمار جمع کریں تو موجود کیسز میں سے 90 فیصد کا تعلق حیسکو یا سیپکو کے صارفین سے ہوگا ۔حیسکو اور سیپکو کے قواعد کے مطابق جس نادہندہ صارف کا بل ایک لاکھ روپے سے بڑھ جاتا ہے اس کا معاملہ نیب کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ اس وقت سندھ کا شاید ہی کوئی صارف ہو جس پر حیسکو یا سیپکو نے ڈیٹکشن لگا کر بل ایک لاکھ سے زائد نہ کر دیا ہو۔ یوں تقریباً حیسکو یا سیپکو کا ہر تیسرا صارف نیب کے دائرہ اختیار میں آ گیا ہے لیکن سندھ اسمبلی سے اس بل کی منظور ی کے باوجود اس سے صارف کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا کہ یہ ادارے وفاقی ادارے ہیں۔ اسی طرح سے وفاق کے دیگر اداروں میں شاید ہی کوئی ادارہ ہو جس کا عوام سے اس طرح سے واسطہ ہو ۔اب سندھ کے عوام فیصلہ کریں کہ اس بل کا فائدہ عوام کو کتنا ہے اور زرداروں کو کتنا؟
دوسری جانب وفاقی حکومت ایک وفاقی آئینی ادارے کو اس طرح صوبہ بدر کرنے پر کیا کارروائی کرتی ہے یہ بھی دیکھنے کے قابل ہو گا کیا اس معاملے کو وفاقی حکومت آئین کے مطابق طے کرتی ہے یا پاناما کے پانے میں پھنسی ہوئی گردن کا شکنجہ ڈھیلا کرانے کے لیے مفاہمت کی سیاست کے نام پر اس عمل کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیتی ہے۔ اُدھر سندھ میں اپوزیشن ہونے کی دعویدار جماعتوں کا بھی امتحان ہے کہ وہ اس معاملے پر صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرتی ہیں یا قانونی راستا اختیار کرتے ہوئے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اس بل کو چیلنج کرتی ہیں لیکن گزشتہ روز اس بل پر رائے شماری کے وقت اپوزیشن جماعتوں کا بائیکاٹ اس امر کا عکاس ہے کہ قانون کے بجائے معاملہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ تک محدود رہے گا ۔
٭٭…٭٭