میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ارد شیر کاﺅس جی اور فریال نینسی (قسط اول)

ارد شیر کاﺅس جی اور فریال نینسی (قسط اول)

منتظم
جمعرات, ۲۷ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

iqbal-dewan-copy

محمد اقبال دیوان
عبداللہ کو سب پتا تھا۔ پرانے کراچی کی ساری پرانی بلڈنگز کی تعمیر سے ملکیت تک کے تمام رموز‘ جتنے سٹی سروے کے رجسٹر میں محفوظ تھے ان کے بارے میں کہیں زیادہ تفصیلات اس کے دماغ میں محفوظ تھیں۔ان دستاویزات ملکیت میں کہیں یہ نہ لکھا ہوتا کہ کس طوائف کے عشق میں مبتلا ہوکر ملکیت کے حصے بخرے ہوئے مگر عبداللہ کچھی کو پتا تھا کہ وہ طوائف لاہور یا حیدرآباد کی ہیرا منڈی سے بلبل ہزار داستان نامی بلڈنگ کے کس کوٹھے میں کب آن کر آباد ہوئی تھی ۔ لائٹ ہاﺅس کے پرانے کپڑے کے تاجر اکبر خان مندوخیل کو کس گانٹھ میں پرانے کوٹ میں سلے سونے کے سکے ملے تو اس نے نانک واڑہ میں فلانی بلڈنگ خریدی۔
عبداللہ اس دن منھ لٹکائے ہمارے پاس آیا‘ کسی کاﺅس جی نام کے شخص پر تف بھیج رہا تھا۔ کمشنر صاحب نے اسے اسی کاﺅس جی کے سامنے بلاکر دوسروں کے سامنے بے عزت کیا تھا۔کہنے لگا کہ کمشنر صاحب نے کاﺅس جی کو بہت کہا ”جاﺅ اقبال سے بھی ملو۔ذرا صاحب آدمی ہے۔ پڑھا لکھا بھی ہے۔ ابھی ابھی ا مریکا سے آیا ہے مگر وہ کہنے لگا ،کل ملوں گا۔“ ہم نے دریافت کیا کہ ” آج کیوں نہیں آیا؟“ تو عبداللہ کچھی کہنے لگا کہ” آج چڈی ،ٹی شرٹ اور چپل پہنی تھی۔آپ کا صاحب ہونے کا سنا تو دم دبا کر چلا گیا۔ہماری کمشنر صاحب کے دفتر کی سیڑھیوں پر گجراتی میں گالم گلوچ بھی ہوئی تھی۔“
اس جملے کو ہم نے اپنے صاحبانہ طمطراق سے زیادہ عبداللہ کی خوشامد سے منسوب کیا۔احتیاطاً ہم نے پوچھا کہ” کاﺅ س جی کی کیا کمشنر سے بہت دوستی ہے؟“ اور پیپلز پارٹی کا جانثار لیار ی کا عبداللہ کچھی کہنے لگا ©©”سالے دونوں ہمارے بھٹو صاحب سے نفرت کرتے ہیں۔ایک کی شپنگ لائن بھٹو نے نیشنلائز کرلی تھی تو دوسرے کو مارشل لاءریگولیشن میں نوکری سے فارغ کیا تھا۔آج کل ضیا الحق کا ٹائم لگے لا ہے تو سالے دونوں ٹھیکڑے (گجراتی ، میمنی میں اچھل کود کرنا) مارتے ہیں ۔“
فریال نینسی سامنے صوفے پر بیٹھی ٹائم میگزین کا تازہ شمارہ دیکھ رہی تھی۔ گلے میں پرانی یاد کے طور پر ویاکن مذہب کا پانچ کونے والا ستارہ لاکٹ جھول رہا تھا ۔ اس کی وجہ سے عبداللہ کچھی کی شام غریباں بہت مختصر رہی ۔البتہ کمرے سے باہر نکلتے ہوئے اس نے ایک بہت زور دار سانس اندر کی طرف کھینچی، ہماری طرف استفہامیہ نگاہوں سے دیکھا اور چل پڑا۔
فریال امریکاجانے سے پہلے ہماری پڑوسی تھی۔ہم وہاں گئے ،کچھ دن بعد وہ بھی چلی آئی۔وہ بوسٹن میں پڑھتی تھی، ہم پین سیلوانیامیں تھے۔بعد میں کسی لڑکے کے چکر میں وہ کیلیفورنیا چلی گئی اور وہاں اس کی وجہ سے یہ اور دوسری دو پاکستانی لڑکیاں اس کی چیلی بن کر Wiccan مذہب کی رکن بن گئیں۔یہ چاند سورج، جنسی آزادی، فطرت کی پوجا کا مذہب تھا۔ماں باپ اسے بمشکل وہاں سے واپس کھینچ کر لے آئے ۔ ماہر نفسیات نے معالجے میں اس کی نرم نگرانی اور خود معالجہ تجویز کیا تھا۔ اب وہ انگریزی کی اصطلاح میں رکیو پریٹ (recuperate )کررہی تھی یعنی مائل بہ صحت تھی۔دس بجتے تو وہ گاڑی منگواکر ہمارے پاس آجاتی۔ اکثر دوپہر ہمیں کسی نہ کسی کلب کھانے پر لے جاتی۔والدین کو یہ تسلی تھی کہ وہ ہمارے دفتر میں بیٹھ کر کچھ نہ کچھ سیکھے گئی۔ ممکن ہے افسرانہ ٹھاٹھ دیکھ کر سی ایس ایس کرلے ۔(جو اپنی ساخت اور ترکیب میں اور اقتدار کے سامنے بغرض پوجا پاٹ ننگا ناچنے کے معاملے میں کسی Wiccan مذہب سے کم نہیں۔) یوں اس کا سابقہ وابستگیوں سے دوری کا احساس بے گانگی کا گھاﺅ بھی مندمل ہوجائے گا۔
عبداللہ نے بہت بعد میں جب ہماراوہاں سے تبادلہ ہوگیا تو ہمیں بتایا کہ اس لڑکی(فریال) کو ہمارا ڈرائیور ماما سلیم لیاری والا چرس لاکر دیتا تھا۔ وہ افسر بننے نہیں، چرس لینے اور ایک گونہ بے خودی کے لیے دفتر آتی تھی۔ عبداللہ نے جب بابو اقبال ڈکیت نامی گینگ لیڈر جو اس کی بہت عزت کرتا تھا،اُس سے سلیم ماما کو اٹھواکر میوہ شاہ قبرستان میں ایک قبر میں لٹکا کر مار لگوائی تو حقیقت کھل گئی کہ وہ پچاس روپے فی سگریٹ کے حساب سے فریال کو چرس لا کر دیتا تھا جو وہ دفترآتے جاتے پھونکا کرتی تھی۔ہمیں حیرت ہوتی تھی کہ گاڑی ڈرائیور تو اس کے اپنے ہاں بھی موجود ہے۔ اسے ہماری سرکاری کار منگانے پر کیوں اصرار ہوتا تھا مگر یہ سوچ کہ سرکار کا مال سب کو حلال ہے وہ بھی اپنا حصہ بٹورتی تھی۔
عبداللہ کا گہرا سانس لینا اسی وجہ سے تھا۔
اگلے دن فریال بیٹھی تھی کہ کھلے دروازے سے اردشیر کاﺅس جی داخل ہوئے ۔ وہ حسب عادت کچھ Stoned(منشیات کے نشے کی کیفیت) تھی۔گھر سے فیمینا انڈیا لائی تھی ۔ اس کی ورق گردانی کر رہی تھی۔ ہم امریکا سے اوریانا فلاسی کا ایک سوانحی رپورتاژ Letter to a child never born پڑھ رہے تھے۔دنیا کے بڑے بڑے رہنماﺅں سے مرعوب نہ ہونے والی اوریانا کا کہنا تھا کہ ساری زندگی میں اسے یونان کے حزب اختلاف کے لیڈر الیکژنڈر پیناگولس جیسا کوئی اور دلیر اور اصول پرست مرد نہ مل سکا ۔ انٹرویو کے دوران رومانس چل پڑا ، تعلقات بڑھے اور وہ حاملہ ہوگئی، یونانی فوجی جنتا نے جب الیکژنڈر پیناگولس کو ہلاک کردیا تو صدمے سے اوریانا کا حمل ساقط ہوگیا۔یہ کتاب اسی صدمے سے دوچار ہوکر لکھی گئی۔
ارد شیر کاﺅس جی نے سر پر مافیا کے چیف ال کپون والا فیڈورا ہیٹ لگایا تھا۔ہاتھ میں سونے کے دستے والی چھڑی، پیروں میں جان لاب کے ہاتھ کے بنے ہوئے قیمتی جوتے، ناک پر پھسلتی ہوئی سونے کی عینک،اوروہی سوٹ جو آپ تصویر میں دیکھتے ہیں پہنا تھا۔ البتہ نیلے رنگ کا رومال اور ٹائی Hermes کے تھے۔ کوٹ کی اندرونی جیب میں زنجیر سے اڑسی ایک جیبی گھڑی۔اندر داخل ہوتے ہوئے رعونت کا کوئی شائبہ نہ تھا، ہچکچاہٹ ضرور تھی مگر وہ مطالعے کی ایک فضا کی وجہ سے ،اردشیر کاﺅس جی نے بھی کمرے میں داخل ہوتے وقت وہی حرکت کی تھی جو گزشتہ روز عبداللہ کچھی نے کمرے سے جاتے وقت کی تھی ۔ یعنی زور کا سانس کھینچنا۔
عورتیں چونکہ Body Language )بدنی زبان ( کو سمجھنے کی ماہر ہوتی ہیں، لہذا انہیں دم گٹکو کرتا دیکھ کرفریال ہڑبڑا کر کھڑی ہوگئی، دونوں نے نظر بھر کر ایک دوسرے کو دیکھا۔کاﺅس جی کی دید بانی میں اک نگاہ میں انسانوں کو تول کر علیحدہ کرنے والی برق رفتاری تھی تو فریال کی آنکھوں میں گو لُٹی محفلوں کی دھوم ضرور تھی مگر وہ کسی طرح سے عبرت سرائے دہر نہ لگتی تھیں۔اورفریال یہ کہتے نکلی
Call me when your are done. I am home.Taking Salim along. ۔ کاﺅس جی نے کہا بھی کہ بی بی بیٹھو I am not that bad مگر فریال "Some other time”کہہ کر سٹک گئی۔
Which one was your real nana? یہ پہلا سوال تھا جو انہوں نے ہم سے پوچھا ۔اس میں انہوں نے حبیب پٹیل، امیر جی پٹیل اور محمد پٹیل کا نام شامل کرلیا۔ہم نے حبیب پٹیل کا نام لیا تو کہنے لگے کہ وہ تو ولی تھے۔So rich , so saintlyباقی دو کی ان کے والد اور دادا سے کاروباری واسطے داری تھی۔
ہم نے پوچھا کہ وہ کل کیوں نہیں آئے تو کہنے لگے کہ ام (ہم )عبداللہ چریا (گجراتی میں پاگل) کو بولا تھا کہ” آج اس کی سات پیڑھی کا کھاتہ دیکھ لوں۔“اب سوال کرنے کی باری ہماری تھی اور ظاہر ہے پہلا سوال ان کی آمد پر گہرے سانس لینے سے متعلق تھا۔
وہ جواب میں کہنے لگے ۔ چرس ،Poison۔ ہمارے پوچھنے پر کہنے لگے کہ ان کی بیگم گھر میں یہ خوشبو لگاتی ہیں ،باہر جاتی ہیں تو پلوما پکاسو کا پرفیوم۔ وہ کہنے لگے میرے کتے ڈیوک اور اپنی بیوی کی پسندیدہ خوشبو کو میں میلوں دور سے سونگھ لیتا ہوں۔ لڑکی نے سوٹا لگایا تھا مگر پرفیوم Poison تھا
گجراتی میں ہم سے پوچھنے لگے ©©”چھوکری کون چھے؟“ (یہ لڑکی کون ہے) ہم نے بات ٹالنے کو کہا کہ فقیر اور سنتوں لوگ کے تکیے پر کون آتا ہے، کون جاتا ہے۔وہ کسی کی سات پیڑھیاں نہیں کھنگالتے۔یہ ہمارا طنز تھا مگر وہ اس کی کاٹ کو نظر انداز کرکے کہنے لگے۔Seems to be girl interrupted
( بکھری ہوئی لڑکی لگتی ہے ) ہم نے موضوع لپیٹتے ہوئے کہا Yes.Recuperating from old wounds ۔اردشیر نے ( ان کو ہم اسی نام سے پکارتے تھے) پھر فریال نینسی پر ساری عمر کوئی سوال نہیں کیا۔
انہیں ہمارے دفتر کا ماحول اچھا لگا۔ ہم اور ہماری مہمان مصروف مطالعہ تھے۔دروازہ آنے جانے والوں کے لیے کھلا تھا۔دفتر کے باہر دربان نہ تھا۔میز فائلوں سے خالی تھی۔کافی بھی جلد اور گرما گرم آئی۔ہم نے کہا ہمارے منجھلے نانا امیر جی پٹیل کاروبار میں نہیں تھے وہ ونتھلی کے پٹیل تھے،جاگیردار۔ تب کاﺅس جی نے بتایا کہ ان کی سردار ولبھ بھائی پٹیل اور ابوالکلام آزاد اور مرارجی ڈیسائی سے بہت دوستی تھی۔ یہ بات انہیں رستم فقیر جی کاﺅس جی نے بتائی تھی جو ان کے والد تھے۔
کاﺅس جی نے اٹھتے اٹھتے ہمیں دوست بنانے کی پیشکش کی مگر ہم نے جب جتایا کہ” یہ دوستی کسی طرح ان کے کیس پر اثرانداز نہیں ہونی چاہیے“۔ وہ کہنے لگے کہ ”ہم قانون سامنے رکھ کر جو فیصلہ مناسب سمجھتے ہیں، بلا تاخیر سنادیں۔ ہمارے پرانے پیش رو ان سے خوف زدہ ہوکر اور رشوت کی رقم نہ ملنے کے امکانات کی وجہ سے اس کیس کو پچھلے پانچ برسوں سے لٹکا کر رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف چونکہ ایک بہت طاقتور سرکاری ادارہ فریق ہے اس لیے وہاں سے بھی رقم توڑنے کا کوئی آسرا نہیں ۔اسی لیے اب تک اتنی تاخیر ہوئی ہے۔دوسری طرف واقعی بہت طاقتور ادارہ تھا جو ان کی جائداد محض اس لیے کہ وہ پاکستان بننے سے پہلے سے ان کا اس عمارت کا کرایہ دار تھا اب اس قیمتی عمارت کو THE LAND ACQUISITION ACT, 1894 کے تحت بحق سرکار خریدنے کا متمنی تھا۔ ارد شیر کاﺅس جی کو اس عمارت کو بیچنے پر کوئی اعتراض نہ تھا مگر ادارہ انہیں مارکیٹ ریٹ کا کل بیس سے پچیس فیصد ادا کرنے پر مصر تھا جب کہ وہ اسی قانون کے تحت بتائے ہوئے اصول Gold for Goldکے تحت فیصلہ کے متمنی تھے۔ہم نے اعتراض کیا کہ ادارہ عوامی مفاد میں کام کررہا ہے ۔اس کا اس عمارت کو لینے میں کوئی تجارتی مقصد نہیں لہذا مارکیٹ پرائس کو تو وہ بھول جائیں ۔ وہ سرکار کو اس حد تک رعایت دینے پر رضامند ہوگئے کہ ایک میل کے قطر (Radius) میںدو ہزار گز سے اوپر کی آخری تین عمارتوں کی رجسٹرڈ ویلیو کی اوسط قیمت دے دیں،نہ زیادہ نہ کم۔ان کی عمارت تو دس ہزار گز کی ہے اور علاقہ بھی کراچی کا سب سے قیمتی علاقہ ہے۔بات مناسب تھی ۔ہم نے ان سے کہا وہ ہمیں یہ شرط لکھ کر دے دیں۔ ہم ادارے کو یہ پیشکش رائے زنی کے لیے بھیج دیں گے وہ کہنے لگے کہ اس سے ان کے عدالت میں اپیل میں جانے کے امکانات ختم ہوجائیں گے۔چلتے وقت کہنے لگے کہ ادارہ کسی صورت اپنی بتائی ہوئی قیمت سے زیادہ ادا کرنے پر رضامند نہیں۔ اس میں کچھ ناگفتہ بہ نکات ہیں۔ہم اگر ان کی بتائی ہوئی قیمت سے ایک روپیہ بھی زیادہ کا ایوارڈ آف کمپنسیشن دیں گے تو وہ ہمیں یہاں سے ہٹا دیں گے۔ہم نے انہیں اس حوالے سے اپنی بے اعتنائی کا ذکر اپنی والدہ کے سکھائے ہوئے گجراتی محاورے میں کیا کہ درزی نوُں ڈیکرو چھے ۔ جیار سدی جیوا نوں۔ تیار سُدی۔ سیوا نوں( درزی کا بیٹا ہے، جب تک جیے گا، تب تک سیئے گا)۔ وہ زور سے ہنسے اور کہنے لگے I will pick you for dinner at 7.30 sharp from your place.ہمیں لگا کہ چوبیس گھنٹوں میں انہوں نے ہمارے بارے میں بہت کچھ جان لیا تھا۔ (جاری ہے)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں