دہشت گردی اور بحر ہند کا تھیٹر
شیئر کریں
ندیم الرشید
8 اپریل 1949 کو پاکستانی اخبارات میں صوبہ سرحد کے سابق گورنر ”سر اولف کیر (Olaf Caroe) کی ایک تقریر شائع ہوئی جو اُس نے ایک دو روز پہلے لندن میں کی تھی اس تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ ”ہندوستان کے تحفظ کا انحصار خوفناک حد تک پاکستان کے استحکام پر ہے، اب پاکستان کے لیے اس کے سوا کوئی چارا نہیں کہ وہ ان سارے دفاعی مسائل کی پہلی ضرب برداشت کرے جو پرانے ہندوستان کو شمال مغربی علاقے میں درپیش ہوا کرتے تھے، اب پاکستان کے لیے لازمی ہے کہ تن تنہا یا دوسروں کے ساتھ مل کر بحر ہند کے تھیٹر کے دونوں دروازوں کی چوکیداری کرے، پہلا دروازہ ایران اور خلیج فارس کی طرف کھلتا ہے اور اس میں بحری اور بری داخلہ کراچی اور کوئٹہ کے ذریعے ہوتا ہے، جبکہ دوسرا دروازہ پشاور اور کابل کی جانب کھلتا ہے اگر پٹھانوں کو ہوشیاری کے ساتھ گمراہ کیا جائے تو وہ پاکستان اور اُس کے عقبی علاقوں کو بہت نقصان پہنچاسکتے ہیں۔
خلیج فارس کی حیثیت سارے ایشیا اور ساری مسلم ورلڈ کے اسٹرٹیجک سینٹر کی ہے، شمال مغرب میں خلیج فارس اور بین المملکتی سرحد خطرات کے مقام ہیں اور مشرق میں برما اور ملایا خطرے میں ہیں، خطرے کے یہ مقامات اس علاقے کے گرد و نواح میں ہیں، اگر طاقت کا علاقہ خود مضبوط ہو تو علاقائی گروپنگ کے ذریعے گرد و نواح کو قابو میں رکھا جاسکتا ہے، اس گروپنگ کا مرکز دہلی میں ہوسکتا ہے جیسا کہ برطانوی عہد میں ہوا کرتا تھا، چونکہ اس علاقے میں اوقیانوس طاقتوں کے مفادات بہت زیادہ ہیں اس لیے ان کا فرض ہے کہ وہ اس قسم کی گروپنگ کو موثر بنانے کے لیے اس کی پشت پناہی کریں۔ (Dawn, April 8, 1949)
پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کی ذمہ داری خواہ کوئی بھی قبول کرے، لیکن شواہد، قرائن اور میجر جنرل شیر افگن کی گفتگو سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ کوئٹہ میں دہشت گردی کی یہ کارروائی آپریشن ضرب عضب کے اثرات کو ختم کرنے کی ایک سازش ہے۔ امریکی و برطانوی ارباب اقتدار اور فوجی زعماءکی طرف سے قبائلی علاقوں میں آپریشن ضرب عضب جاری رکھنے پر زور دیا جارہا تھا، کیونکہ آپریشن روک دینے کا مطلب امن ہے اور بحر ہند کے تھیٹر کے دونوں داخلی دروازوں پر امن کا مطلب یہ ہے کہ اوقیانوس طاقتوں کے پاس پٹھانوں کو گمراہ کرنے کے لیے اب کوئی موقع نہیں رہا اور پٹھانوں کے گمراہ نہ ہونے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اب پاکستان کا عقب محفوظ ہے، اور جب تک پاکستان کا عقب محفوظ ہے ،دہلی کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ خود کو خطے میں طاقت کے مرکز کے طور پر منواسکے، کیونکہ خود کو طاقت کا مرکز منوانے کے لیے دہلی کو پہلے پاکستان کو نیچا دکھانا ہوگا اور جب بھی دہلی ایسی کوئی کوشش کرے گا، اسلام آباد سے پہلے بحر ہند کے دربان اُسے سبق سکھانے کے لیے میدان میں آجائیں گے۔
لہٰذا اوقیانوس طاقتوں اور بھارت کے مفادات کے لیے ضروری ہے کہ پشاور ہو یا کوئٹہ اور کراچی بحر ہند کے دونوں دروازوں پر شور شوں اور سازشوں کا سلسلہ جاری رہے تاکہ بحر ہند کے دربانوں کو ہوشیاری کے ساتھ گمراہ کرنے کا موقع برابر ملتا رہے ، سانحہ پشاور ہو یا سانحہ کوئٹہ یا پھر کراچی کے حالات، ان مسائل کا کوئی بھی حل تجویز کیا جائے لیکن خیال رہے کہ ہمارے ہتھیار دشمن کے ہاتھ نہیں لگنے چاہئیں، ہمیں ایسی پالیسیاں بنانی چاہئیں جو بحرہند کے دونوں دروازوں پر موجود دربانوں کو اوقیانوس طاقتوں کی طرف سے پھیلائی جانے والی گمراہی سے بچاسکیں، وگرنہ پاکستان میں دہشت گردی کا سلسلہ جاری رہے گا اور دہلی طاقت کا مرکز بنتا چلا جائے گا۔