ریمنڈ ایلن ڈیوس
شیئر کریں
اُس روز خاصا رش تھا، پر فضا پہاڑی مقام پرسیاحوں کے جھنڈ کے جھنڈ امڈے چلے آتے تھے، گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی تھیں، ڈرائیورز پارکنگ کی جگہ کے متلاشی تھے، نئے ماڈل کی خوبصورت کار کے اس پختہ عمر ڈرائیور کی نظر یکایک ایک خالی جگہ پر جا ٹہری، اس نے ریس دبائی اور قریب جا پہنچا لیکن یہ کیا۔ وہاں ایک ادھیڑ عمر شخص پہلے ہی اپنی گاڑی پارک کرچکا تھا۔ 38 سالہ اکھڑ مزاج جوان ڈرائیور جھنجھلا گیا۔ شاید اسے آج ہی اس ہندوستانی کہاوت کا صحیح مطلب سمجھ آیا تھا۔ ’’سائودھانی ہٹی دُرگھٹنا گھٹی۔‘‘ اس نے شیشہ اتارا اور چیخ کر ادھیڑ عمر شخص کو مخاطب کیا۔ ’’یہاں مجھے گاڑی پارک کرنا تھی۔‘‘ ادھیڑ عمر شخص جو تب تک گاڑی سے اُ تر چکا تھا اس نے ایک ادائے دلبرانہ سے کندھے اُچکائے گویا کہہ رہا ہو ’’پہلے آئیے پہلے پائیے۔‘‘ نوجوان کا پارہ آسمان پر جا پہنچا،اس نے آئو دیکھا نہ تائو اور پوری طاقت سے ریس پر پائوں رکھ دیا، گاڑی نے ادھیڑ عمر شخص کو زوردار ٹکر ماری۔ وہ اڑ کر ہوا میں قلابازیاں کھاتا فٹ پاتھ پر اوندھے منہ جاگرا۔ اس کے اہل خانہ روتے چلاتے اس کی مدد کو دوڑے، جوان ڈرائیور نے گاڑی پیچھے کی اور یہ جا وہ جا۔
آپ کو معلوم ہے یہ ’’عظیم‘‘ جوان ڈرائیور کون تھا؟
یہ تھا ’’دی ون اینڈ اونلی‘‘ ریمنڈ ایلن ڈیوس۔
جی ہاں وہی ریمنڈ ڈیوس جس نے دو پاکستانیوں کو اپنے غیر قانونی ہتھیار سے دن دیہاڑے لاہور کی سڑک پر بے دردی سے قتل کیا اور ہماری حکومت نے اس کی دیت ادا کرکے اسے نہایت ’’عقیدت و احترام‘‘کے ساتھ اس کے ملک واپس روانہ کردیا۔
آج کل اسی ریمنڈ ڈیوس کی کتاب کا خوب شہرہ ہے۔ یہ واقعہ یکم اکتوبر 2011 ء کو امریکی ریاست ’’کولوراڈو‘‘ میں پیش آیا یعنی پاکستان سے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے قریب سات ماہ بعد۔ متاثرہ جیف مائس(Jeff Maes) معمولی زخمی ہوا، پولیس کے ڈپٹی شیروف نے ریمنڈ ڈیوس کو جائے وقوعہ کے قریب ہی حراست میں لے لیا۔ اس پر مقدمہ چلا۔ دورانِ سماعت معلوم ہوا کہ حملے میں جیف کی ریڑھ کی ہڈی کا ایک مہرہ متاثر ہوا تھا۔ پولیس نے ابتدائی طور پر مقدمے میں معمولی زخم کی دفعات شامل کی تھیں اور ملزم کو عدالت نے اگلے روز 1750 ڈالرز کے ضمانتی مچلکوں پر رہا کردیا تھا۔ تاہم ریڑھ کی ہڈی متاثر ہونے کے حوالے سے طبی دستاویزات عدالت کے روبرو پیش کی گئی تو اس کے ضمانتی مچلکے کی مالیت بڑھا کر دس ہزار ڈالرز کردی گئی اور اس کے خلاف مقدمے میں ارادہ قتل کی دفعہ بڑھا دی گئی۔ بعدازاں ریمنڈ ڈیوس نے متاثرہ شخص اور عدالت سے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے غیر مشروط معافی طلب کی اور آئندہ ایسا کوئی واقعہ نہ ہونے کی یقین دہانی کروائی۔ اس کے باوجود عدالت نے اسے دو سال کی تنبیہی سزا سنائی۔ کیسی عدالت تھی۔ اس پر رشک آتا ہے۔ اسے اس سے کوئی غرض ہی نہیں تھی کہ ملزم امریکی فوج کا سابق عہدیدار اور دنیا کی طاقتور ترین خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا کنٹریکٹر ہے، ہوتا رہے۔
اب ذرا اُسی آدمی پر پاکستان میں ہونے والے مقدمے کے حالات پر غور کیجیے۔ یہ بات زبان زدعام ہے کہ جس روز دُہرے قتل کے مقدمے سے لاہور کے ایڈیشنل سیشن جج نے ریمنڈ ڈیوس کو صلح نامہ قبول کرکے رہا کرنے کے احکامات جاری کیے، اُس روز علی الصبح سے ہی ریمنڈ ڈیوس کو افغانستان پہنچانے کے لیے خصوصی طیارہ اڑان بھرنے کے لیے تیار کھڑا تھا گویا سب کو پتہ تھا کہ عدالت کیا فیصلہ دینے والی ہے۔
حال ہی میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’’دی کنٹریکٹر ‘‘میں ریمنڈ ڈیوس نے جو کچھ لکھا ہے وہ ایسا ’’انکشافاتی‘‘ بھی نہیں، پاکستانی قوم یہ سارا سچ پہلے سے ہی جانتی تھی۔ صدر مملکت آصف زرداری سے اپوزیشن لیڈر میاں محمد نواز شریف تک، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف تک، امریکا میں متعین پاکستانی سفیر سے پاکستانی وزیر داخلہ رحمن ملک تک اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل کیانی سے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل پاشا تک سب ہی ریمنڈ ڈیوس کو آزاد کرانے کے جتن میں مصروف رہے۔ اس کام میں 27جنوری سے 16مارچ 2011ء تک کے 49روز لگنے کی واحد وجہ یہ تھی کہ ابتداء میں آئی ایس آئی ریمنڈ ڈیوس پر تگڑا مقدمہ ٹھونکنا چاہتی تھی مگر جب جان کیری سے بات آگے بڑھ کر ہیلری کلنٹن تک اور پھر خود امریکی صدر بارک اوباما تک جاپہنچی تو ہمارے زعماء نے ہاتھ اٹھالیے، پھر بحث شروع ہوئی کہ ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استثنیٰ دیا جائے مگر وہ سفارتکار نہ تھا لہٰذا حکام نے امریکا بہادر کو بمشکل سمجھایا کہ اس کی رہائی کا طریقہ دیت کی ادائی میں پنہاں ہے ۔بالآخر بارک اوباما نے کہا جو کرنا ہے کرو، پیسے بھرنے ہیں تو خود بھرو بس ہمارا بندہ فوراً چھوڑو۔ آئی ایس آئی حکام نے اہل خانہ پر دبائو ڈالنا شروع کیا، بعض اطلاعات کے مطابق ان دونوں مقتولین کے اہل خانہ میں سے ایک ایک محبوب شخصیت کو باقاعدہ اغوا کرکے حبس بے جا میں رکھا گیا۔ اسی دبائو کے باعث ایک مقتول کی بیوہ نے صلح کرنے پر جان دینے کو ترجیح دیتے ہوئے زہر کھا کر خودکشی کرلی۔
ریمنڈ ڈیوس نے اپنی کتاب میں لکھا کہ دیت کی رقم 2.4 ملین ڈالرز تھی۔ جو کچھ ریمنڈ ڈیوس نے اپنی کتاب میں نہیں لکھا، وہ اصل کہانی ہے اور وہ یہ ہے کہ دیت کی رقم شاید ورثاء کو پوری مل بھی نہ سکی۔ ریمنڈ ڈیوس سے آئی ایس آئی اس دُہرے قتل سے بہت پہلے ہی سے بخوبی واقف تھی۔ وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کے علاوہ اسلام آباد اور پشاور کے درمیان متعدد مرتبہ سفر کرچکا تھا،آئی ایس آئی حکام اسے جی پی ایس سسٹم سے ٹریک کررہے تھے، اس کی سرگرمیاں مشکوک تھیں، وہ دو مقتولین جنہیں ریمنڈ ڈیوس نے قتل کیا وہ درحقیقت اس کا پیچھا کررہے تھے، بعض غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے ایسی خبریں شائع کیں کہ وہ دونوں خود آئی ایس آئی کے کارندے تھے اور ریمنڈ اُنہیں پہچانتا تھا۔ ریمنڈ ڈیوس نے ابتدائی بیان میں دونوں مقتولین کوڈکیت قرار دیا اور کہا تھا کہ وہ اسے لوٹنے کی کوشش کررہے تھے اُس نے انہیں ’’سیلف ڈیفنس‘‘ میں قتل کیا۔ لاہور پولیس کے اس وقت کے سربراہ اسلم ترین نے ایک پریس کانفرنس میں اس موقف کو دوٹوک اندازسے مسترد کردیا تھا ظاہر ہے اُنہیں ’’اوپر‘‘ سے حکم تھا۔ ریمنڈ ڈیوس نے یہ بھی نہیں لکھا کہ اس نے وقوعے کے فوری بعد اپنے ’’سیٹ اپ‘‘ میں کال کی تو جو گاڑی اسے بچانے کے لیے آئی اس نے تیز رفتاری میں ایک شہری عبادالرحمن کو بھی قتل کردیا تھا۔ اس غریب کا تو کوئی اب نام لیوا بھی نہیں۔ ریمنڈ ڈیوس کو یہ بھی لکھنا چاہیے تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اس بے موت مارے جانے والے شہری عبادالرحمن کے گھر تشریف لے گئے تھے اور شہادت کی انگلی نچا نچا کر ارشاد فرمایا تھا کہ ’’عبادالرحمن پاکستان کا فرزند تھا، مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچائیں گے۔‘‘ اس نے لکھا ہے کہ میری رہائی کے لیے صدر آصف زرداری اور نواز شریف ایک ہی پیج پر تھے، درست ہے یہ دونوں آج تک اسی پیج پر ہیں اور پاکستانی عوام وہ پیج ڈھونڈ رہے ہیں۔
اس کتاب کی اشاعت کے بعد زیادہ ملبہ نواز شریف پر پڑتا نظر آرہا ہے ‘ کتاب کے مطابق امریکی سینیٹر جان کیری سے ملاقات کے بعد میاں نواز شریف ذمہ داری لینے سے بچنے کے لیے علاج کے بہانے لندن روانہ ہوگئے تھے اور چھوٹے میاں صاحب بھی ان کی تیمارداری کے نام پر پیچھے پیچھے چل پڑے۔ پس منظر کی کہانی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آئی ایس آئی کو ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا ٹاسک اس وقت کے صدر آصف زرداری نے دیا تھا‘ ایوان صدر میں منعقدہ ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں آصف زرداری نے جنرل کیانی سے کہا کہ وہ جنرل شجاع پاشا کے ذمے یہ کام لگائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک جاسوس کی قیمت پر امریکہ کے ساتھ تعلقات ختم نہیں کرسکتے اس اجلاس کے بعد جنرل پاشا ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لیے کمر بند ہوئے۔
مجھے رکشہ ڈرائیور جہانگیر پر ترس آتا ہے جس نے اپنے رکشے کے پیچھے لکھ رکھاہے۔ ’’اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘‘ اسے لکھنا چاہیے تھا۔ ’’امریکا کی غلامی میں ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں۔‘‘ خواجہ سعد رفیق ٹھیک فرماتے ہیں بھکاریوں کے پاس انتخاب کی گنجائش نہیں ہوا کرتی۔ اُنہیں ریمنڈ جیسے ملک دشمن کردار بھی عزت کے ساتھ گھر تک چھوڑنے جانا پڑتا ہے۔ مگر ان کو اللہ کا واسطہ ہے ایک بار سچائی سے اپنے وزیر اعظم سے یہ بھی پوچھیں کہ 4 سال میں یہ 7 ہزار ارب قرضوں کے بدلے اور کتنے ریمنڈز چھوڑنے پڑیں گے۔
ریمنڈ ڈیوس کی کتاب کے مندرجات نے میری مایوسی میں اضافہ کیا گو کہ کچھ نیا نہیں تھا لیکن حق یہ ہے کہ پوری کہانی میں ایک جملے سے میں بے حد لطف اندوز ہوا،دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ خوشی مفت میں حاصل ہوئی ‘ اس کے لیے 17ڈالرز بھی خرچ نہیں کرنا پڑے کیونکہ ایک مہربان نے کتاب پی ڈی ایف فارمیٹ میں واٹس ایپ پر بھیج دی تھی۔
’’جب تک جہاز پاکستانی حدود میں تھا مجھے اور امریکی سفیر کو پریشانی لاحق تھی، ہمیں خدشہ تھا کہ کہیں دوبارہ روک نہ لیا جائے، جو نہی جہاز پاکستانی حدود سے باہر نکلا ہم نے سکھ کا سانس لیا۔‘‘
اب پاکستان ’’کولوراڈو‘‘ تو ہے نہیں، چلو اتنا ہی بہت ہے۔
٭٭…٭٭