سعودی قطر تنازع۔۔۔مسلمانوں کے خلاف ایک بڑی عالمی سازش
شیئر کریں
سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے اجلاس میںخلیجی تنازع کے دوران اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے گزشتہ روز یہ واضح کیاہے کہ ‘جنرل راحیل شریف ذاتی حیثیت میں اسلامی اتحاد فورس کی سربراہی میں گئے ہیں اور انہیں سرکاری طور پر نہیں بجھوایا گیا’۔اجلاس کے دوران سینیٹ کی کمیٹی نے حکومت سے سعودی عرب اور قطر کشیدگی کے معاملے پر غیر جانبدارانہ مصالحتی کردار ادا کرنے کی سفارش کی۔مشیرخارجہ سرتاج عزیز نے مشرق وسطیٰ بالخصوص سعودی عرب-قطر تنازع پر بات کرتے ہوئے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ ‘پاکستان، قطر-سعودی تنازع میں غیرجانبدارانہ پالیسی پر کاربند ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘یمن-سعودی عرب تنازع پر منظور ہونے والی پارلیمانی قرارداد، موجودہ خلیجی بحران میں پاکستان کی پالیسی کا بنیادی نکتہ ہے’۔ اس حوالے سے پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر کریم خواجہ کا یہ کہنا اپنی جگہ بالکل درست تھا کہ ‘راحیل شریف کو رضاکارانہ طور پر واپس آجانا چاہیے، سعودی عرب اگر اس طرح بھرتیاں کرے گا تو ایران بھی ایسا کرنے میں حق بجانب ہوگا’۔اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر شبلی فراز کے اس خیال سے اختلاف نہیں کیاجاسکتا کہ اس مرحلے پر راحیل شریف کو واپس بلانے سے پاک -سعودی تعلقات خراب ہوں گے، پاکستان کا 50 فیصد زرمبادلہ خلیجی ممالک سے آتا ہے اور پاکستان اتنے بڑے نقصان کا متحمل نہیں ہوسکتا۔تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ قانون سازوں کے خدشات پر سرتاج عزیز نے کمیٹی کو یقین دہانی کرائی ہے کہ پاکستان کسی دوسرے ملک کے مسئلے میں مداخلت نہیں کرے گا۔
جہاں تک قطر اور سعودی عرب کے تعلقات کاسوال ہے تو ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ آخر قطر کی کس کارروائی سے سعودی حکومت کو اس قدر شدید اختلاف پیدا ہوا کہ انھوں نے اپنے ایک دیرینہ ساتھی ، بلکہ اتحادی مملکت کے خلاف اچانک اتنا بڑا قدم اٹھانے کا فیصلہ کیااور قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرتے ہوئے قطر کے ساتھ زمینی اور فضائی رابطے بھی ختم کر دیے۔ بظاہر قطر پر دہشت گردی اور انتہاپسندی کو فروغ دینے کا الزام لگایا گیا تھا۔سعودی پریس ایجنسی نے قطر کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ سعودی عرب اپنی قومی سلامتی کو لاحق دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خطرے کے پیش نظر یہ اقدامات اٹھا رہا ہے۔جبکہ قطر نے جواب میں اس بات کا اشارہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ جن عرب ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کیے ہیں ان کے خدشات دور کرنے پر وہ رضامند ہے۔
خلیج ممالک میں پیدا ہونے والا بحران چار دہائیوں سے قائم خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے لیے سنگین ترین بحران ہے۔اگرچہ دیگر اسلامی ممالک کی جانب سے اس معاملے کو سفارتی طریقے سے حل کرنے کی کوششیں ناکام رہی ہیںاور اپنی کوششوں کیپہلے مرحلے میں ناکام ہونے کے باوجود ان سفارتی کوششوں کی سربراہی کرنے والے کویتی امیر شیخ صباح الاحمد الاجابر الصباح نے قطر معاملے کو حل کرنے کے لیے اپنی کوششوں کو جاری رکھنے کا اعادہ کیا ہے اورسعودی عرب اور قطر کے ساتھ بہترین سفارتی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف بھی قطر معاملے کے حل کے لیے کوشاں ہیں۔ لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آرہی۔
حرمین شریفین یعنی مکہ اور مدینہ کی وجہ سے سعودی عرب کو عالم اسلام میں خصوصی مرکزی حیثیت ہے سعودی عرب دنیا بھر کے مسلمانوں کاروحانی مرکز ہے قدرتی وسائل تیل وغیرہ اور جغرافیائی لحاظ بھی اس کی اہمیت، حیثیت اور مقام ہے ماضی میں سعودی عرب کا عالمِ اسلام میں مرکزی کلیدی کردار رہا دنیا بھر کے مسلمانوں کی مدد راہنمائی اور ترجمانی کرنے والا امام ملک سعودی عرب جہاں شاہ فیصل جیسے درد دل رکھنے والے دانشور قسم کے حکمران نے پوری زندگی عالمِ اسلام کو متحد کرنے میں گزار دی،لیکن آج کی صورت حال اس کے بالکل برعکس نظر آرہی ہے اور ایسا محسوس ہوتاہے کہ موجودہ سعودی حکمران اپنے ماضی کے فریضے اور ذمہ داریوں کو فراموش کرچکے ہیں، عالمِ اسلام کی تنظیم او آئی سی کو غیر موثر اور غیر فعال بنادیا گیا عالمِ اسلام کو شیعہ اور سنی 2گروپوں میں تقسیم کرکے جنگی حالات پیدا کئیے جارہے ہیں اور ایسا محسوس ہوتاہے کہ یہ سب کچھ امریکہ کے اشارے پر اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے کیاجارہاہے ، مئی 2017کے آخر میں سعودی عرب میں مسلم ممالک کے اجلاس میں امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کی بطور مہمان خصوصی شرکت اور خطاب تاریخ کا ایک بڑا سانحہ یا المیہ ہے اس اجلاس میں امریکی صدر نے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی موجودگی میں بھارت میںدہشتگردی کی مذمت کی اوربالفاظ دیگر پاکستان کے خلاف اور مسئلہ کشمیر کے خلاف بات کی لیکن دنیائے اسلام کے ایک معتبر ملک اور واحد اسلامی ایٹمی ملک کے وزیر اعظم کو تقریر کا بھی موقع نہیں دیا گیا ، مسئلہ کشمیرکی حمایت میں بات کرنے کے بجائے بھارت کے حق میں اور مظلوم کشمیریوں کے خلاف بات کی گئی فلسطین کے مظلوم مسلمان بھائیوں کی آزادی پر تو کسی نے بات کرنا بھی گوارہ نہیں کیا اس طرح امریکی صدر ٹرمپ اور سعودی شاہ کی امامت میں یہ کانفرنس صرف اور صرف امتِ مسلمہ کے اتحاد و اتفاق کو تباہ کرنے کی بنیاد بنی۔ سعودی حکمرانوں نے اس کانفرنس کے اختتام پر ٹرمپ کو ڈیڑھ ارب ڈالرز مالیت کے تحائف سے نواز کر تاریخ اسلام اور تاریخ عالم میں نئی تاریخ رقم کی ہے ٹرمپ کو انعام میں ملنے والی دیگر اشیاکے ساتھ 20کلو سونے کی تلوار بھی شامل ہے،اس کانفرنس میں بھی قطر کے حوالے سے کوئی ایسی بات نہیں کی گئی جس سے یہ اندازہ ہوتاکہ سعودی عرب یا کسی اور خلیجی ملک کو قطر کی کسی پالیسی سے کوئی اختلاف ہے لیکن کانفرنس کے فوری بعد سعودی شاہ نے اچانک قطر کے خلاف کارروائی کااعلان کرکے عملاً اس کی ناکہ بندی کردی ،سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا قطر یا ایران کے خلاف صف بندی کرکے عالم اسلام کی خدمت کی جا رہی ہے ؟ یقینا ایسا ہرگز نہیں ہے،بلکہ دراصل یہ عالم اسلام کو تباہ کرنے کی صف بندی کا آغاز ہے اس عالم اسلام کو جس صورت حال کاسامناہے اس کا تقاضہ یہ ہے کہ اسلامی ممالک ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کے بجائے بجائے افہام و تفہیم کی راہ اپنائیں۔ قطرہمیشہ سے سعودیعرب کا اتحادی رہا ہے اس کی فوج یمن میں سعودی عرب کے اتحادی کے طور پر لڑ رہی تھی سوال یہ ہے کہ پھر اچانک ایسے حالات کیوں پیدا ہوئے قطر نے آخر کیا جرم کیابظاہر نظر یہی آتاہے کہ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حداد نے بس یہ جرم کیا کہ اس نے سعودی بادشاہ کی طرف سے ٹرمپ کو دئیے جانے والے تحائف پر شدید تنقید کی تھی دوسرا یہ بھی کہا کہ ایران اسلامی دنیا کا ایک طاقتور ملک ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، قطر کے ایران سے دوستانہ تعلقات ہیں قطر کے امیر کا یہ بیان سعودی عرب اور امریکہ کو پسند نہیں آیا اور اس کی ناکہ بندی کر دی گئی،قطرکے خلاف اس کارروائی کا جواز یہ پیش کیاگیا کہ قطر اخوان المسلمین کی مالی مدد کرتا ہے یہ الزام ثابت کرنے کیلئے سعودی عرب سمیت کسی بھی ملک کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں جبکہ حقیقت یہ ہے 1950اور 1960کی دہائی میں سعودی عرب خود اخوان المسلمین کا مددگار رہا ہے ریاض میں اس کا دفتر قائم تھا سعودی پالیسی سے اختلاف کی وجہ سے حالات بدلے اور سعودیہ اخوان کا مخالف ہو گیا مسئلہ فلسطین اور اسرائیل کے خلاف اخوان المسلمین کی جدوجہد اور قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔
جہاںتک پاکستان کا تعلق ہے تو اس بات کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتاکہ سعودی عرب کی طرح ایران اور قطر نے بھی ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کی مدد کی ہے ایران کی سرحد ہمارے ساتھ ملتی ہے پاکستان کسی بھی صورت شیعہ سنی مسلکی تقسیم اور گروہ بندی میں الجھنے کامتحمل نہیں ہوسکتا،پاکستان کو اس صورتحال میں انتہائی باریک بینی کے ساتھ صورت حال کاجائزہ لے کر کوئی قدم اٹھانا چاہئے یہ مسلمانوں کے خلاف ایک نئی عالمی سازش ہے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اس میں نہایت محتاط کردار ادا کرے،پاکستان اس تنازع کو ختم کرانے کیلئے بحیثیت ثالث خدمات انجام ضرور دے لیکن اس دوران بھی اپنی غیر جانبداری کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن سعی کرے اور کسی بھی حالت میں اپنی غیر جانبدار حیثیت کو متاثر نہ ہونے دیاجائے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس خطرناک صورت حال سے مسلمانوں کو بچانے کی کوشش کی جائے اتفاق اور اتحاد کے لئے تاریخی کردار ادا کیا جائے۔ قطر سے پاکستان کے مثالیتجارتی تعلقات ہیں اس وقت سوا تین لاکھ پاکستانی قطر میں کام کر رہے ہیں دوسرا توانائی کے حوالے سے ہمارے بڑے اہم منصوبے قطر کے ساتھ زیرِ کار ہیں اس صورتحال میں پاکستان کو ہرگز کسی بھی مسلکی گروپ کی حمایت یا مخالفت سے گریز کرتے ہوئے برادر اسلامی ممالک کے مابین ان جھگڑوں کو ختم کرانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
امید کی جاتی ہے کہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز اپنی پیرانہ سالی کے باوجود اس حوالے سے فعال کردار ادا کرنے کی کوشش کریں گے،او ر پاکستان کو اس نازک صورتحال سے باوقار انداز میں باہر نکالنے کی کوشش کریں گے۔۔