عید پرنئے نوٹوں کی طلب‘کرنسی ڈیلرز نے لوٹ مار شروع کردی،جعلی کرنسی پھیلنے کی بھی افواہیں
شیئر کریں
بینک عملہ نئے نوٹ طلب کرنے والے اکائونٹ ہولڈرز کے ساتھ انتہائی درشت رویہ اختیار کرتاہے،جس کی وجہ سے عام آدمی کرنسی ڈیلرز کے پاس جانے پر مجبور ہوجاتا ہے
ایچ اے نقوی
عید جوں جوں قریب آتی جارہی ہے شہر میں نئے کرارے کرنسی نوٹوں کی طلب میں اضافہ ہوتاجارہاہے اور جوں جوں نئے کرنسی نوٹوں کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے کرنسی ڈیلرز کی لوٹ مار میں بھی اضافہ ہوتاجارہاہے، اگرچہ اس سال اسٹیٹ بینک نے لوگوں کو نئے کرنسی نوٹ جاری کرنے کیلئے ایس ایم ایس سروس شروع کررکھی ہے جو 23 جون تک جاری رہے گی اور جس کے تحت کوئی بھی شخص ایک ایس ایم ایس کرکے 17 ہزار روپے تک مالیت کے نئے کرنسی نوٹ اپنے قریب ترین بینک سے حاصل کرسکتاہے لیکن لوگوں کی عدم واقفیت ،ناخواندگی اور سہل پسندی کی وجہ سے اسٹیٹ بینک کی اس سہولت سے صرف ایک خاص طبقہ ہی فائدہ اٹھا سکاہے اور اٹھارہاہے جبکہ عام آدمی ہمیشہ کی طرح نئے کرارے نوٹوں کی تلاش میں کرنسی ڈیلرز کے چکر لگانے اور نئے نوٹوں کے حصول کیلئے ان کو بھاری کمیشن دینے پر مجبور ہیں ۔
اسٹیٹ بینک نے اس سال عید پر نئے نوٹوں کی طلب پوری کرنے کیلئے 25 جون تک بینکوں کی 122 ای برانچز کے ذریعے لوگوں کو کم وبیش 40 ارب روپے مالیت کے نئے کرنسی نوٹ جاری کرنے کا ہدف مقرر کیاہے تاکہ لوگوں کو عیدی تقسیم کرنے میں کسی طرح کی مشکل پیش نہ آئے لیکن اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایس ایم ایس کے ذریعے نئے نوٹوں کی فراہمی کی اس فراخدلانہ کوشش کے باوجود شہریوں کی نئے نوٹوں کی طلب میں بظاہر کوئی کمی نظر نہیں آرہی اور کرنسی ڈیلر جن کے بقول کرنسی ڈیلرز کے اسٹیٹ بینک کے متعلقہ حکام کے ساتھ خصوصی تعلقات اور لین دین ہے بدستور من مانے کمیشن پر نئے کرنسی نوٹ فروخت کررہے ہیں۔
شہر کے مختلف علاقوں کا سروے کرنے سے یہ اندازہ ہوا کہ نئے کرنسی نوٹوں کاکاروبار کرنے والے کرنسی ڈیلر ز 10,20,50 اور100 روپے مالیت کے نئے نوٹوں کی گڈیاں 10 سے 15 فیصد زیادہ پر فروخت کررہے ہیں ،جبکہ عیدجوں جوں قریب آرہی ہے اور نئے نوٹوں کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے کرنسی نوٹوں کے ڈیلرز اپنے کمیشن میں بھی اضافہ کرتے جارہے ہیں اور بعض علاقوں میں یہ کمیشن 20 فیصد سے بھی اوپر تک جاپہنچاہے۔
یہ دوسرا موقع ہے جب اسٹیٹ بینک پاکستان نے لوگوں کو نئے نوٹوں کی فراہمی کیلئے ایس ایم ایس سروس شروع کی ہے،اسٹیٹ بینک نے ایس ایم ایس کے ذریعے نئے نوٹوں کی فراہمی کی یہ سروس 12 جون سے شروع کی ہے جو اسٹیٹ بینک کے اعلان کے مطابق 23 جون تک جاری رہے گی اور اس کے تحت 25 جون تک لوگوں کو نئے نوٹوںکی فراہمی کاسلسلہ جاری رہے گا ،اس سروس کے تحت کوئی بھی شخص 8877 پر اپنے شناختی کارڈ یعنی سی این آئی سی نمبر کے ساتھ اپنی مطلوبہ برانچ کے کوڈکے ساتھ ایس ایم ایس کرنے سے اسٹیٹ بینک کی جانب سے آپ کو پیغام مل جاتاہے اگر مطلوبہ برانچ کی کرنسی نوٹ جاری کرنے کی حد پوری ہوچکی ہوتی ہے تو آپ سے کسی اور برانچ کانام دینے کو کہا جاتاہے،اسٹیٹ بینک کایہ بھی دعویٰ ہے کہ اس ایس ایم سروس کے علاوہ مختلف بینک اپنے طورپر بھی اپنے کھاتیداروں کو اپنی برانچز اور اے ٹی ایمز کے ذریعے نئے نوٹ فراہم کررہے ہیں لیکن عملاً ایسا نہیں ہورہاہے اور کسی بھی بینک کسی بھی برانچ سے عام کھاتیدار کو نئے نوٹ جاری نہیں کئے جارہے ہیں اور بینک منیجر اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ کوڈ کے بغیر نئے کرنسی نوٹ جاری کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔
اسٹیٹ بینک کے ترجمان کادعویٰ ہے کہ اب تک 16 لاکھ سے زیادہ لوگ ایس ایم ایس کے ذریعے نئے نوٹوں کی بکنگ کراچکے ہیں اور ان میں سے 50 فیصد سے زیادہ افراد کو نئے نوٹ جاری کئے جاچکے ہیں۔جبکہ بینک کے کھاتیداروں کاکہناہے کہ بینک منیجر اورعملے کے ارکان نئے نوٹ طلب کرنے والوں کے ساتھ انتہائی درشت رویہ اختیار کرتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتاہے کہ کھاتیدار ان سے نئے کرنسی نوٹ بھیک کے طورپر مانگ رہاہو۔جس کی وجہ سے عام آدمی کرنسی ڈیلرز کے پاس جانے اور ان کو منہ مانگا کمیشن دینے پر مجبور ہوجاتاہے۔
اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ نئے اور پرانے نوٹوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا دونوں کی مالیت ایک ہی ہوتی ہے اس لئے عید پر نئے کرنسی نوٹوں پر اصرار بچکانہ سی بات ہے لیکن عید پر عیدی میں نئے کرنسی نوٹ دینا ہماری روایت بن چکی ہے اس لئے پرانے کرنسی نوٹ لیتے ہوئے بھی لوگ اتنی خوشی کااظہار نہیں کرتے جتنا نئے نوٹ ملنے کی صورت میں کرتے ہیں اس کے علاوہ بچے تو پرانے نوٹوں میں دی گئی عیدی کو تو عیدی تصور ہی نہیں کرتے۔
عید پر نئے کرنسی نوٹوں کی طلب میں اضافے کے ساتھ ہی یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جعلی نوٹوں کا کاروبار کرنے والے فعال ہوگئے ہیں اور انھوں نے کروڑوں روپے مالیت کے جعلی 100,500 اور ایک ہزار کے نوٹ مارکیٹ میں پھیلانا شروع کردیئے ہیں،کہاجاتاہے کہ یہ نوٹ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوںمیں چھاپ کر پاکستان کے بڑے شہروں میں اسمگل کئے جاتے ہیںجہاں سے یہ کرنسی مبینہ طورپرجعلی کرنسی کاکاروبار کرنے والے کارندے یہ جعلی کرنسی شہر کے پسماندہ نواحی علاقوں اوردیہی علاقوں میں پہنچادیتے ہیں جہاں کم علمی اور وسائل کی کمی کے سبب اصلی اور نقلی نوٹ میں تمیز کرنا مشکل ہوجاتاہے اور غریب دیہاتی اور نواحی علاقوں کے ناخوانداہ اور نیم خواندہ لوگ ان کاشکار بن جاتے ہیں ،کہاجاتاہے کہ جعلی کرنسی پھیلانے والے لوگ کرنسی ڈیلرز اور اپنے کارندوں کومبینہ طورپر یہ جعلی کرنسی نصف قیمت پر فراہم کرتے ہیں اس طرح جعلی کرنسی چلانے میں کامیاب ہوجانے کی صورت میںمتعلقہ شخص کو 50 فیصد منافع ہوتاہے اور اسی لالچ میں بہت سے لوگ جعلی کرنسی کاکاروبار کرنے والوں کا آلہ کار بن جاتے ہیں۔
شہروں میں جعلی کرنسی پھیلائے جانے کے حوالے سے ان افواہوں میں کس حد تک صداقت ہے اس کااندازہ لگانا مشکل ہے تاہم ابھی تک اسٹیٹ بینک یا مقامی بینکوں کی جانب سے اس حوالے سے کوئی انتباہ جاری نہیں کیاگیاہے اور شہریوں کو اس خطرے سے آگاہ کرنے کیلئے کسی طرح کی کوئی مہم شروع نہیں کی گئی ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ اگرچہ موجودہ حالات میں جعلی نوٹ پھیلائے جانے کے خدشات موجود ہیں لیکن ابھی تک منظم انداز میں اس طرح کی کسی کوشش کا پتہ نہیں چلایا جاسکاہے۔