پاک افغان سرحد پر باڑھ خو د افغانستان کے مفاد میں ہے
شیئر کریں
پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے اور دہشت گردوں کی نقل و حمل روکنے کے لیے موثر عملی اقدامات کا آغاز ہوگیا۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق آپریشن ’ردالفساد‘ کے تحت پاک۔ افغان بارڈر پر سیکورٹی صورتحال بہتر بنانے کے لیے اقدامات جاری ہیں۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ہدایات کی روشنی میں پاک افغان سرحد پر مرحلہ وار باڑھھ لگانے کا عمل شروع ہوچکا ہے اور پہلے مرحلے میں حساس ترین ایجنسیوں باجوڑ، مہمند اور خیبر ایجنسی پر باڑھھ لگانے کا عمل مکمل کیا جائے گا۔بیان میں کہا گیا کہ دوسرے مرحلے میں باقی ماندہ ایجنسیوں اور بلوچستان سے منسلک پاک۔ افغان سرحد پر باڑھھ لگائی جائے گی، باڑھھ کے علاوہ پاک فوج اور فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) خیبر پختونخوا سرحد پر نئے بارڈر پوسٹ اور قلعے تعمیر کر رہی ہے جن سے دفاع اور نگرانی مزید موثر ہوگی۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ پاک افغان سرحد پر باڑھھ لگانے کا عمل شروع کیا جا چکا ہے، باڑھ لگانے کے حوالے سے پہلی ترجیح باجوڑ ایجنسی اور مہمند ایجنسی کے حساس ترین علاقے ہیں۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ دنوں مہمند ایجنسی اور اورکزئی ایجنسی میں اگلے مورچوں سورن اور کلایا کا دورہ کرتے ہوئے ان دونوں علاقوں کوزیادہ حساس قرا ردیاتھا،جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پاک افغان سرحد پر تکنیکی بنیادوں پر نگرانی کا نظام بھی نصب کر دیا گیا ہے جبکہ فضائی نگرانی بھی کی جا رہی ہے۔ پاک فوج وطن کے تحفظ کیلئے دستیاب تمام وسائل بروکار لائے گی۔آرمی چیف کا کہنا تھا کہ پاک افغان مشترکہ بارڈر میکانزم بھی متعارف کرانے کی کوشش کی جارہی ہے، محفوظ، منظم اور پرامن سرحد دہشت گردی کے خلاف قربانیاں دینے والے دونوں ممالک پاکستان اور افغانستان کے وسیع تر مفاد میں ہے۔
دوسری جانب مغربی سرحد پر افغانستان کی جانب سے بارڈر سیکورٹی موثر نہ ہونے سے دہشت گردوں کی پاکستان میں داخلے کی کوشش ہوتی ہے، کیونکہ پاک فوج کے آپریشنز کے باعث ان کو سرحدی علاقوں سے بھاگنے پر مجبور کر دیا گیا تھا، اب وہ مبینہ طور پر افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں سے پاکستان میں حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے اور اب پوری دنیا یہ تسلیم کرتی ہے کہ محفوظ سرحدہی پاکستان اور افغانستان دونوں کے مفاد میں ہے اور بہتر سرحدی سیکورٹی نظام دیرپا امن اور استحکام کے لیے مفید ہے۔واضح رہے کہ پاکستان کی مشرقی سرحد بھارت اور مغربی سرحد افغانستان کے ساتھ لگتی ہے، دونوں جانب ہی پاک فوج کو نہایت مستعدی دکھانی پڑتی ہے، مشرقی سرحد پر بھارتی فورسز کی فائرنگ سے فوجی جوانوں کے ساتھ ساتھ عام آبادی بھی نشانہ بنتی ہے۔دوسری جانب مغربی سرحد پر افغانستان کی جانب سے بارڈر سیکورٹی موثر نہ ہونے سے دہشت گردوں کی پاکستان میں داخلے کی کوشش ہوتی ہے، کیونکہ پاک فوج کے آپریشنز کے باعث ان کو سرحدی علاقوں سے بھاگنے پر مجبور کر دیا گیا تھا ، اب وہ مبینہ طور پر افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں سے پاکستان میں حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔افغان سرزمین سے دہشت گردوں نے گزشتہ دو دنوں میں پاکستان پر دو حملے کیے، جنہیں سیکورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کرکے ناکام بنادیا اور دہشت گردوں کے مذموم عزئم خاک میں ملا دیئے جبکہ فورسز سے جھڑپ میں 4دہشت گرد مارے گئے تھے۔
اس ضمن میںامریکا میں پاکستان کے سفیر اعزاز احمد چوہدری نے گزشتہ دنوںبجاطورپر اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ دہشت گردی پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ دشمن ہے، جس سے مل کر ہی نمٹا جا سکتا ہے۔وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے، انھوںنے کہا تھاکہ’’ثبوت کے بغیر الزام تراشی سے مسائل حل نہیں ہوا کرتے‘‘۔اس کے برعکس دونوں ہمسایہ ملکوں کو چاہیے کہ اعتماد کی فضا پیدا کریں اور پْرتشدد اور دہشت گردانہ قوتوں کا قلع قمع کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کریں۔اس ضمن میںپاکستانی سفیر نے قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ میں وزیر اعظم نواز شریف کی افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کا خصوصی ذکر کیا تھااور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا تھاکہ ’’افغان قیادت بغیر ثبوت کے الزام تراشی سے کام لیتی رہی ہے، جس سے مسائل کے حل میں مدد نہیں ملتی‘‘۔
پاکستان بار بار اس بات کااعادہ کرتارہاہے کہ ’’ہمسایہ ملک افغانستان میں امن، سلامتی اور استحکام پاکستان کے اپنے حق میں ہے‘‘اور یہ کہ ’’پاکستان کو خود دہشت گردی کا مسئلہ درپیش ہے‘‘۔ اس لیے پاکستان کیوں چاہے گا کہ افغانستان کے حالات درست نہ ہوں۔سرحد پار حملوں کے افغان الزامات کے بارے میں پاکستان متعدد مرتبہ ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے یہ واضح کرچکا ہے کہ ’’یہ قطعی طور پر درست نہیں‘‘۔ اس کے برعکس خود پاکستان کو یہی شکایت ہے، جس کا انسداد و تدارک ضروری ہے‘‘۔امریکا سمیت پوری دنیا یہ تسلیم کرتی ہے کہ ملک اور سرحدی علاقوں میں پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے، جس کے باعث اب سیکورٹی کی صورت حال 90 فی صد تک بہتر ہوچکی ہے اور یہ کہ اس ضمن میں دنیا پاکستان کے عزم، بہتر حکمتِ عملی اور موئثر عملی اقدام کی معترف ہے۔ اپنے محدود وسائل کے باوجود، پاکستان ملک میں دہشت گردی کو ختم کرنے میں قابلِ قدر اور مثالی حد تک کامیاب رہا ہے۔افغان مذاکراتی عمل کے بارے میں یہ بات واضح ہے کہ یہ بات چیت اور مفاہمتی عمل افغان قیادت کے تحت ہونا چاہئے، جب کہ اس ضمن میں پاکستان اور چین افغانستان کی مدد کر سکتے ہیں۔ مفاہمت کے سلسلے میں تعطل کی بنیادی وجہ یہ کہ افغان قیادت خود واضح حکمتِ عملی پر عمل پیرا دکھائی نہیں دیتی، اور اْس کی جانب سے مبہم اشارے ملتے رہے ہیں۔ جہاں تک تجارت کا تعلق ہے، یہ آپس میں 7 دہائیوں سے زیادہ مدت سے جاری ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان یہ تجارتی و اقتصادی روابط جاری ہیں اور جاری رہیں گے۔ پاکستان کیلئے افغانستان میں امن اولین ترجیح کا حامل ہے،پاکستان شروع دن سے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ پرامن تعلقات قائم
کرنے کی پالیسی پر کاربند ہے اور افغانستان کے ساتھ بالخصوص خوشگوار تعلقات استوار رکھنے کیلئے ہرممکن تعاون کررہا ہے۔ افغانستان کی طرف سے دہشت گردی کی روک تھام میں ناکامی کے باعث کرم ایجنسی میں خرلاچی کراسنگ گزشتہ4 ماہ سے بند چلی آرہی تھی۔ اس کراسنگ کو کھولنے کا فیصلہ افغانستان کو راہداری کی سہولت کی فراہمی کیلئے پاکستان کے تعاون اور کوششوں کی غمازی کرتا ہے۔ دہشت گردوں کیخلاف پاک فوج کے بلاامتیاز جاری آپریشن ردالفساد کے باعث راہ فرار اختیار کرکے افغانستان میں ٹھکانے بنانے والے گروپ اور تنظیمیں پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ افغانستان تمام تر شواہد کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے پر آمادہ نہیں، اور پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے اور دہشت گردوں کی حمایت کی الزام تراشیاں کرکے اپنی نااہلی اور کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کی روش اپنا رکھی ہے۔ افغانستان میں شدت پسند دہشت گرد تنظیم داعش کا اثر و رسوخ جس تیزی سے پھیل رہا ہے، اس سے افغانستان کے ہمسایہ ملک بجا طور پر تشویش کا شکار ہیں۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی آج ایک عالمی چیلنج کی صورت اختیار کرچکی ہے، اس کا مقابلہ بھی باہم مل کر کرنا ہوگا۔ افغانستان جتنی جلدی اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے اپنا قبلہ درست کرلے، یہ نہ صرف اس کے مفاد میں ہے بلکہ خطے کے امن کیلئے بھی ناگزیر ہے۔ دہشت گردی کیخلاف پاکستان کے ساتھ تعاون سے نہ صرف افغانستان میں امن اور استحکام آئے گا بلکہ پاکستان کی سلامتی کو لاحق خدشات بھی دور ہوں گے۔
اس صورت حا ل میںافغان حکومت کو پاکستان کی جانب سے افغان سرحد پر باڑھ لگانے کی پاک فوج کی کارروائی پر اعتراض کرنے کے بجائے اس کام میں پاکستان کی مدد اور معاونت کرنی چاہئے تاکہ پاک فوج کی کارروائیوں کے بعد افغانستان میں اپنے مضبوط ٹھکانے بنانے والے دہشت گردوں کوقدم جمانے اور اپنی طاقت مجتمع کرنے کاموقع نہ مل سکے اور اس ناسور کو ہمیشہ کیلئے ختم کیاجاسکے، افغان حکومت کو یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ دہشت گردوں اورانتہا پسندوں کاخاتمہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب ا ن کے بھاگنے کے تمام راستے مسدود کردیے جائیں۔
امید کی جاتی ہے کہ افغان حکمراں بھارتی لابی کے اثر سے نکل کر حقائق کو سمجھنے کی کوشش کریں گے اور دوست اور دشمن میں تمیز کرتے ہوئے خود اپنے مفاد میں پاکستان کے خلوص کاجواب اسی خلوص کے ساتھ دینے کی کوشش کریں گے اور دہشت گردوںکی کمرتوڑنے کیلئے پاک فوج کے اقدامات میں بھرپور معاونت کریں گے۔