اور مشتاق نگاہوں کی سنی جائے گی
شیئر کریں
ملک کی سب سے بڑی عدالت میں پاناما کیس کی تحقیقات شروع ہوئیں تو بہت لوگوں کو زباں ملی۔ اہل وابستگی اور چند متعلقہ افراد کی جانب سے عدالتی کارروائی پر حرف زنی کا نیا سلسلہ چلا۔ یہ کوئی ان ہونی نہیں کہ عدلیہ کے باہر میڈیا والے ساری دنیا میں سرکس لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں۔متعلقین عام طور پر فیصلہ آنے پر اپنی مختصر سی رائے کا اظہار کرکے چل پڑتے ہیں۔مغرب کا معاشرہ راز داری اور احتیاط کا معاشرہ ہے۔امریکا اور شاید برطانیہ میں تو ملزم کو گرفتاری کے وقت بہ بانگ دہل پولیس یہ جتلادیتی ہے کہ اس موقعے پر خاموش رہنا اس کا قانونی حق ہے ۔ اس موقع پر اس کا کچھ کہنا پولیس کو اس بات کا مجاز ٹھہراتا ہے کہ وہ عدالت میں اسے بطور گواہی اس کے خلاف استعمال کرے(امریکا میں اعلیٰ عدالتوں نے پولیس کی جانب سے Miranda warning نہ دیا جانا ان کے آئین کی پانچویں اور چھٹی ترمیم کی سراسر خلاف ورزی گردانا)پاکستان میں افتخار چوہدری کے زمانے سے نہ صرف دوران مقدمات عدالتوں میں بینچ کی جانب سے رائے زنی عام ہوگئی بلکہ وہ امیر مقام تو باقاعدہ مقدمات میں پیش ہونے والے افسران کی تحقیر و تضحیک پر اتر آتے تھے۔ یہ بھی کچھ اچنبھے کی بات نہیں کہ عدالت سے وابستہ اعلیٰ مرتبت جناح صاحب کی تصویر کی مانند اہل معاملہ کو بے اعتباری اور بے بسی سے تکتے رہیں اور کچھ نہ کہیں ۔جسٹس ایم آر کیانی کے عدالت میں ارشادات کو کون بھول سکتا ہے ۔ان کا تعلق براہ راست مقدمے سے کم اور ان کی بزلہ سنجی سے زیادہ ہوتا جس سے عدالت میں ماحول کی گرانی کچھ دیر کو ہلکی ہوجاتی تھی مگر جسٹس کارنیلس، دراب پٹیل اور اجمل میاں سنتے بہت کچھ تھے مگر جو کچھ کہنا ہوتا تھا اس کا اظہار صرف فیصلوں میںکیا کرتے تھے۔افتخار چوہدری کے زمانے میں بے پایاں فروغ پانے والی اس مقدس عدالتی بدعت کا نتیجہ یہ نکلا کہ اہل سیاست جن کوروزگار فقیر اپنے شہید لیڈر،اپنے مشہور چیئرمین اور اپنے پیکر دیانت اور ترجمان ترقی و کمال محاسبے کی بھٹی میں کندن بنے وزیر اعظم کی بے جا تعریف او ر بے دریغ تحسین پر منحصر ہوتا ہے۔ وہ عدالتی کارروائی پر دن میں سحری کا ڈھول عین عدلیہ کی عمارت کے سامنے بجانے لگتے ہیں۔ وہ تو شکر ہے کہ ابھی اس قبیلہ¿ کاسہ لیساں میں فوزیہ مغل صاحبہ شامل نہیں ہیں جن کی سوانح عمری ” امیر شہر“ کے سرورق پر عہد حاضر کا عمر ؓ فاروق (شہباز شریف) کو بتایا گیا ہے۔
اب کی دفعہ معاملہ کچھ بگڑ سا گیا ۔ کراچی کے ایک بہاری سیاست دان جنہیں پنجاب سے سینیٹری جھونگے میں ملی ہے ۔ معزز جج صاحبان کو لالو پرشاد یادیو کی تقلید میں کچھ ذرا کھل کے ہی دھمکی دے گئے۔موصوف کے 20 ٹھکانوں پر جب ہزار کروڑ روپے کی بے نامی کاروباری لین دین کے حوالے سے ٹیکس چوری کو پکڑنے کے لیے چھاپا مارا تو وہ چیخ اٹھے کہ سسری بی جے پی میں یہ ہمت نہیں کہ وہ لالو کی آواج کو دبا سکے۔ لالو کی آواج کو دبائیں گے تو دیش بھر میں کروڑوں لالو نکلیں گے ۔تم کتنے لالو مارو گے ،ہر کھولی سے لالو نکلے گا ۔میں گیدڑ بھبکیوں سے ڈرنے والا نہیں۔کل ہم پاور میں ہوں گے تو ان ٹیکس کرمچاریوں کو دلی کے چوہے بھی اپنے بلوں میں شرن استھان ( پناہ )نہیں دیں گے۔
عدالت اور ہمارے تحمل مزاج ، ہر دل عزیز،بردبار وزیر اعظم سبھی اتنے ناخوش ہوئے کہ بے چارے نہال بے حال ہوگئے۔ وہ تو شکر ہے کہ رانا ثنا اللہ جنہیں پنجاب کا ڈونلڈ ٹرمپ کہا جاتا ہے ،انہوں نے بھائی جان کو سمجھایا کہ غریب نوابوں کا بٹیر صف شکن ہے۔زیادہ بول گیا۔ سینیٹری ،بنیادی رکنیت اور بہادر آباد میں فوج داری مقدمہ ، اب کیا غریب کی جان لیں گے۔ جیسی تیسی انگریزی میں تین طلاق قسم کا سینیٹ سے استعفیٰ واپس لیا گیا مگر پھر بھی کوئی دن ہے کہ عدالت ان سے پوچھ لے گی کہ مار دیا جائے کہ چھوڑ دیا جائے۔بول تیرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔
پنجاب جوڈیشل اکیڈمی کے ڈی جی جناب سہیل ناصر نے ایک مقالہ عدالت عالیہ کو بھیجا تھا کہ مغرب کے عدالتی نظام میں جس طرح بطور سزا کمیونٹی سروس کا تصور عام ہے ایسا ہی سزا کا نظام پاکستان میں بھی اپنا مفید ثابت ہوگا ۔پندرہ سے اٹھارہ برس کے وہ افراد جو جرائم میں ملوث ہوں انہیں جیل میں قید رکھنے سے بہتر ہے کہ انہیں مغرب کی طرح 23 اقسام کی وہ سزائیں دی جائیں جس سے نہ صرف انہیں معاشرے میں دوبارہ صحت مند انداز میں جڑ جانے کا موقع ملے بلکہ ان کے دل میں محنت کی عظمت اور رزق حلال کا واضح تصور پیدا ہو۔ان سزاو¿ں میں شاہراہوں اور پارکوں کی صفائی،تعلیمی اداروں میں اپنے جرم سے متعلق منفی اثرات کا بیان،جو ایک طرح سے Public Shaming میں شمار ہوتا ہے۔ریپئر ورک، دفاتر میں کام،دیواروں پر درج نعروں کی صفائی قسم کے کام شامل تھے۔
امریکا میں ایک بہت بدزبان، مغرور اور گلیوں کی شہزادی سے دولت مند بنی ایک خاتون ہوتی تھیں لیونا ہیمسلے۔لوگ اسے امریکا میں ملکہ¿ کمینگی Queen of Mean کہتے تھے۔یہ تو آپ کے علم میں ہوگا کہ ہر سال امریکا میں ٹیکس ریٹرن بھرنے کی ڈیڈ لائن پندرہ اپریل ہوتی ہے ۔وہاں سب سے پہلا جمع شدہ ٹیکس ریٹرن جو دھڑلے سے شائع کیا جاتا ہے وہ امریکی صدر کا ہوتا ہے۔ اس ریٹرن کے شائع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر معاشرے میں جو نہلے دہلے ہوتے ہیں اور جنہیں قانون شکنی میں ایک چھچھورا سا احساس تفاخر محسوس ہوتا ہے وہ صدر کی جانب سے قانون کی پابندی اور اس کی اس اشاعت عام کی وجہ سے دھول چاٹتے رہ جاتے ہیں۔لیونا ہیمسلے پر سن1989ءمیں ٹیکس فراڈ کے مقدمے میں گواہی کے دوران اس کی کسی ملازمہ نے یہ گواہی دے دی کہ وہ یعنی لیونا ہیمسلے اکثر یہ کہتی ہوئی سنی گئی کہ ٹیکس چھوٹے افراد ادا کرتے ہیں۔بس کیا تھا عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ اس کی انا کو چکنا چور اور اس کے غرور کو خاک بر داماں کرنے کے لیے لازم ہے کہ جرمانے اور قید کے علاوہ اسے کمیونٹی سروس کی سزا بھی دی جائے چنانچہ اس متکبر یہودن کو کچھ عرصے کے لیے ذہنی امراض کے ایک ادارے کے فرش اور ٹوائلٹ کی صفائی کا عظیم فریضہ سونپ دیا گیا ۔
امریکا میں ایک اور بہت مشہور سنگر اور ان کی ان سے زیادہ مشہور گلوکارہ دوست ریحانہ کا مقدمہ جب عدالت میں آیا تو موصوف پر الزام تھا کہ انہون نے ریحانہ پر جسمانی تشدد کیا۔عدالت نے انہیں سن 2009 ءمیں سزا دی کہ وہ پولیس کی گاڑیاں دھوئیں گے،تھانوں کے فرش کی مومی پالش کریں گے۔ پارکوں کی صفائی بھی کریں گے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ نوے کی دہائی کی مشہور سیاہ فام ماڈل نومی کیمپبل کا ہوا ۔خاتون نے امریکا میں اپنے قیام کے دوران ملازمہ کو اپنا سیل فون کھینچ کر دے مارا ۔عدالت نے پانچ دن کے لیے ٹوائلٹ کی صفائی کی سزا دی۔ایسے ہی ایک برطانوی گلوکار بوائے جارج جو کچھ کچھ بیگم نوازش علی کی قبیل کے تھے ۔امریکا میں اپنی رہائش گاہ پر ڈکیتی کی جھوٹی رپورٹ کرا بیٹھے تفتیش پر جھوٹے ثابت ہوئے تو عدالت نے پولیس کا وقت ضائع کرنے پر انہیں نیویارک کی سڑکوں پر جھاڑو لگانے کی سزا اور خود جو بہ بانگ دہل کوکین کا نشہ کرتے ہیں اس کے خلاف منشیات سے چھٹکارے کے مرکز پر اس کے مضمرات پر لیکچر دیں یہ Public Shaming کے زمرے میں آنے والی بالکل ایسی سزا ہے جومشرق وسطیٰ کی کوئی شرعی عدالت مشہور پورن اداکارہ کرنجیت کور المعروف سنی لیونے کو دے کہ وہ خواتین کو پردے کی اہمیت پر لیکچر دے۔اسی طرح ایک اداکارہ لِنڈسے لوہان جن کے بارے میں اب گاہے بہ گاہے یہ غلغلہ بلند ہوتا رہتا ہے کہ وہ مشرف بہ اسلام ہوگئی ہیں۔انہیں چوری اور نشے کی حالت میں ڈرائیونگ کے جرم میں ایک مردہ خانے اور بوڑھی خواتین کی صفائی کی سزا دی گئی۔دنیا بھر میں لاکھوں دلوں کی دھڑکن کم کردیشیان کے میاں کیانے ویسٹ نے (جن سے دنیا مرد کے مرد مشترکہ یک زبان ہوکر نفرت کرتے ہیں ) پچھلے ماہ کسی فوٹو گرافر پر حملہ کردیا تھا انہیں 250 گھنٹے کمیونٹی کی وہ سزا دی گئی جس کا انتخاب وہ خود کریں گے۔اب دیکھیے کیاہو۔
ان تفاصیل اور تصاویر سے مراد یہ ہے کہ مملکت میں جو اہلیان بست و کشاد تفاخر وابستگی کی وجہ سے قانون شکنی اور بد احتیاطی کا چلن عام ہوچلا ہے اور جس طرح ہر کس و ناکس مملکت میں آقا و مختار بن بیٹھا ہے اس روش کو بدلنے کے لیے کمیونٹی سزا کی ابتدا سپریم کورٹ چاہے تو در پیش مقدمات سے ہی کرسکتی ہے۔
٭٭….٭٭