حکومت اور عدلیہ کا ٹکراؤ
شیئر کریں
پاکستانمسلم لیگ ن کے سینیٹر اور شعلہ بیان مقرر سید نہال ہاشمی کے ساتھ وہی ہوا جو سندھ کے شعلہ بیان سیاستدان غازی صلاح الدین کے ساتھ ہوا تھا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مرحوم جام صادق علی سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے اور غازی صلاح الدین ان کی کابینہ میں مشیر کے درجے پر فائز‘ سندھ میں 17جنوری کو ہر سال قوم پرست سیاستدان جی ایم سید کی سالگرہ بڑے اہتمام سے منائی جاتی ہے۔ ان کی زندگی میں سالگرہ کا ایک بڑا اجتماع نشترپارک میں منعقد ہوا جس میں وزیر اعلیٰ جام صادق علی کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔
جام صاحب بڑے ہوشیار اور زیرک سیاستدان تھے۔ ہر ایک سے بنا کر رکھتے تھے۔ سائیں جی ایم سید کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنی جگہ غازی صلاح الدین کو تقریب میں بھیج دیا۔ جلسہ میں وفاق اور پنجاب کے خلاف خوب دھواں دار تقاریر کی گئیں‘ سندھو دیش کے ترانے بجائے گئے۔ اس پر خوب تنقید اور لے دے ہوئی۔ تیسرے دن جام صادق علی نے خود کو بچانے کے لیے غازی صلاح الدین کی قربانی دے دی اور انہیں جی ایم سید کی سالگرہ میں شرکت کی پاداش میں کابینہ سے فارغ کردیا گیا۔ نہال ہاشمی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ ان کی 28مئی کو کی گئی ایک متنازعہ تقریر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کردی گئی۔ اس تقریر میں انہوں نے جوش جذبات میں وہ کچھ کہہ دیا جو مسلم لیگ کے بڑے بڑے لیڈر بھی نہیں کہہ سکتے تھے۔ وہ وزیر اعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کی اسی دن پیشی پر سخت غصہ میں تھے۔ شاہ سے بڑھ کر شاہ کی وفاداری دکھانے کا شاندار موقع جان کر خوب دل کی بھڑاس نکال دی۔ ان کا کہنا تھا کہ” تم جس کا احتساب کررہے ہو‘ وہ نواز شریف کا بیٹا ہے۔ ہم نواز شریف کے کارکن ہیں۔ جنہوں نے حساب لینا ہے اور جو لے رہے ہیں، کان کھول کر سن لو، ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔ تم آج حاضر سروس ہو‘ کل ریٹائر ہوجاو گے۔ ہم تمہارے بچوں اور خاندان کے لیے پاکستان کی زمین تنگ کردیں گے۔ احتساب کرنے والوں ہم تمہارا یوم حساب بنا دیں گے۔“ نہال ہاشمی کی اس شعلہ بیانی نے ہلچل مچادی۔ انہیں وزیر اعظم ہاو¿س طلب کرکے مبینہ سرزنش کی گئی۔ سینیٹ اور پارٹی کے عہدے سے استعفیٰ لے لیا گیا۔ مسلم لیگ کے ترجمان ڈاکٹر آصف کرمانی نے ان سے ملاقات کرکے انہیں وزیر اعظم کی ناراضگی اور فیصلے سے آگاہ کردیا اور شاہ سے بڑھ کر اس کی وفاداری ان کی رسوائی بن گئی۔ نہال ہاشمی نے جو کچھ کہا‘ اسے کہنے کے لیے ان میں جرا¿ت کہاں سے آئی۔ ان کے بقول یہ ان کی ذاتی رائے تھی۔ وہ مسلم لیگ ن کے اہم رہنما اور سینیٹر تھے۔ کسی سیاسی اجتماع میں کی گئی ان کی تقریر ذاتی رائے کیسے ہوسکتی ہے۔ وہ خود ایک بڑے وکیل اور قانون دان ہیں‘ انہیں تو قانون اور آئین کی باریکیوں کا زیادہ علم ہونا چاہیے۔
انہیں سولی پر چڑھایا گیا ہے یا وہ خود اقتدار کی قربان گاہ میں اپنی قربانی کے لیے پیش ہوئے ہیں‘ اس کا تعین باقی ہے۔ شاید انہیں خیال ہو کہ اسی قسم کی باتیں کرکے خواجہ آصف وزیر بن گئے۔ محمد زبیر گورنر سندھ ہوگئے اور حنیف عباسی سے لے کر عابد شیر علی تک شاہ کی وفاداری کے مزے لوٹ رہے ہیں، لہٰذا اداروں کے خلاف سخت قسم کی تقریر سے قیادت خوش ہوجائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وزیر اعظم کے لیے اس”گستاخی“ کو سنبھالنا مشکل تھا ۔ انہوں نے پرویز رشید‘ مشاہد اللہ خان‘ راو تحسین علی خان اور طارق فاطمی کی طرح نہال ہاشمی کی بھی”بلی“ چڑھادی اب ان کا نام پانچویں شہید کے طور پر تاریخ میں درج ہوجائے گا۔ صدر جنرل محمد ضیاءالحق مرحوم نے اپنی صدارت کے دور کو تاحیات بنانے کے لیے دسمبر 1984ءمیں صدارتی ریفرنڈم کرایا تھا، جس کی شفافیت کا ڈھول پیٹنے میں ان کے ”پانچ پیارے“ پیش پیش تھے۔ ان میں راجہ ظفر الحق‘ غلام دستگیر خان‘ حیدرآباد کے میر علی احمد تالپور اور دیگر دو سیاستدان شامل تھے۔ بعد ازاں 1985ءمیں عام انتخابات کرائے گئے تو یہ پانچوں وفادار الیکشن ہار گئے یا انتخابات اور یفرنڈم کو غیر جانبدارانہ اور صاف و شفاف ثابت کرنے کے لیے انہیں ہرادیا گیا تھا۔
عقلمند لوگ وفا کے جنون میں اپنے انجام کا بھی خیال رکھتے ہیں‘ نہال ہاشمی نے سوچا ہوگا کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اسلام آباد کی ایک تقریب سے خطاب کے دوران اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کی اور اشاروں میں یہ بتادیا کہ آپ تو تین سال کے لیے عہدے پر فائز ہیں‘ ہم ہمیشہ رہیں گے۔ اس لیے ہماری طرف مت دیکھو‘ اس بیان کے بعد اداروں کا دباو¿ بڑھا، ڈیڑھ سال کی ازخود جلا وطنی اختیار کی۔ واپس آئے تو نئی طاقت کے ساتھ سیاست شروع کردی۔ اداروں سے مفاہمت کی اور اپنے کئی اسیر ساتھیوں کو رہا کرالیا۔ سہیل انور سیال کو لاڑکانہ کے ایک واقعہ پر وزارت داخلہ سے ہٹایا گیا تھا ،انہیں پھر وزیر داخلہ بنادیا گیا۔ مسلم لیگ ن نے میاں نواز شریف کی سابقہ حکومت میںسپریم کورٹ پر حملہ کیا تھا۔ چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ سمیت دیگر ججوں نے کمروں میں بند ہوکر جان بچائی تھی، لیکن میاں صاحب کی تیسری حکومت میں کئی حملہ آور اسمبلیوں کے رکن منتخب ہوگئے۔ تیسرا واقعہ حال میں پیش آیا جب گورنر سندھ محمد زبیر عمر نے فرمایا کہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا ضرب عضب‘ نیشنل ایکشن پلان اور کراچی کے امن و امان میں کوئی کردار نہیں ہے۔ وہ عام سے جرنیل تھے (شاید 40اسلامی ملکوں کی مشترکہ فوج کی سربراہی انہیں سونپنے والوں سے غلطی ہوگئی ہے) گورنر محمد زبیر کے بقول امن و امان کے قیام اور دہشت گردی ختم کرنے کا سارا کریڈٹ وزیر اعظم نواز شریف کوجاتا ہے۔ ممکن ہے کہ نہال ہاشمی کے ذہن میں یہ سارے واقعات ہوں اور”بادشاہ سلامت“ ان سے بہت خوش ہوکر کوئی اہم عہدہ سونپ دیں۔ ان کا اندازہ غلط نکلا اور برق ان پر آگری۔
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی
پاکستان کے طبقاتی معاشرے میں غریب یادرمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والا کوئی سیاسی کارکن اپنی جدوجہد اور قربانیوں سے عزت اور مرتبہ حاصل کرنے میں کامیا ب تو ہوجاتا ہے لیکن عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ اس طبقاتی سماج کے اوپر والے سیاستدان جب کسی مشکل میں پھنستے ہیں تو قربانی کا بکرا بیچارے سیاسی کارکنوں کو ہی بنایا جاتا ہے۔ نہال ہاشمی کے واقعہ پر کراچی میں شام کے ایک اخبار نے شہ سرخی جمائی”تیرا کیا بنے گا کالیا۔“ یہ امیتابھ بچن کی ایک فلم کا مشہور ڈائیلاگ ہے جو کافی عرصہ تک زبان زد خاص و عام رہا اور ایک محاورہ بن گیا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے تو اپنی سابقہ اہلیہ جمائما خان سے بنی گالا کی جائیداد کی خریداری کے لیے بینک اسٹیٹمنٹ منگوا کر عدالت میں منی ٹریل پیش کردی ہے لیکن شریف خاندان کے لیے قطری شہزادے کا خط بھی کام نہیں آرہا ہے کہ اسی اثناءمیں نہال ہاشمی نے یہ غضب ڈھایا ہے۔ عدلیہ اور حکومت کی لڑائی کچھ اور بڑھ گئی ہے۔ یہ واقعہ آگ میں پیٹرول ڈال گیا ہے۔ حسین اور حسن نواز شریف کئی کئی گھنٹے جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہوئے ہیں۔ وہ جے آئی ٹی کے اراکین کو مطمئن نہیں کرسکے ہیں۔ نہال ہاشمی کو حسین نواز کی باربار پیشی پر ہی غصہ تھا۔ وہ جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور دھمکیاں دے گئے۔ ”پناما“ نامی فلم کا نیا سین شروع ہوچکا ہے جس کا اختتام ٹریجڈی کی شکل میں سامنے آسکتا ہے۔ دنیا کے ایک بڑے فاتح نپولین بونا پارٹ نے تمام جنگیں لڑنے کے بعد اپنے آخری زمانے میں کہا تھا”دنیا کے بارے میں کیا چیز مجھے سب سے زیادہ تعجب میں ڈالتی ہے‘ وہ چیز ہے طاقت کی یہ بے بسی کہ اس کے ذریعے کسی چیز کو حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ بالآخر ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ دماغ تلوار کو فتح کرلیتا ہے۔“ اقتدار کے ایوانوں میں زبان کی تلوار سے لڑائی لڑنے والوں کو دماغ کی طاقت استعمال کرنی چاہیے۔
٭٭….٭٭