میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سید علی گیلانی کی گواہی

سید علی گیلانی کی گواہی

منتظم
جمعرات, ۱۹ جنوری ۲۰۱۷

شیئر کریں

مقبوضہ کشمیر میں ان دنوں آزادی پسند تنظیموں کی سر گرمیوں میں تیزی آ رہی ہے ۔مشترکہ مزاحمتی قیادت کی جانب سے کالے قانون آرمڈ فورسزا سپیشل پاور ایکٹ کے نفاذ کے خلاف مہم عروج پر ہے ۔ 1990 ءکے شہدائے گاو¿کدل، شہدائے ہندواڑہ اور شہدائے کپواڑہ کی برسیوں کے مواقع پر تقریبات کے انعقاد کا سلسلہ جاری ہے ۔ حُریت کانفرنس جموں کشمیر سمیت دیگر کشمیری جماعتوں کے قائدین یہ کہتے سُنے گئے کہ مظلوم کشمیریوں کو اللہ کی مدد اور نصرت کے بعد پاکستان سے اُمیدیں وابستہ ہیں ۔ کشمیریوں کو غاصب بھارت سے آزادی دلوانے اور مسئلہ کشمیر پوری دنیا میں اُجاگر کرنے کے لیے حکومتِ پاکستان کو بھر پور کردار ادا کرنا چاہیے ۔اس موقع پر زمانہ شناش مردِ حریت سید علی گیلانی نے پاکستانی حکومت سے قومی کشمیر کمیٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی برطرفی کا مطالبہ بھی کیا ہے ۔ سید علی گیلانی کا موقف تھا کہ پاکستان کی قومی کشمیر کمیٹی کی قیادت کشمیر کاز سے آگاہ نہیں ہے ۔
سیدعلی گیلانی کشمیر کے دبستانِ حُریت کا وقار ہیں ۔جنت نظیر کشمیر اُن کا ستارہ ہے اور وہ اس بہشت برُوئے زمین کے بیٹے اور تحریک آزادی کشمیر کی رینگتی خون کی شریان ہیں ۔
ان کے یہ حروفِ صدق سُن کر مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے پھولوں کا موضوعِ سُخن شعلوں کی پہچان بن گیا ہے ۔ حریت رہنماءکا یہ بیان ہماری قومی کشمیر کمیٹی کی کارکردگی کے چہرے سے نقاب اُٹھانے کے لیے کافی ہے ۔
مولانا فضل الرحمن نے جب سے قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کی قیادت سنبھالی ہے کشمیر کاز سے وابستہ طبقات کی مرتعش سانسیں سکوت میں ہیں ۔ مولانا فضل الرحمن کا سیاسی پس منظر کشمیر سے وابستگی کا کوئی ایک حوالہ بھی نہیں رکھتا ۔ ہمارے حکمرانوں نے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر کشمیر کمیٹی کی سربراہی خراج کی صورت میں مولانا فضل الرحمن کو” ادا“ کی ہوئی ہے۔ اپنے قیام سے لے کر آج تک کشمیر کمیٹی نے مسئلہ کشمیر پر کشمیریوں کے موقف کی تائید اور پاکستان کی کشمیر پالیسی کو اُجاگر کرنے کے لیے کوئی قابلِ ذکر کردار ادا نہیں کیا ۔ مولانا فضل الرحمن پیپلز پارٹی کے سابقہ دورِ حکومت میں بھی حکومت کی حمایت کے عوض اس منصب پر فائز رہے ۔ دونوں مرتبہ مولانا فضل الرحمن کی اس تعیناتی کے حوالے سے وقتاً فوقتاً آوازیں بُلند ہوتی رہی ہیں لیکن حکمرانوں نے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی ۔ صورتحال شاید کچھ ایسی رہی کہ
وہ پریشاں تھا کہیں زندہ نہ ہو کوئی ضمیر
تخت پر قابض ہوا تحقیق کر لینے کے بعد
بلاشُبہ کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی ایک نئے موڑ پر ہے ۔1931 ءسے لے کر اب تک کشمیری دیومالائی کہانیوں کے مطابق خطے کے ہندوو¿ں کے ” مہا بھارت “ کے خواب کی تعبیر میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو ، ڈاکٹر کے ایم پانیکر اور معروف بھارتی اسکالرز ڈاکٹر ایس آر پٹیل کے توسیع پسندانہ عزائم اور نظریات کی راہ میں ہمالیہ کی طرح حائل کشمیریوں نے قربانیوں کی لازوال اور بے مثال داستانیں رقم کی ہیں ۔ وادی کے چپے چپے پر شہداءکے قبرستان آباد ہیں ۔ حُریت پسندوں کے لہو کی سُرخی سے وادی روشن ہے ۔
تکمیلِ پاکستان کی اس جدوجہد میں پاکستانی سیاستدانوں اور حکمرانوں کے کردار پر نظر ڈالیں تو ہاتھ کٹے ہوئے ، ہونٹ سلے ہوئے اور سوچ پتھرائی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ ہم یہ بھول گئے ہیں یا پھر ہمیں اس حقیقت سے آگاہی نہیں ہے کہ تقسیمِ ہند کے اُصولوں کے مطابق مسلم اکثریت کے علاقوں کو پاکستان میں شامل ہونا تھا ۔۔ اسی اُصول اور ضابطے کے تحت کشمیر پاکستان کا حصہ ہے ۔ اگر کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں بنتا تو دو قومی نظریہ بے جان ہوجاتا ہے ۔ غیر جانبدار مبصرین کی رائے ہے کہ بھارت کشمیر کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے لیکن پاکستان کا وجود کشمیر کے بغیر بے معنی ہے ۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے ، اس کی معیشت کا زیادہ انحصار زراعت پر ہے ۔زراعت کے لیے پانی بنیادی اہمیت رکھتا ہے ۔ ہماری زمین ان دریاو¿ں سے سیراب ہوتی ہے جو کشمیر سے ہماری طرف آتے ہیں ۔ ویسے بھی کشمیر دنیا کے حسین ترین خطوں میں سے ایک ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی جغرافیائی حیثیت کے لحاظ سے بھی انتہائی کلیدی اہمیت کا حامل ہے ۔ شمالی جانب واخان کا تنگ قطعہ اسے روس سے جُدا کرتا ہے ۔ اس کے شمال مشرق میں چین ہے جو 800 کلومیٹر قراقرم ہائی وے کے ذریعے پاکستان سے ملا ہوا ہے ۔ اب پاک چین راہداری منصوبہ اس رشتے کی پائیداری کو بقائے دوام عطاءکر دے گا ۔ چینی سرحد کے ساتھ ساتھ کوہ پیماو¿ں کی وہ جنت ہے جس میں کے ٹو اور گشر بروم جیسی بلند و بالا چوٹیاں سر اُٹھائے عظمت کا نشان بنی ہوئی ہیں ۔ کشمیر کے جنوب کی طرف بھارت اور مغرب کی جانب پاکستان ہے ۔ ہمالیہ اور قراقرم سلسلے کے گلیشئرز اور دریا پاکستان کے لیے آبپاشی اور برقی توانائی فراہم کرنے کا اہم ترین وسیلہ اور ذریعہ ہیں ۔ 1935 ءمیں برطانوی ہند کی حکومت نے شمال کے بہت سے علاقے ساٹھ سال کے لیے مہاراجہ سے پٹے پر لیے تھے ۔ مقصد روسی خطرے کا دفاع تھا ۔ محلِ وقوع کے اعتبار سے یہ علاقہ روس، چین، بھارت اور پاکستان کے لیے فوجی اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس کے چاروں ہمسائے اپنی کسی مخالف قوت کو یہاں قدم جماتے نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ برداشت کرنے کا خطرہ مول لے سکتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ تبت دنیا کی چھت ہے تو کشمیر اس کی سیڑھی ہے جس کا سرا قراقرم اور پامیر سے ملا ہوا ہے ۔ کشمیر اور پاکستان اس لیے بھی لازم وملزوم ہیں کہ اس کی 700 میل لمبی سرحد پاکستان سے ملی ہوئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی بقاءکا بہت زیادہ انحصار کشمیر سے وابستہ ہونے میں ہے۔
مولانا فضل الرحمن کی کشمیر کمیٹی کی قیادت سے برطرفی کے لیے سید علی گیلانی کا مطالبہ اس کمیٹی کی کارکردگی پر حُریت لیڈروں کے عدم اعتماد سے بڑھ کر مایوسی کا اظہار ہے ۔ مسئلہ کشمیر سے وابستگی رکھنے والی قوتیں موجودہ قومی کشمیر کمیٹی کی کارکردگی سے کبھی بھی مطمئن نظر نہیں آئیں ۔ کمیٹی کے چیئر مین مولانا فضل الرحمن ہمیشہ ایک فعال سیاستدان کے طور پر سیاست میں سرگرم رہے ہیں ۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں وہ قائد حزب اختلاف رہے ۔ کے پی کے اور بلوچستان کے ساتھ ساتھ مرکز کے اقتدار میں بھی شریک یا معاون رہے ،اب بھی وہ سیاست میں بہت زیادہ مو¿ثر ہیں ۔پاک چین راہداری منصوبے کے روٹ کو اپنی مرضی سے موڑنے کا معرکہ سر انجام دے چُکے ہیں ۔ وہ کے پی کے میں عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیتے رہتے ہیں لیکن جس منصب کی وہ قومی خزانے سے مراعات سمیٹ رہے ہیں اور پرٹوکول لے رہے ہیں ،اس کی جانب توجہ دینے کی فرصت ملتی انہیں کم ہی ملتی ہے ۔ عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ قرار دےنے کے بیانات کو ہی اُٹھا کر دیکھ لیجیے، مولانا کی جانب سے کشمیریوں کی حمایت میں دیے گئے بیانات اُن کی جانب سے عمران خان کے خلاف دیے گئے بیانات کا دسواں حصہ بھی نہیں ہیں ۔
سید علی گیلانی جیسی اولعزم شخصیت کی جانب سے پاکستان کی قومی کشمیر کمیٹی کی سربراہی کی تبدیلی کے مطالبے پر ہماری حکومت کان دھرتی ہے یا نہیں ، اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ مطالبہ سامنے آنے پر سید نصیر شاہ کے یہ اشعار مجھے شدت کے ساتھ یاد آ رہے ہیں کہ
سسک کے مر گئی خوشبو گلاب قتل ہوئے
تمہارے عہد میں لوگوں کے خواب قتل ہوئے
دہکتے رہ گئے ہونٹوں پہ پیاس کے دوزخ
کئی حُسین سرِسیلِ آب قتل ہوئے
فضا کی حشر زا دہشت دلوں پہ مہر ہوئی
دماغ و دل میں سوال و جواب قتل ہوئے
کہاں سے آئے کرن کوئی دستگیری کو
کہ حرف و لفظ کے سب ماہتاب قتل ہوئے
قلم کے قتل کا کیسے قصاص مانگیں گے
جلیسِ علم انیسِ کتاب قتل ہوئے
کباب سیخ سمندر کی موج ہوئی
ہوا ہلاک ہوئی حباب قتل ہوئے
جہانِ علم میں بھی دانشوروں کا قتل ہوا
خرد نواز جو تھے خانہ خراب قتل ہوئے
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں