غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ حکومت کو لے ڈوبے گی
شیئر کریں
بجلی کی غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ سے عاجز آئے عوام نے گھیراﺅ جلاﺅ کی صورت میں تشدد کا راستہ اختیار کرلیا ہے۔ کراچی ،حیدرآباد،سکھرکے علاوہ پنچاب کے مختلف شہروں اور بالخصوص خیبر پی کے میں حالات کنٹرول سے باہر ہوگئے ہیں۔ جہاں گزشتہ روز مظاہرین نے درگئی میں ایک پولیس تھانے اور پیسکو کے دفتر کو آگ لگادی جبکہ اس موقع پر لیویز کی فائرنگ سے مظاہرین میں سے دو افراد ہلاک اور 14 زخمی ہوگئے۔ اس ناخوشگوار واقعہ کے بعد حالات کنٹرول کرنے کے لیے فوج طلب کرلی گئی۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز درگئی کے علاقے ورتر کے ہزاروں مظاہرین نے بجلی کی ناروا لوڈشیڈنگ کیخلاف احتجاج کیا جن میں ڈنڈا بردار مظاہرین بھی شامل تھے۔ احتجاج کے دوران مظاہرین نے واپڈا سب ڈویژن ٹو درگئی پر دھاوا بول دیا اور توڑ پھوڑ کرتے ہوئے دفتر کو نذر آتش کردیا۔ جب صورتحال قابو سے باہر ہوئی تو مالاکنڈ لیویز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے فائرنگ کی جس پر مظاہرین اور لیویز میں تصادم ہو گیا اور اس کے نتیجے میں انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن درگئی کالج کے سابق صدر جاوید خاں طوفان سمیت دو افراد جاں بحق اور اسسٹنٹ کمشنر درگئی سردار بہادر اور دو لیوی اہلکاروں سمیت 14 افراد زخمی ہوگئے۔ فائرنگ کے بعد مشتعل مظاہرین نے تھانہ درگئی کو بھی نذر آتش کردیا اور درگئی چوک میں توڑ پھوڑ کرکے مین مالاکنڈ روڈ بلاک کردی جبکہ مظاہرے کے دوران دکانوں‘ سرکاری املاک‘ چوک میں نصب کیمروں اور سائن بورڈز پر پتھراﺅ کیا گیا۔ پتھراﺅ سے کئی گاڑیوں کے شیشے بھی ٹوٹ گئے۔
مظاہرین نے کراچی سمیت مختلف شہروں میں کے الیکٹرک، واپڈا، اور بجلی فراہم کرنے والے دیگر اداروں کے دفاتر میں فرنیچر اور دروازوں کو توڑنے کے علاوہ دفتر میں موجود سرکاری ریکارڈ بھی پھاڑ دیا اور پھر دفتر کو آگ لگا دی۔ مظاہرین نے گاڑیوں پر پتھراﺅ بھی کیا۔ ماہ رمضان المبارک کے دوران بجلی کی اذیت ناک لوڈشیڈنگ کیخلاف ملک کے تمام صوبوںکے مختلف شہروں میں لوگوں کے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جبکہ اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے ارکان نے پارلیمنٹ ہاﺅس کے سامنے احتجاج کیا اور سندھ میں جاری لوڈشیڈنگ کیخلاف خود وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ نے وفاقی حکومت سے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ وفاقی حکومت اپنی کوششوں کے باوجود توانائی کے جاری سنگین بحران پر قابو نہیں پا سکی اور غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کے خاتمہ اور لوڈشیڈنگ کے دورانیہ میں کمی سے متعلق حکومتی اعلانات اور دعوے نقش برآب ثابت ہوئے ہیں جبکہ گرمی کی حدت میں اضافے کے ساتھ ہی غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ میں اضافے اور ٹرپنگ سے باربار بجلی بند ہونے کے باعث لوگوں کی اذیت بھی اضافہ ہورہا ہے‘ بالخصوص ماہ صیام میں گرمی کی حدت میں ہونیوالی لوڈشیڈنگ روزہ داروں کے لیے زیادہ اذیت کا باعث بن رہی ہے جس پر عوام کا احتجاج فطری امر ہے۔ عوام کو تو یہی توقع تھی جس کا حکومتی حلقوں کی جانب سے عندیہ بھی ملتا رہا کہ حکمران مسلم لیگ (ن) کی تیسری ٹرم کے کم از کم آخری سال کے دوران حکومت بجلی کی لوڈشیڈنگ پر قابو پانے سمیت عوام کے روزمرہ کے مسائل حل کرنے کی جانب خصوصی توجہ دیگی بصورت دیگر حکمرانوں کا آئندہ انتخابات کے لیے عوام کے پاس جانا مشکل ہو جائیگا۔ اگرچہ حکومت کو رواں سال پاناما لیکس اور نیوز لیکس کی آزمائشوں سے بھی دوچار ہونا پڑا ہے اور حکومت کیلئے یہ آزمائش ابھی ختم نہیں ہوئی جس کے باعث عوامی مسائل کے حل کی جانب حکومت کی توجہ میں کمی آئی ہے تاہم حکومت کے لیے توانائی کا بحران پاناما اور نیوز لیکس سے بھی بڑی آزمائش ہے جس سے اس کا عہدہ برآ ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس بحران کے نتیجے میں گزشتہ انتخابات میں سابقہ حکمران پیپلزپارٹی کو بھی عوام کے ہاتھوں راندہ درگاہ ہونا پڑا تھا۔ اس لیے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو جو پیپلزپارٹی کی حکومت کیخلاف اسی بحران پر سیاست اور عوام کی ہمدردیاں حاصل کرکے اقتدار میں آئی تھی‘ بطور خاص قوم کو اس بحران سے نجات دلانے کے لیے تردد کرنا چاہیے تھا۔
وزیراعظم میاں نوازشریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے توانائی کے بحران سے عہدہ برآ ہونے کے لیے بے شک عملی اقدامات بھی کیے اور بالخصوص چین کے ساتھ توانائی کے حصول کے متعدد معاہدے کیے جن کی بنیاد پر پنجاب اور ملک کے دوسرے علاقوں میں متعدد تھرمل اور کول پاور پراجیکٹ شروع کیے گئے۔ ان میں متعدد پاور پراجیکٹس اس وقت آپریشنل بھی ہوچکے ہیں اس کے باوجود توانائی کے بحران پر قابو پانے میں کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آرہی اور گرمی کی حدت بڑھنے کے ساتھ لوڈشیڈنگ میں جس شدت سے اضافہ ہورہا ہے‘ اس سے بادی النظر میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے حکومتی دعوﺅں کی نفی ہو رہی ہے۔ اس معاملہ میں بجلی کے حصول کیلئے حکومتی ترجیحات اور توانائی کے ذرائع کے انتخاب میں غلطی ہوئی ہے کیونکہ سابق حکمرانوں کی طرح موجودہ حکومت نے بھی ہائیڈل بجلی کے ذرائع کو نظرانداز کیا اور تھرمل‘ کول اور سولر پاور پر زیادہ توجہ دی جس سے ملک کی بجلی کی طلب پورا کرنے میں کوئی خاص مدد نہیں ملی جبکہ حکومت اپنے آغاز ہی میں کالاباغ اور دوسرے ڈیمز کی تعمیر اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرلیتی تو حکومت کے چار سال گزرنے پر ہائیڈل بجلی کے حصول کی راہ ہموار ہوچکی ہوتی اور فی الحققت ہائیڈل بجلی سے ہی ملک کی توانائی کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں جبکہ یہ بجلی سستی بھی پڑتی ہے۔ اس کے باوجود حکومت نے بجلی کی فراہمی کے دوسرے ذرائع کو ترجیح دی تو اس کا بجلی کے بحران سے دوچار ہونا فطری امر تھا۔ اب توانائی کے بحران میں اضافہ ہوا ہے تو حکومت مخالف جماعتوںکو اس پر حکومت کیخلاف پوائنٹ سکورنگ کی سیاست کا بھی موقع مل گیا ہے جنہوں نے لوڈشیڈنگ سے عاجز آئے عوام کے مشتعل جذبات کو حکومت مخالف سیاست کیلئے استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔
اپوزیشن کو تعمیری سیاست کے ذریعے حکومت کی کوتاہیوں‘ کمزوریوں اور اس کی ناقص پالیسیوں اور اس کے ساتھ ساتھ عوامی مسائل کیخلاف آواز اٹھانے اور احتجاج کے لیے سڑکوں پر آنے کا بلاشبہ حق حاصل ہے جو حکمران مسلم لیگ (ن) بھی اپنے اپوزیشن کے دور میں استعمال کرتی رہی ہے تاہم حکومت مخالف سیاست کو تشدد کا رنگ دینا اور اس کے ذریعے ملک میں انتشار‘ افراتفری کی کیفیت پیدا کرنا ملک کی خدمت ہے نہ عوام کی۔ اور نہ ہی اس سیاست سے عوام کے مسائل حل کرنے کی کوئی قابل عمل راہ نکل سکتی ہے۔
اس صورتحال میں اب تشدد کی سیاست کا راستہ اختیار کرنیوالے سیاست دانوں کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ وہ ملک کی خدمت اور سسٹم کی اصلاح کی سیاست کر رہے ہیں یا دانستگی نادانستگی میں اپنی تخریبی سیاست کے ذریعے سسٹم کو اندھی کھائی کی جانب دھکیلنے میں مصروف ہیں۔ بلاشبہ حکومت کو بھی توانائی کا بحران ختم کرنے کے اپنے دعووں کی پاسداری کرنی چاہیے اور کم از کم ماہ صیام کے دوران عوام کو لوڈشیڈنگ کی اذیت سے دوچار نہیں رکھنا چاہیے۔ اس کے لیے چاہے جیسے بھی ہو‘ حکومت کو غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ فی الفور ختم کرکے عوام کو ریلیف دینے کے عملی اقدامات اٹھانا چاہئیں‘ بصورت دیگر اسے آئندہ انتخابات میں پیپلزپارٹی والے انجام سے ہی دوچار ہونا پڑیگا۔ اسکے ساتھ ساتھ اپوزیشن کو بھی تعمیری سیاست کے ذریعہ عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور حکومت پر پوائنٹ سکورنگ کے بجائے توانائی کے بحران سے نجات کا جو بھی منصوبہ اس کے پیش نظر ہے‘ ملکی اور قومی تعمیر کے جذبہ کے تحت اس کی بنیاد پر حکومت کی معاونت کرنی چاہیے تاکہ ملک اور عوام کو کم از کم لوڈشیڈنگ سے تو خلاصی مل سکے۔وزیراعظم نے گزشتہ روز ایک اجلاس میںمسلسل لوڈ شیڈنگ پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے صورت حال بہتر بنانے کی ہدایت کی ہے لیکن وزیر اعظم کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ صرف ہدایات جاری کرنے سے لوڈ شیڈنگ کے جن کو قابو میں نہیں لایاجاسکتا۔