مسئلہ کشمیر پر مذاکرات سے بھارت کی پہلو تہی
شیئر کریں
بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے ایک دفعہ پھر عالمی برادری کو دھوکہ دینے کے لیے یہ بیان دیا ہے کہ بھارت پاکستان سے مذاکرات کے لیے ہمہ وقت تیار ہے لیکن ساتھ ہی اپنا پرانا راگ الاپتے ہوئے یہ شرط بھی عاید کردی ہے کہ مذاکرات سے پہلے پاکستان کو دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی ، دوسری جانب مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ پاکستان کبھی کشمیریوں کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹے گا‘ پاکستان بھارت سے مذاکرات کے لیے ہمہ وقت تیار ہے مگر بھارت کی طرف سے ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیا گیا۔ گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان نے مشکل حالات میں ایٹمی دھماکے کئے۔ ان کے بقول تین وزراایٹمی دھماکوں کے حامی تھے جبکہ چھ وفاقی وزرانے فوری دھماکہ نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ واجپائی حکومت کی طرف سے کیے گئے دھماکے پاکستان کے لیے چیلنج تھا اس لیے ہم بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھارت کی بالادستی چاہتے ہیں، اس لیے وہ سرحد پر کچھ نہ کچھ کرکے تناﺅ کی کیفیت برقرار رکھنا چاہتے ہیں ۔ ایک سوال کے جواب میں سرتاج عزیز نے اس موقع پر واضح کیا کہ پاکستان نے دہشت گردی پر قابو پالیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ہم کسی اور کی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے‘ ہم اپنی معیشت پر بھرپور توجہ دے رہے ہیں اور پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔
بلاشبہ کشمیر ہی وہ بنیادی دیرینہ تنازعہ ہے جو اس خطے کے پڑوسی ممالک پاکستان اور بھارت کے مابین شروع دن سے کشیدگی کا باعث بنا ہوا ہے اور ان دونوں ممالک کے جو وسائل اپنے اپنے عوام کی خوشحالی اور ملکی و قومی ترقی کے لیے بروئے کار لائے جانے چاہئیں تھے‘ وہ ان دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے اپنی جنگی و حربی استعداد و صلاحیتوں کو بڑھانے کی خاطر جنگی سازو سامان ‘ گولہ بارود اور ہر قسم کے اسلحہ کی خریداری پر صرف کیا جاتا رہا جبکہ بھارتی توسیع پسندانہ عزائم نے پاکستان کو بھی اس کے مقابلے میں ایٹمی طاقت سے ہمکنار ہونے پر مجبور کیا۔ اسی طرح یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی کشمیر کا تنازعہ خود بھارت نے کھڑا کیا تھا ۔اگر بھارت ایسی جارحانہ پالیسیاں اختیار نہ کرتا تو اول تو کشمیر کا تنازعہ پیدا ہی نہ ہوتا یا اقوام متحدہ کے فورم پر اس تنازعہ کا اب تک کوئی نہ کوئی حل نکل چکا ہوتا۔ تاہم بھارت نے کشمیر پر تسلط پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی نیت سے ہی جمایا تھا اس لیے اس نے ہٹ دھرمی کی، ہر سطح پر جا کر تنازعہ کشمیر کا اب تک کوئی قابل عمل حل نہیں نکلنے دیا بلکہ اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دے کر اقوام متحدہ کا ودیعت کردہ کشمیری عوام کا استصواب کا حق بھی سلب کرلیا اور اپنے آئین میں ترمیم کرکے کشمیر کو جبراً اپنی ایک ریاست کا درجہ دے دیا۔ بھارت کی ایسی جارحانہ سوچ کے باعث ہی پاکستان اپنے دفاع کی خاطر اپنی مضبوط دفاعی پالیسی ترتیب دینے پر مجبور ہوا اورسابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو ایٹمی پروگرام شروع کرنے اور یہ اعلان کرنے پر مجبور ہوناپڑا کہ پاکستانی عوام اپنی آزادی کی حفاظت کے لیے ایٹم بم ضرور بنائیں گے خواہ اس کے لیے انہیں گھاس کھاکر ہی گزارا کرنا پڑے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ پاکستان کی ایٹمی قوت نے ہی اب تک اسے بھارت کے جارحانہ عزائم سے محفوظ رکھا ہوا ہے ورنہ سانحہ سقوط ڈھاکہ کے بعد وہ پاکستان کو نرم چارہ سمجھ کر کب کا ہڑپ کرچکا ہوتا۔
کشمیر پر بھارتی بدنیتی کے برعکس پاکستان نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی ہے مگر اپنی ہٹ دھرمی کے باعث بھارت نے ہی ہمیشہ مذاکرات کو سبوتاژ کرکے پاکستان کو کشمیر کو بھول جانے کا پیغام دیا ہے۔ ریکارڈ گواہ ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک بھارت نے خارجہ سیکریٹریوں سے وزرا اعظم تک کے کسی بھی مذاکرات کی بیل منڈھے نہیں چڑھنے دی اور کسی نہ کسی حیلے بہانے سے وہ مذاکرات کی میز الٹ کر آئندہ کے لیے مذاکرات کے دروازے بند کرتا رہا ہے۔ بھٹو مرحوم کے دور میں بھارت نے 71ءکی جنگ کے باعث در آنیوالی پاکستان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر اسے شملہ معاہدے پر مجبور کیا جس کا واحد مقصد مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے یواین قراردادوں کو غیرمو¿ثر بنانے کا تھا۔ اس معاہدے کے تحت بھارت نے پاکستان کو کشمیر سمیت کوئی بھی تنازعہ کسی بیرونی عالمی فورم پر لے جانے کے بجائے دوطرفہ باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا پابند کیا مگر پھر دوطرفہ مذاکرات کی کبھی نوبت ہی نہیں آنے دی جبکہ پاکستان بھارت سے مذاکرات کے لیے ہمہ وقت تیار رہا ہے۔ یہ بھارتی بدنیتی ہی ہے کہ اس نے آج تک کنٹرول لائن اور سیز فائر لائنز پر سرحدی فضا سازگار نہیں ہونے دی اور پاکستان کے ساتھ ہمیشہ جنگ کی کیفیت طاری رکھی ہے۔کشمیرکو بہرصورت بھارتی تسلط سے آزاد ہونا ہے جس کے لیے کشمیری عوام کی گزشتہ سات دہائیوں سے جاری جدوجہد کے نتیجہ میں آج عالمی رائے عامہ بھی ہموار ہوچکی ہے کیونکہ آج بھارت کشمیری عوام پر جتنے بھی مظالم توڑتا ہے اس کا انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور عالمی قیادتوں کی جانب سے کشمیریوں کے حق میں ردعمل سامنے آتا ہے۔ اسی تناظر میں کشمیریوں پر جاری بھارتی مظالم بھی آج پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن چکے ہیں اور یہی وہ صورتحال ہے جو کشمیریوں کی بھارتی تسلط سے آزادی کی نوید بن رہی ہے۔ بلاشبہ آج علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کا دارومدار بھی مسئلہ کشمیر کے حل پر ہے۔ اگر اس کے لیے پاکستان بھارت کے ساتھ مذاکرات پر ہمہ وقت تیار ہے اور بھارت بدستور اپنی ہٹ دھرمی برقرار رکھے ہوئے ہے تو وہ مسئلہ کشمیر کے بزور حل کی راہ ہی ہموار کررہا ہے۔ اس صورتحال میں عالمی قیادتوں کی ذمہ داری اور بھی بڑھ گئی ہے کہ وہ بھارت کے جنونی ہاتھ روکنے اور مسئلہ کشمیراقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اگر بھارت اسی طرح اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا اور سرحدی کشیدگی بڑھاتا رہا تو اپنی سلامتی کے تحفظ کے لیے پاکستان کو اپنی ایٹمی استعداد بروئے کار لانے کا پورا حق حاصل ہے۔ اس کے بعد اس خطے میں کیا ہوگا‘ عالمی قیادتوں کو اس کا ادراک ہونا چاہیے۔