
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!
شیئر کریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ مدینتہ الرسولۖ کے مہکتے گلشن کا پھول تھے، دائم جن کی خوشبو رہے گی۔ حضرت عمر پابہ رکاب تھے۔
سامنے جنگ نہاوند تھی۔ 642 عیسوی میں مسلمانوں اور ساسانی سلطنت کے درمیان ایران میں معرکہ درپیش تھا۔ حضرت عمراسلام کا مستقبل تھے،
حضرت علیؓ سے بہتر کوئی نہ جانتا تھا، مودب آگے بڑھے، فرمایا:جنگ تو ایک ہِنڈولا ہے،کبھی اِدھر تو کبھی اُدھر ۔ آپ کو کچھ ہو گیا تو اسلام کا کیا ہوگا”؟
جنگ، ایران میں لڑی گئی، جس میں مسلمانوں کو فیصلہ کن فتح ہوئی اور ساسانی سلطنت کا خاتمہ ہوا۔ تاریخ نے اسی جنگ کو’ فتح الفتوح’ سے یاد رکھا ہے۔
اب زمانے بیتتے ہیں مگر حقیقتوں کی حقیقت یہی ہے ”جنگ ایک ہِنڈوولا ہے، کبھی اِ دھر تو کبھی اُدھر”۔ مگر ہوا کے گھوڑوں پر سواروں کی بات دوسری ہے۔
اسرائیل نے حملہ کیا تو ردِ عمل کے انتظار کی زحمت تک نہ کی۔ پاکستانی دانشوروں کی بات چھوڑئیے، زندگی کو ڈیل کے ہم معنی بنانے والے ہڑبونگ کے شکار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اُتاؤ لے دکھائی دیے۔
اسرائیل نے ایران پر جمعہ کے روز حملہ کیا تو یہ ایسا غیر متوقع نہ تھا۔ اس میں صرف نقصان کی نوعیت غیر متوقع تھی۔ امریکہ نے مشرقِ وسطیٰ میں اپنے کچھ سفارت خانوں کو بہ عجلت عام خالی کرایا، شہریوں کو انتباہ جاری کیا اور امریکی صدر نے صحافی کے سوال کے جواب میں کندھے اُچکا کر کہا کہ آپ خود ہی دیکھ لیں گے جو ہوگا، تو مطلب واضح تھا۔ سفارتی دنیا میں ایک بھونچال تھا۔ مغربی اخبارات، خبریں شائع کر رہے تھے۔ پھر بھی ایران اپنی اہم ترین عسکری قیادت کے تحفظ میں ناکام رہا۔ اس نے کسی حد تک لوگوں کو مایوس کیا۔ اسرائیل کے ایران پر حملے میں ایرانی مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری اور ایرانی پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی سمیت 4اعلیٰ فوجی افسران اور 9جوہری سائنسدان شہید ہو گئے۔ یورینیم کے پلانٹس تباہ ہوئے۔ سیکورٹی سسٹم دکھائی ہی نہ دیا اور بیلسٹک میزائل کا اڈہ بھی نشانہ بنا۔ لوگ حیران تھے ایران کو یہ کیوں اندازا نہیں ہو سکا کہ اُن کی تمام اعلیٰ قیادت خطرے میں ہے؟ دوسری طرف امریکی صدر ٹرمپ نے ابتدا میں اسرائیلی حملے سے لاتعلقی ظاہر کی۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے الفاظ میں کوئی ابہام نہیں تھا: ایران کے خلاف اسرائیلی حملوں میں امریکا شامل نہیں”۔ امریکا ایسا کیوں کہہ رہا تھا؟ یہ سوال ابھی زیرگردش تھا کہ ایران پر اسرائیلی حملے کے نقصانات عیاں ہونے لگے۔ جس میں واضح ہوا کہ اسرائیل چھ ایرانی سائنسدانوں، مسلح افواج، ائیرفورس اور پاسداران انقلاب کے سربراہان سمیت اہم شخصیات کو تاک تاک کر نشانہ بنانے میں کامیاب رہا۔ اس موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مغربی اخبارات میں یہ سوال اُٹھایا جا رہا تھا کہ اگر وہ حملے میں شامل نہیں تھے تو کیا وہ اس سے بے خبر بھی تھے؟ کیا نتن یاہو اتنا بڑا قدام خود سے اُٹھا سکتے تھے؟ انڈیپنڈنڈنٹ کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹراور کالم نگار شان اوگریڈی(Sean O’Grady) نے امریکی صدر کو اپنی سالگرہ کی پریڈ کا لطف اُٹھانے کا مشورہ دیتے ہوئے لکھا کہ
”Trump can shout, but no one is listening”
یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا اسرائیل کا مُدَمغّ وزیراعظم نتن یاہو امریکی صدر کی بھی بات نہیں سنتا؟ اسی تناظر میں اسرائیل کے حملے کو مغربی اخبارات نے ٹرمپ کے ایران کے ساتھ معاہدے کو تباہ کرنے کے تیور سے دکھایا، یہاں تک کہا گیا کہ نتن یاہو نے دنیا کے سامنے ٹرمپ کو ایک بے وقوف شخص کے طور پر پیش کیا ہے؟ لیکن یہاں گھمنڈ اور کاروبار کی ملی جلی نفسیات میں امریکی صدر نے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی اور کہا ”ایران کو معاہدہ کرنے کے لیے 60 روز کا الٹی میٹم دیا تھا اور آج اس کا61 واں دن ہے”۔ اس طرح امریکی صدر نے اپنے پچھلے بیان کے بالکل برعکس خود کو اس منصوبے کے اہم حصے دار کے طور پر پیش کیا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ امریکی صدر جب چِلّا رہے تھے تو ایران نے اپنے کان بند کر لیے، اس کی نظریں تل ابیب پر تھیں۔ نتن یاہو سنتا ہو یا نہیں، مگر ایران ثابت کر رہا تھا امریکی صدر کی سنتا کون ہے؟ فارم سینتالیس کے پاکستانی حکمرانوں کو دل پر یہ بوجھ لینے کی چنداں ضرورت نہیں۔
ایران نے اسرائیل کی طبیعت صاف کرتے ہوئے رات گئے جوابی ردِ عمل دیا۔ یہ تل ابیب کے لیے ایک مختلف رات تھی۔ اسرائیلی عوام اور صیہونیوں کے لیے خیالی دنیا سے نکلنے کا لمحۂ انصاف آپہنچا تھا۔ ایران نے تین وقفوں کے ساتھ مجموعی طور پر 150 سے 200 میزائل اسرائیل پر داغے۔ حملوں کے نتیجے میں تل ابیب میں ایک 32 منزلہ عمارت میں آگ لگ گئی جبکہ ایرانی حملوں سے تل ابیب میں 5 مقامات پر تباہی ہوئی۔ وسطی اسرائیل میں 9 مقامات کو نشانہ بنایا گیا جس میں اسرائیلی وزارت دفاع کی عمارت سمیت متعدد عمارتوں کو نقصان ہوا، جبکہ حملوں کے نتیجے میں 4 اسرائیلی ہلاک اور 63 سے زائد زخمی ہوئے۔ ایران نے ابتدا میں دو اسرائیلی لڑاکا طیارے گرانے اور ایک پائلٹ کو حراست میں لینے کا دعویٰ کیا تھا۔ اگلے روز ایران نے اسرائیل کا تیسرا ایف 35 لڑاکا طیارہ بھی مار گرایا جبکہ ایک مزید پائلٹ بھی گرفتار ہوا۔ یہ بالکل ابتدائی اطلاعات ہیں، ظاہر ہے کہ ابھی درست اعداد و شمار سامنے آنے ہیں جس سے حقیقی نقصان آنکا جا سکے گا۔ ایران کا ”آپریشن وعدہ صادق سوم” جاری ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کے حملے بھی ہو رہے ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایران کا نقصان زیادہ ہے ، مگر اہم بات یہ ہے کہ وہ 57 اسلامی ریاستوں میں تنہا مزاحم ہے ۔ اُسے زبانی کلامی بھی بہت کم ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ دوسری طرف اسرائیل تمام مغربی ممالک کی کھلی اور مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک کی بھی درپردہ حمایت رکھتا ہے۔ اسرائیل کو ہر قسم کا مالی اور جنگی تعاون امریکا سے حاصل ہے۔ پھر ایران کے جوابی وار میں اُس کے میزائلوں کا راستہ روکنے کے لیے مغربی ممالک کے خطے میں موجود تمام عسکری اڈے فعال ہیں۔ ایسے میں ایران کے لیے صرف استقامت کے ساتھ کھڑے رہنا بھی قابل ستائش ہے چہ جائیکہ وہ اسرائیل کی زمین گرم کر دے اور فلسطین میں دکھائے گئے مناظر تل ابیب میں دُہرا کر دے۔ یہ اس لیے غیر معمولی صورت ِ حال ہے کہ فتح وشکست کو اب محض اعداد و شمار سے نہیں پرکھا جاتا۔ جنگوں میں اہمیت اب نتائج اور اثرات کی ہوتی ہے۔ اسرائیل کے ایران پر حملے نے جوہری معاہدے کی راہ ہموار کرنے کے بجائے دراصل اسے ایران کے لیے توازنِ قوت پیدا کرنے کا واحد آپشن بنادیا ہے۔ ایران کے پاس ایٹمی ہتھیار کا مطلب مشرق وسطیٰ میں طاقت کی نئی دوڑ کا آغاز ہوگا۔ سعودی عرب بھی اس میں شامل ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ یوں اسرائیل یا امریکا نے یہ جنگ جس مقصد کے لیے شروع کی، یہ پہلے ہی قدم میں ناکام ہو گئی۔
اسرائیلی وزیر اعظم نے ایران میں ”رجیم چینج” کا واضح اعلان کر دیا ہے۔ یوں نتن یاہو کے پاس جنگ کے مرحلے میں ایران کی موجود حکومت سے معاملات طے کرنے کی گنجائش بھی ختم ہوگئی جو کہیں نہیں جا رہی۔ یہ خطرہ ایران سے زیادہ خود اسرائیل میں موجود ہے کہ کسی مرحلے میں عوام نتن یاہو کو اکھاڑ پھینکیں۔ خود امریکا بھی خطے میں اپنے مفادات کو خطرے میں دیکھ کر نتن یاہو سے جان چھڑانے میں ہی عافیت محسوس کرے گا۔ دوسری صورت میں جنگ پھیلتے ہی خطرہ ہے کہ امریکا کو اس جنگ میں کودنا پڑے۔ یہ ٹرمپ کے لیے ایک مستقل دردِ سر ہوگا۔ پھر اس جنگ سے دیگر خلیجی ممالک بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ مشرق وسطیٰ کے حکمران آگ کے الاؤ پر بیٹھے ہیں اور عوام کی امنگوں کے برخلاف بروئے کار ہیں۔ یہ ممالک گزشتہ برسوں میں عوامی بیداری کی ایک لہر کا مشاہدہ کر چکے ہیں۔ جبر طوفانوں کو زیادہ دیر تک نہیں روک سکے گا۔ یہ ایک خطرناک منظرنامہ ہوگا۔ جس کی آگ میں امریکی مفادات بھی راکھ ہو سکتے ہیں۔ جنگ ایک ہنڈولا ہے جو کبھی اِ دھر ہوتا ہے اور کبھی اُدھر۔ نئی دنیا کی تشکیل کے اس منظرنامے میں آپ خود کو خوش آمدید کہہ سکتے ہیں، جہاں ابھی تو نتن یاہو نے اپنے بیٹے کی صرف شادی منسوخ کی ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!