
بجٹ میں نظرانداز ہونے والے شعبے
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
جب سے ہوش سنبھالا ہے، حکومتوں کو ہرسال دعویٰ کرتے سنا ہے کہ اُس نے ایساغریب پرور بہترین بجٹ پیش کیا ہے جس سے صنعت وزراعت کو فروغ ملے گا۔بے روزگار ی اور مہنگائی ختم ہو گی جبکہ اپوزیشن بجٹ کو ظالمانہ کہہ کر مسترد کرتی ہے۔ اکثر ایوان میں احتجاج ہوتے دیکھا ہے لیکن بجٹ کو کیسے عوام دوست بنایا سکتاہے۔ اِس حوالے سے کام نہیں کیاجاتا جہاں تک سرکاری ملازمین کا تعلق ہے۔ وہ ہربجٹ سے شاکی رہتے ہیں لیکن اِس بار حکومت نے تنخواہ وپنشن میںخاطرخواہ اضافہ کردیاہے۔ اِس لیے سرکاری ملازمین کو سڑکوں پر دیکھنے کی متمنی اپوزیشن کے خواب شاید پورے نہ ہوں۔ موجودہ بجٹ ایسے حالات میں پیش کیا گیا ہے کہ گزشتہ ماہ مئی میں بھارت سے زمینی اور فضائی جھڑپیں ہوئیں جس میںپاکستان کو واضح فتح ہوئی لیکن کمزور معیشت پر اخراجات کے حوالہ سے ایسابوجھ آیاہے لہٰذاکچھ غیر متوقع اخراجات بجٹ کاحصہ ہیں ۔علاوہ ازیں رواں مالی سال کے دوران حکومت نجکاری کے اہداف حاصل نہیں کرسکی۔ اِس لیے مختلف شعبوں کا گردشی قرضہ بڑھتارہا۔ ٹیکس وصولوں کے اہداف بھی حاصل نہ ہوئے ۔اطمینان کا پہلو یہ ہے کہ دیوالیہ کے خدشات کا خاتمہ ہو گیا ہے جو حکومت کا بڑاکارنامہ ہے لیکن مستحکم معیشت کے لیے تنخواہ داروں کے ساتھ دیگر شعبوں سے وصولیاں ناگزیر ہیں۔ علاوہ ازیں برآمدات کے مقابلے میں دوگنا درآمدات میں کمی لانے کے ساتھ پیداواری اضافے کی ضرورت ہے ۔فی الوقت حکومتی دعووں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ بڑی صنعتوں کے ساتھ زرعی پیداوار میں ملک کو مسلسل کمی کا سامنا ہے۔
حکومت نے آئندہ مالی سال 2025.26کے لیے 17ہزار573ارب کابجٹ کردیا ہے جس کے متعلق حکومتی حلقوں کا خیال ہے کہ بدترین حالات میں یہ ایک بہترین بجٹ ہے جس میں معاشی نظم و ضبط کے ساتھ سماجی تحفظ اور ترقیاتی اہداف کو یکجا کرنے پر توجہ دی گئی ہے۔ لیکن اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ بجٹ متوازن نہیں اور بتائے گئے اعداد وشمار غلط،تصوراتی اور مفروضوں پرمبنی ہیں معاشی سمت درست نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ توقعات وابستہ کرنا ٹھیک نہیں اسی بنا پر کچھ حوالوں سے بے اطمینانی ہے ۔
قرضوں سے معیشت نڈھال ہے موجودہ بجٹ میں بھی 8207ارب روپے یعنی سب سے زیادہ رقم سود کی دائیگی کے لیے رکھی گئی ہے جو کل بجٹ کے نصف سے کچھ ہی کم ہے 6501ارب کا خسارہ ظاہر کرتا ہے کہ آئندہ مالی سال کے دوران بھی مزید قرض لینا مجبوری ہوگا ، یوں قرضوں کے بوجھ تلے دبی معیشت پر دبائو بڑھتارہے گا۔ اِس لیے خود کفالتی کادعویٰ پورانہیں ہو سکے گا۔ اِس کے باوجود حکومت اپنے شاہانہ اخراجات میں کمی کا کوئی منصوبہ نہیں بنارہی ۔تنخواہ داروں اور زرعی شعبے کو سہولیات دینے کے لیے توآئی ایم ایف سے اجازت لی جاتی ہے لیکن قانون سازاِداروں کے ممبران اور وزیروں و مشیروں کی تنخواہ ومراعات میں دوسے چھ صدفیصد اضافہ بغیر کسی بحث کر دیا جاتا ہے اور کسی قسم کی اجازت طلب نہیں کی جاتی۔ یہ طرزِ عمل عوام سے حکومتی خلوص کے دعووں کی نفی کرتا ہے۔ مزید حیران کُن پہلو یہ ہے کہ اِس حوالے سے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کا اتفاق ہے۔ اب یہی لوگ بجٹ پر طویل بحث کریں گے ۔صدر اور وزیرِ اعظم کے دفاتر ورہائش گاہوں کے اخراجات میں غیرمعمولی اضافہ اِس بنا پر سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایف بی آرکو محصولات وصول کرنے میں مسلسل کئی برس سے ناکامی کاسامنا ہے۔ موجودہ تخمینہ 14ہزار131ارب ہے جوبادی النظرمیں بلند ہدف ہے۔ اِس لیے شایدہی آئندہ مالی سال میں وصولی کاہدف حاصل کر سکے۔ البتہ ترقی کی شرح 4.2کے امکان میں وزن ہے اور یہ اندازہ کسی حد تک حقیقت پر مبنی لگتا ہے ۔
دفاعی اخراجات کے لیے مختص 2550ارب پر اعتراض کرنا درست نہیں وجہ ملک کو مسلسل بھارتی دبائو کا سامنا ہے ۔علاوہ ازیں حالیہ پاک بھارت تصادم کے بعدتو یہ اوربھی ضروری ہو گیا ہے کہ ملکی سلامتی کواولیں ترجیح دی جائے۔ ملک کی بہادرا فواج نے آٹھ گنا زیادہ اخراجات اور نفری رکھنے والی فوج کو دھول چٹاکر ثابت کردیا ہے کہ یہ اِدارہ فرائض سے غافل نہیں یکسوہے ۔نیز قومی سلامتی کاتحفظ کر نے کی اہلیت وصلاحیت رکھتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ پاک فوج نے پیشہ وارانہ مہارت سے بھارت جیسے دشمن پر اپنی طاقت کی دھاک بٹھا دی ہے جس سے کئی عشروں کے بعدعالمی سطح پر پاکستان سے بھی بھارت جیساسلوک کیا جانے لگا ہے جس پر قوم خوش ہے اور سمجھتی ہے کہ آزادی جیسی نعمت کادفاع دیگر ترجیحات کی طرح اہمیت کے اعتبادسے کم نہیں۔
پوری دنیا میں خود کفالت کے لیے کام ہورہا ہے۔ اِس کے لیے اکثر ملکوں میں اِدارے ہیں، جن کی مشاورت سے حکومتیں منصوبے بنا کر عمل کرتی ہیں لیکن پاکستان میں آج بھی انگریز دور کا فرسودہ نظامِ تعلیم رائج ہے جس میں کامیابی کے لیے رٹا اہم ہے۔ یہ نظام جدید دنیا کے تقاضوںسے ہم آہنگ نہیں اورماہرین کی بجائے صرف کلرک پیداکرنے تک محدود ہوچکاہے ۔موجودہ بجٹ میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 716ارب کی خطیر رقم رکھی گئی ہے مگرآج بھی رقوم کی تقسیم میںشفافیت کافقدان ہے جس سے سماجی شعبے کے تحفظ کا عزم ظاہر نہیں ہوتا بلکہ ووٹ بٹورنے اور بھکاری بنانامقصدلگتا ہے ۔ضرورت اِس امر کی ہے کہ امدادی رقوم حاصل کرنے والوں کے لیے حکومت ایسے منصوبے شروع کرے جس سے وصول کنندہ کوئی ہُنر سیکھ کر معاشرے کا کارآمد شہری بنے۔ اگر ہُنر سیکھنے والے مردوخواتین کو اِس پروگرام کے تحت اعزازیہ کی صورت میں امداد دینے کا سلسلہ شروع کیا جائے تو نہ صرف غیر مستحق افراد کوحقداروں کا حق کھانے سے روکا جا سکتا ہے بلکہ نچلے طبقے کومستقل طورپر پیروں پرکھڑاکرنے اور اُن کی آمدن بڑھانے میں مدد ملے گی اِس طرح غربت میں تخفیف ممکن ہے۔
بجٹ میں صوبوں کاحصہ 8206 ارب ہے۔ علاوہ ازیں پس ماندہ صوبے بلوچستان کے حصے کوبڑھایا گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت ملک کے تمام حصوں میں برابرترقی کی خواہاں ہے مگر اب بھی کئی پہلوایسے ہیں جس کے لیے مرکز اور صوبوں میں مالی شراکت داری بہتر بنانے اور مزید شفافیت لانے کی ضرورت ہے۔ حکومت نے توانائی کے شعبے میں سبسڈی کے لیے 1186ارب رکھے ہیں۔ بڑے شہروں کے مسائل حل کرنے کو بھی اولیت دی ہے۔ مقام ِ افسوس تویہ ہے کہ صحت کے لیے صرف 14.3اورتعلیم کے لیے محض 18.5 ارب مختص کیے گئے ہیں۔اِن اعدادو شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتی تبدیلی کے باوجود پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ سوچ ترقی پذیر ملک کی ضروریات کے منافی ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے 38.5جبکہ سائنس وٹیکنالوجی کے رواں اکتیس منصوبوں کے لیے محض 4.8راب مختص کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ تعلیم وتحقیق کے ساتھ عام آدمی کی صحت کاآج بھی بجٹ میں ثانوی درجہ ہے ۔حالانکہ ساری دنیا میں تعلیم وتحقیق کے لیے خطیر رقوم رکھنے کامقابلہ ہے ۔عام آدمی کی صحت کوبھی اولیت دی جاتی ہے مگر پاکستان میں اِ ن دونوں شعبوں کو بُری طرح نظرانداز کردیا جاتا ہے ۔اسی لیے ملک میں تعلیم وصحت کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے ۔اِس حولے سے حکومت کو بجٹ پرنظرثانی کرنے کی ضرورت ہے تعلیم و تحقیق اور بہترصحت کے بغیر ملک سے غربت وپس ماندگی ختم کرنے کامقصدحاصل نہیں کیا جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔