میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
فرضیت رمضان اور اس کی حکمتیں

فرضیت رمضان اور اس کی حکمتیں

ویب ڈیسک
جمعه, ۲۶ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں

مولانا ندیم الرشید
رمضان آخرت کے سفر میں شاہراہ حیات پر زندگی کی گاڑی کو سال بھر کا روحانی ایندھن مہیا کرتا ہے۔
رمضان انسان کو صبر کرنا سکھاتا ہے، جس سے زندگی پرسکون ہوجاتی ہے۔ اسی طرح حدیث شریف میں رمضان کو ہمدردی اور درمندی کا مہینہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ فرد کو خود غرضی کے دائرے سے نکال کر امت کا غمخوار بناتا ہے اور سب سے اہم حکمت یہ ہے کہ روزہ انسان میں روح محمد پیدا کرتا ہے۔
روزہ ارکان اسلام کا تیسرا رکن ہے، ایمان لانے یعنی کلمہ طیبہ اور نماز کے بعد فرضیت کا درجہ رکھتا ہے ،قرآن مجید میں اﷲ رب العزت اس کی فرضیت کو یوں بیان کرتے ہیں۔
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی بن جاﺅ۔
دوسری صدی ہجری میں تحویل کعبہ کے واقعے سے کم وبیش دو ہفتے بعد روزہ کی فرضیت کا یہ حکم نازل ہوا اور رمضان المبارک کو ماہ صیام قرار دیا گیا۔ اسی آیت مبارکہ میں خداوند کریم نے رمضان کی حکمت انسان کو پرہیز گار بنانا بیان کیا ہے۔
سال بھر کا ایندھن
جس طرح انسان کوسفر درپیش ہو ،اسے کسی خاص منزل یا ہدف تک پہنچنا ہو، تو یہ سفر اس وقت ہی ممکن ہوسکے گا جب گاڑی مسلسل چلتی رہے اور اسے برابر ایندھن ملتا رہے، اسی طرح انسان بھی شاہراہِ حیات کا مسافر ہے، اس کی منزل آخرت ہے ،دنیا آخرت تک پہنچنے کا راستہ ہے۔ دنیا سے گزرکر آخرت تک پہنچنے کے لیے ہماری گاڑی کو ایندھن کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔
رمضان کا مہینہ آخرت کے سفر میں آنے والا وہ پڑاﺅ ہے جہاں زندگی کی گاڑی ایک سال کا سفر طے کرکے پہنچتی ہے، اپنی روح کی گاڑی میں بیٹھ کر جب ہم رمضان کے پڑاﺅ تک پہنچتے ہیں تو ہماری گاڑی کا بہت سارا ”کام“ نکل آتا ہے، اسے سروس کی بھی ضرورت ہوتی ہے، خراب پرزوں کی دیکھ بھال اور ”مین ٹیننس“ کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔اس کے علاوہ اگلے پڑاﺅ تک سفر جاری رکھنے کے لیے سال بھر کا ایندھن بھی چاہیے ہوتا ہے۔ چنانچہ ”رمضان سرائے“ میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں یہ تمام سفری ضروریات مہیا کردی جاتی ہےں، یوں ہماری زیست کی گاڑی ایک مرتبہ پھر سال بھر کا روحانی ایندھن لے کر سفر آخرت کی طرف رواں دواں ہوجاتی ہے۔
رمضان کی حکمتیں
رمضان کے مقدس مہینے میں باری تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے ایک ماہ کا تربیتی کورس منعقد کرتے ہیں، اس کورس کو باقاعدہ طورپر اور پورے نظم وضبط کے ساتھ چلایا جاتا ہے ۔ایک ماہ کی ٹریننگ میں زندگی کے ”چلتے ہوئے معمولات“ کوتبدیل کردیا جاتا ہے حتیٰ کہ کھانے، پینے، سونے، جاگنے، آرام کرنے اور عبادت کے لیے بندوں کو اپنا پورا نظام الاوقات تبدیل کرنا پڑتا ہے، اس کورس میں یا تربیتی سیشن میں ،جن اہم امور کی مشق کروائی جاتی ہے وہ کچھ اس طرح ہیں۔
صبر
حدیث شریف میں ماہ صیام کو ماہ صبر قرار دیا گیا ہے، رمضان صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ صبر کا معنی ہے رکنا، جب آدمی اﷲ کے لیے سارا دن کھانے پینے اور لغویات سے رکتا ہے تو اس کے اندر اﷲ تعالیٰ کے لیے لوگوں کی باتیں برداشت کرنے، انہیں معاف کرنے اور ان کے ساتھ خیر خواہی کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ صبر کی قوت مل جانے سے زندگی پرسکون ہوجاتی ہے۔ انسان کے مزاج میں نرمی آجاتی ہے، اجتماعی اور انفرادی امورِ حیات کو سلیقے کے ساتھ نبھانے کا ملکہ پیدا ہوجاتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان کو اﷲ تعالیٰ کا ساتھ نصیب ہوجاتا ہے۔
جیسا کہ ارشاد روانی ہے ترجمہ: صبر کرو بے شک اﷲ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
احساس اور درد مندی
حدیث شریف میں ہے ”رمضان غمخواری کا مہینہ ہے روزے کے ذریعے انسانی نفس کو ”احساس“ کی تربیت بھی کروائی جاتی ہے۔ درد مندی کا سبق بھی یاد کروایا جاتا ہے ،اپنی بھوک اور پیاس انسان کو دوسروں کی بھوک اور پیاس سے آشنا کراتی ہے اور روزے دار کو دنیا کے رنگین دھوکے سے نکال کر ایک خالص حقیقت کا مشاہدہ کرواتی ہے، جس سے انسان کے دل کا زنگ اترتا ہے اور وہ اپنی ذات کے حصار کو توڑکر امت کے وجود کا حصہ بن جاتا ہے اور پھر امت کے جسم میں کہیں بھی تکلیف ہو، وہ اسے اپنی تکلیف محسوس کرتا ہے، امت کا درد اسے بھی بے چین کردیتا ہے اور امت کا غم اسے بھی نڈھال کردیتا ہے۔ اسی طرح روزہ فرد کا تعلق پوری امت کے ساتھ جوڑتا ہے اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے دکھ درد کا ساتھی بناتا ہے۔
شیطان سے مقابلے کی تربیت
انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان ہے اور ایسا دشمن ہے جو کبھی بھی ہتیھار ڈال کر نہیں بیٹھتا بلکہ ہر لمحہ مرتے دم تک اپنے داﺅ پیج کھیلتا رہتا ہے اس کی دو چالیں ایسی ہیں جو انتہائی خطرناک ہیں، قرآن پاک میں اﷲ تبارک وتعالیٰ نے بھی ان کا ذکر کیا ہے۔ ”شیطان تمہیں بھوک کا خوف دلاتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے۔“ روزہ انسان کے دل سے بھوک کا خوف نکال دیتا ہے اور بے حیائی کا دروازہ بھی بند کردیتا ہے شیطان انسان کے دل میں یہ خیال ڈالتا ہے کہ آج کے دور میں سادگی کے ساتھ زندگی بسر نہیں کی جاسکتی وگرنہ بھوکے مرجاﺅ گے، روزہ اس بات کی تربیت کرتا ہے کہ بھوک سے کوئی نہیں مرتا، اﷲ کے نبیﷺ اور صحابہ کرام کے گھر میں کئی کئی دن تک چولہا نہیں جلتا تھا، صحابہ روزے کی حالت میں دشمن کے خلاف جہاد کرتے تھے ،کھانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا تھا تو صرف پانی اور کھجور پر ہی اکتفا کرتے تھے اور پھر بھی صحت مند رہتے تھے۔ آج مغرب کی شیطانی تہذیب زرپرستی کا عادی بنانے کے لیے مسلمانوں کو ڈراتی ہے ۔رپورٹیں شائع ہوتی ہیں، فلاں مسلمان ملک میں اتنے فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اگر خط غربت کومعیار بنایا جائے تو پھر انبیاءکرام میں سے تو کوئی بھی اس کے معیار پر پورا نہیں اترتا ،سبھی کی زندگی خط غربت سے نیچے دکھائی دے گی۔ ”غریب ہونا“ کوئی بری بات نہیں اپنے ہاتھ سے روزی کمانے والا تو اﷲ تعالیٰ کا دوست ہے ،لیکن بے حیا ہونا بہت بری بات ہے۔ قرآن پاک میں بے حیائی پھیلانے والوں کی سزا بیان کی گئی ہے۔ آج طاغوتی قوتوں نے شیطانی منصوبے کے تحت پوری دنیا کو بھوک کے خوف میں مبتلا کر رکھا ہے اور بے حیائی کو عام کردیا ہے۔
عالمی بینک غربت کے خاتمے کے نام پر سربراہان مملکت کو قرض دیتا ہے اور انہیں اپنے اپنے ممالک میں بے حیائی کے فروغ کے ساتھ مشروط کرتا ہے۔ مغربی ممالک کی این جی اوز غریب ملکوں میں غریبوں کی امداد اور فلاحی منصوبوں کی آڑ میں فحاشی کے منصوبوں کو پایہ¿ تکمیل تک پہنچاتی ہیں اور روشن خیالی کا نعرہ لگواتی ہیں۔
غریب ہونا، کم کھانا یا بھوکا رہنا کوئی بری یا عیب کی بات نہیں ہے، اسے برا سمجھنا شیطانی دھوکہ ہے معروف کتاب ”The World Until Yesterday“ میں تہذیب جدید ہی کے ایک محقق جیئرڈ ڈائمنڈ نے لکھا ہے ” بھوکارہنے والا آدمی نہیں مرتا بلکہ زیادہ کھانے والا مرتا ہے“ شاعر مشرق نے کہا تھا!
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
اس کے بدن سے روح محمد نکال دو
روزہ ”روح محمد“ پیدا کرنے کا ذریعہ ہے جس کے سامنے شیطان کا کوئی مکر، کوئی فریب، کوئی دجل، کوئی داﺅ، کوئی چال، کوئی جال اور کوئی ہتھیار نہیں چل سکتا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں