میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بھارت میں ہندو بھی محفوظ نہیں

بھارت میں ہندو بھی محفوظ نہیں

ویب ڈیسک
هفته, ۲۴ مئی ۲۰۲۵

شیئر کریں

ریاض احمدچودھری

رکن قومی اسمبلی سنجے پروانی کا کہنا ہے کہ بھارت میں مسلمان اور دیگر اقلتیں تو درکنار شودر ہندو بھی محفوظ نہیں، پاکستان کے ہندو تو شکر کریں کہ وہ بھارت کے مقابلے میں کہیں محفوظ ہیں۔مودی کا بھارت ایسا ہوگا، ہندوؤں نے بھی کبھی سوچا نہیں تھا۔ سیکولر انڈیا اب انتہا پسند انڈیا میں بدل چکا ہے، مودی پہلگام طرز کے فالس فلیگ آپریشن کرنے کا ماہر ہے۔
ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ہے، جعفر ایکسپریس واقعہ دنیا کو یاد ہوگا۔ بھارت نے افغانستان میں جو قونصل خانے کھولے ہوئے تھے وہ ویزے دینے کے لیے نہیں بلکہ دہشتگردی کے لیے تھے۔آج بھارتی فوجی بلبلا رہے ہیں، ہم نے تو ابھی کیا ہی کچھ نہیں اور ہم نے کوئی شہری نہیں مارا بلکہ بھارتی فوجی مارے ہیں۔ ہم نے بھارتی کے فوجی بریگیڈ ہیڈکوارٹر کو اڑایا۔ بھارتی عوام سوچے کہ جب بھی بے جی پی کی حکومت آتی ہے وہاں دہشتگردی کیوں ہوتی ہے، ہم نے بھارتی سندور آپریشن کو تندور بنایا۔بدقسمتی سے ہمارا مقابلہ اس جاہل اور بزدل دشمن سے ہے جس نے ہمارے وجود کو تسلیم نہیں کیا، ہم پوری قوم فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔
بھارت میں اقلیتوں کے خلاف پائی جانے والی انتہا پسندی برسوں سے حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھ رہی ہے۔ پورے ملک میں بدامنی اور بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ چند فرقہ پرست عناصر کو اس کا سیکولر نظام بالکل پسند نہیں ہے اور وہ ساری اقلیتوں کو اپنے اندر جذب کرنے یا ان کا صفایا کرنے کے لئے نہایت بے تاب نظر آتے ہیں۔بھارت میں ہندو انتہا پسندی نے بربادی پھیلا رکھی ہے۔ نہ مسلمان محفوظ نہ عیسائی محفوظ نہ سکھ محفوظ اور نہ نچلی ذات کا ہندو محفوظ۔ ہر عام شہری اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتا ہے۔
دنیا بھر کے آزاد ماہرین اور میڈیا کی رپوٹیں اس بات کی تصدیق کررہی ہیں کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی دنیا کے امن کیلئے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔اپنے آپ کو دنیا بھر میں سیکولر ریاست کے طور پرپیش کرنے والے بھارت میں مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی میں بھارت دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ جہاں گائے کے گوشت کو لے کر اب تک کئی افراد کو بیدردی اور درندگی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔ 1925 سے بھارت میں انتہا پسندی ابتدا ہوئی اسی سال آر ایس ایس (راشٹریہ سیوک سنگھ) کی بنیاد رکھی گئی اس تحریک کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان میں صرف ہندوؤں کا حق ہے۔ ہندوستان میں تہذیب، ثقافت، لباس،رسم ورواج سب کچھ ہندو دھرم کے تناظر میں ہونا چاہئے۔ جو بھی ہندو اپنا دھرم چھوڑ کو مسیحت یا اسلام قبول کر چکا ہے اس کو گھر واپس لایا جائے گا۔اس تحریک کو شہرت اس وقت ملی جب 30 جنوری 1948 کو اسی تنظیم کے کچھ ارکان نے مہاتما گاندھی کے سیکولر بھارت کو مسترد کر کے گاندھی کو قتل کر دیا۔ گاندھی کے قتل کے جرم میں نتھو رام گوڈسے کو سزائے موت ہوئی۔ گوڈسے کا تعلق آر ایس ایس سے تھا۔ اس واقعے کے بعدآر ایس ایس پر پاپندی لگ گئی لیکن آر ایس ایس کے نظریات نے بہت سی انتہا پسند تنظیموں کو جنم دیا جن میں وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل، راشٹریہ سیوک سنگھ، ہندو سویام سیوک سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی قابل ذکر ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی 1951 میں بھارتیہ جانا سنگھ کے نام سے وجود میں آئی۔ جو 1977 میں جنتا پارٹی بن گئی۔ اسی طرح وشوا ہندو پریشد کا آغاز 1964 میں ہوا انتہا پسند بجرنگ دل دراصل اسی جماعت کا طلبہ ونگ ہے۔ یہ تمام انتہا پسند اور شدت پسند تنظیمیں سنگھ پریوار (ایک خاندان) کہلاتی ہیں جو آر ایس ایس کا حصہ ہیں اور آج کل حکومت میں شامل ہیں۔نومبر 1984 میں تقریبا 3000 کے قریب سکھوں کو قتل کر دیا گیا۔ ان واقعات کے بعد ایک ملین کے قریب سکھ ہندوستان چھوڑ کر یورپ، برطانیہ، کینڈا اور امریکہ آباد ہوگئے۔ وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل،شیو سینا اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے مل کر بابری مسجد کے خلاف تحریک چلائی اور اسے مسمار دیا اور اس کی جگہ پر رام مندر بنانے کا اعلان کر دیا۔ اس دوران تقریبا 1200 مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ 2002 میں گجرات میں ایک ٹرین سازش کی گئی جس میں چند ہندؤں کو جلانے کے الزام میں تقریبا ایک ہزار مسلمانوں کا قتل کر دیا گیا زیادہ تر کو زندہ جلا دیا گیا۔ اس وقت گجرات کے وزیراعلی آج کے وزیراعظم نریندر مودی تھے۔ہندو انتہا پسندوں کا حدف صرف مسلمان اور سکھ نہیں نچلی ذات کے ہندو اور مسیحی بھی نشانے پر ہیں۔ مدھیہ پردیش، کیرالہ، کرناٹکہ، اوڑیسہ، گجرات میں مسیحیوں پر زندگی تنگ کی جارہی ہے۔ وشواہندو پریشد کے غنڈے مسیحی آبادیوں پر حملے کر رہے ہیں اور چرچ اور مسیحیوں کی املاک کو تباہ کر رہے ہیں مگر ان کو روکنے والا کوئی نہیں۔ 2014 میں عین کرسمس کے دن کھرگون، کھنڈوا اور ہرہانپور کے مسیحیوں پر منظم حملے کئے گئے۔ کشمیری مسلمانوں کا قتل عام ساری دنیا دیکھ رہی ہے مگر پوری دنیا کے ممالک نے آنکھیں بند کیں ہیں۔
امریکی ادارہ برائے مذہبی آزادی کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر منظم انداز میں حملے کیے جاتے ہیں۔ بھارت میں 1947ء سے لے کر اب تک 50 ہزار مساجد، 20 ہزار سے زائد چرچ اور دیگر عبادت گاہیں انتہا پسندوں کی نفرت کا نشانہ بن چکی ہیں۔ وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل اور راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملوں میں پیش پیش ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بھارت میں حلال جہاد، گاؤ رکھشا، بلڈوزر پالیسی، شہریت اور حجاب بندی جیسے قوانین کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ مذہب تبدیلی سے متعلق قوانین کو ہندوؤں اور بدھ مذہب کی پیروکاروں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں