
جنگ بندی پائیدار نہیں ہے!
شیئر کریں
88؍ گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ناقابلِ یقین کشیدگی کے بعد جس میں دونوں ممالک کے عوام کو 21ویں صدی میں ایک جدید جنگ کی خوفناک جھلک دکھائی دی،
امریکہ کی کوششوں سے ہونے والی جنگ بندی پر نہ صرف یہ کہ عمل جاری ہے بلکہ اس خوفناک کشیدگی کے بعد گزشتہ روز پاکستان اور بھارت کے درمیان 2 روز قبل ہونے والی جنگ بندی کے بعد ڈی جی ایم اوز کے درمیان ہونے والے پہلے ہاٹ لائن رابطے میں پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن (ڈی جی ایم او) میجر جنرل کاشف عبداللہ اور بھارتی ہم منصب لیفٹیننٹ جنرل راجیو گھئی نے جنگ بندی کو برقرار رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق رابطے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان اعلان کردہ جنگ بندی سے متعلق اہم امور پر غور کیا گیا۔
دونوں کے درمیان جنگ بندی برقرار رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ دونوں جانب سے یہ فیصلہ کیاگیا کہ اب دونوں جانب سے فائرنگ نہیں ہوگی اور شہری آبادی کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔
تاہم اس پیشرفت کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بندی کی پائیداری کے بارے میں پوری دنیا میں شکوک وشبہات کا اظہار کیا جارہا ہے کیونکہ جنگ بندی معاہدے میں جنگ کا سبب بننے والے بھارت کے یکطرفہ اقدامات واپس لینے کی کوئی بات نہیں کی گئی اور باہمی تنازعات بات چیت کے ذریعے طے کرنے کیلئے دونوں ملکوں کے رہنماؤں کی کسی غیر جانبدار مقام پر ملاقات کو بھی عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا ہے۔
امریکہ کی جانب سے کرائی جانے والی اس جنگ بندی کے بارے میں یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ یہ جنگ بندی بھارت کے وزیراعظم نریندرا مودی کی درخواست پر کرائی گئی،اور امریکہ نے جو پاکستان کا اہم تجارتی پارٹنر ہے جنگ بندی قبول نہ کرنے کی صورت میں دیگر طرح کی دھمکیوں کے ساتھ تمام تجارتی روابط ختم کرنے کی دھمکی بھی دیدی تھی،
ان دھمکیوں کی وجہ سے جنگ بندی معاہدے کا تلخ گھونٹ پینے پر مجبور ہونا پڑا۔جہاں تک دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کا تعلق ہے تو یہ بات بھی کھل کر سامنے آچکی ہے کہ بھارتی منصوبہ سازوں نے بہت سوچ بچار کے بعد پاکستان کو جنگ میں پھنسانے کی حکمت عملی تیار کی تھی، اطلاعات کے مطابق بھارت نے پاکستان کو 3 محاذوں پر نقصان پہنچانے کی حکمت عملی تیار کی تھی۔
پہلے مرحلے میں پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا کرنا، دوسرے مرحلے میں معاشی طور پر پاکستان کو کمزور کرنا اور تیسرے مرحلے میں دفاعی طور پر پاکستان کو تباہ کرنا تھا لیکن پاک فوج کی بروقت اور دلیرانہ کارروائیوں نے بھارتی منصوبے کے پرخچے اڑادیے اور بھارت کو تینوں محاذوں پر بری طرح شکست ہوئی۔
پاکستان نے انتہائی کم وقت میں وہ جنگی فتح حاصل کی جس نے پاکستان کو دنیا کے سامنے ناقابل تسخیر بنادیا۔دوسرے مرحلے میں بھارت نے آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں، جی ایس پی پلس کی معطلی اور FATF کی گرے لسٹ میں پاکستان کا نام دوبارہ شامل کرانے کی کوششیں کیں،لیکن بھارت کو اس کوشش میں بھی بری طرح ناکامی ہوئی بلکہ 9 مئی کو آئی ایم ایف نے 2.4 ارب ڈالر کے قرضے، جس میں 1.1 ارب ڈالر EFF اور 1.3 ارب ڈالر کے ماحولیاتی قرضے شامل ہیں، کی منظوری دیدی۔تیسرے مرحلے، جس میں دفاعی طور پر پاکستان کو مفلوج کرنا تھا، پر دنیا نے بھارت کو شکست زدہ، بے بس اور امریکہ سے سیز فائر کی درخواست کرتے دیکھا۔جنگ بندی کے بعد اب بھارت کے ساتھ مذاکرات کا ایک نیا مرحلہ درپیش ہے، جس میں یقینی طور پرآبی وسائل، مسئلہ کشمیر اور دہشت گردی جیسے اہم معاملات زیر بحث آئیں گے۔
صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کردار ادا کرنے کی از خود پیشکش کی ہے، جو یقیناقابلِ تحسین ہے۔ بھارت طویل عرصے سے دو طرفہ تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے سے گریزاں رہا ہے اور کسی تیسرے فریق کی مداخلت کو یہ کہہ کر رد کرتا آیا ہے کہ یہ صرف 2ملکوں کا معاملہ ہے لیکن اس 88 گھنٹے کی جنگ نے ایک دفعہ پھر یہ ثابت کردیاہے کہ یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ جس کو طے کرانے کی ذمہ داری اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے لے رکھی ہے۔
امریکہ کی جانب سے ثالثی کی پیشکش کا مطلب بھی یہی ہے کہ مسئلہ کشمیر بھارت کا اندورنی نہیں کثیرالجہتی مسئلہ ہے،پاکستان دہائیوں سے یہ بات کہتا چلا آرہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو مستقل بنیادوں پر حل کیے بغیر جنوبی ایشیا میں دیرپا امن قائم نہیں ہوسکتا۔
اب امریکی صدر بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ وہ بھارت اور پاکستان کی قیادت کے ساتھ مل کر مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں گے مسئلہ کشمیر کو فرنٹ لائن پر لانے اور پوری دنیا کویہ بتانے کا یہ آئیڈیل وقت ہے کہ مسئلہ کشمیر ہی خطے کا اصل مسئلہ ہے ورنہ بھارت کا فالز فلیگ آپریشن کا سلسلہ جاری رہے گا۔
پاک بھارت جنگ بندی کے بعد اصولی طورپر توقع کی جانی چاہئے کہ مودی جی کا ہندوتوا اور بالادستی کا نظریہ تبدیل ہوگا اور وہ چانکیہ سیاست کی بجائے مخلصانہ اقدامات کرے گا کیونکہ آج کل ملک اکیلے ترقی نہیں کرتے، خطے ترقی کرتے ہیں۔ یورپی یونین اور آسیان ممالک کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کو دبا کر اور اپنی بالادستی قائم کرکے نہیں بلکہ باعزت پارٹنر شپ اور معاشی تعاون سے ترقی کر سکتا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ بھارت سنگا پور بن جائے اور خطے کے دوسرے ممالک پیچھے رہ جائیں یہ خیال ِخام ہے مودی جی اور بھارت کی سمجھ میں جتنی جلد یہ بات آ جائے بہتر ہے۔وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اگر مذاکرات ہوئے تو بھارت سے تین پوائنٹس پر بات ہوگی۔ خواجہ آصف نے کہا کہ مذاکرات کے دوران بھارت سے کشمیر، دہشت گردی اور پانی سے متعلق بات ہوگی۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی گزشتہ 20 یا 30 سال سے ہو رہی ہے، پاکستان دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار ہے۔
خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلیے بھارت اور پاکستان کیلیے یہ سنہری موقع ہے۔وزیر دفاع نے کہا کہ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر بات کر کے ایک اور پیشرفت کی ہے، ٹرمپ نے خود کہا ہے کہ کشمیر کا معاملہ بھی زیرِ بحث آنا چاہیے،خواجہ آصف کا یہ کہنا اپنی جگہ درست ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کے تصفئے کیلئے ہونے والی کسی بھی بات چیت میں کشمیر،طاس سندھ معاہدہ سرفہرست ہوں گے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ بات چیت کب اور کیسے ہوگی،جنگ بندی معاہدے میں دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کی شق بھی شامل تھی لیکن ایسا معلوم ہوتاہے کہ بھارت ایک دفعہ پھر مذاکرات سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کررہاہے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی معاہدوں کی تاریخ طویل اور پیچیدہ ہے۔ یہ جنگ بندی، خاص طور پر کنٹرول لائن (ایل او سی) پر وقفے وقفے سے طے پاتے رہے ہیں مگر بھارت کی طرف سے اْن کی خلاف ورزی بھی ایک معمول رہی ہے۔ ان حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس جنگ بندی کے حوالے سے بھارت پر اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ یا کیا اِس جنگ بندی سے خطے میں دیرپا اور پائیدار امن کی سبیل نکل سکتی ہے؟اور دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات بشمول کشمیر کا حل ڈھونڈا جا سکتا ہے؟
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو 1947، 1965، اور 1971 کی جنگوں کے بعد جنگ بندی کے جو معاہدے ہوئے اْن میں بھارت کی جانب سے وقفے وقفے سے خلاف ورزیاں دیکھنے کو ملی ہیں۔ خاص طور پر مقبوضہ کشمیر کی صورت حال، وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، اور کنٹرول لائن پر بلا اشتعال فائرنگ کے واقعات نے بھارت کی نیت پر ہمیشہ سوالات اْٹھائے ہیں۔
بھارت کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی پاسداری کے حوالے سے عدم اعتماد کی ایک بڑی وجہ اْس کادوہرا معیار ہے۔ ایک جانب وہ مذاکرات اور امن کی بات کرتا ہے تو دوسری طرف اْس کے عسکری اقدامات، خاص طور پر سرحدی خلاف ورزیاں بھارت کے دعوؤں کی نفی کرتے ہیں۔
دوسری بڑی وجہ بھارت کی سیاست میں پاکستان کارڈ کا استعمال ہے۔ اکثر اندرونی سیاسی دباؤ یا انتخابات کے دوران بھارت کی حکومتیں سرحد پر کشیدگی کو ہوا دیتی ہیں اور اِس کو سیاسی حربے کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔
جنگ بندی پر اعتبار تب ہی ممکن ہے یا جنگ بندی اسی صورت میں موثر ہو سکتی ہے جب بھارت اپنی پالیسیوں میں تسلسل لائے کنٹرول، لائن پر غیرجانبدار مانیٹرنگ سسٹم قائم ہو، اِنسانی حقوق کی پامالیوں کا خاتمہ ہو اور سب سے بڑھ کر کشمیر سمیت تمام بنیادی تنازعات پرمخلصانہ بات چیت کا آغاز ہو۔
اِس کے علاوہ بھارت کو علاقائی امن کے لیے بھی ہمسایہ ممالک سے اچھا رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ اقدامات نہیں کیے جاتے تو جنگ بندی کا اعلان یا معاہدہ محض دکھاو ہی ثابت ہوگااور بھارتی حکومت اس جنگ بندی کو اگلی جنگ تک ایک تزویراتی وقفہ تصور کرے گی ۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان کیلئے اب یہ ضروری ہے کہ جنگ میں حاصل کی گئی کامیابی کو سیاسی میدان میں کامیابی کی بنیاد بنایا جائے۔ میدانِ جنگ میں ہم نے بہادری، قربانی اور حکمتِ عملی سے خود کو برتر ثابت کر دیا ہے لیکن سیاسی میدان میں اگر تدبر، سوجھ بوجھ، حکمت عملی اور موثر سفارت کاری نہ ہوسکی تو سب رائیگاں جائے گا اورہمیں چند ماہ میں دوبارہ پلوامہ یا پہلگام کا سامنا ہو گا۔
بین الاقوامی برادری کو اب یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ بھارت کی طرف سے بار بار کی جانے والی شرپسندی کے پیچھے ایک بڑی اور اہم وجہ یہ ہے کہ جموں و کشمیر پر اس نے غیر قانونی قبضہ کیا ہوا ہے جسے پاکستان کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرے گا، لہٰذا اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس مسئلے کو حل کرانے اور اس کے ذریعے پوری دنیا کا مستقبل محفوظ بنانے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
مذاکرات کیلئے امریکہ اور چین کا بہت اہم رول ہو سکتا ہے۔۔ تاہم حالیہ جنگ میں شکست اور اس کے بعد امریکہ، ترکیہ، سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات، قطر، ایران اور اقوام متحدہ جیسے اہم ممالک کی مداخلت کے باعث اب مودی حکومت کے لیے مذاکرات سے بچنا آسان نظر نہیں آتا۔
دوسری جانب، پاکستان نے جنگ میں اپنی برتری ثابت کی ہے، جس کے نتیجے میں اسے عالمی برادری کے سامنے اپنے مؤقف کو مؤثر طریقے سے پیش کرنے کا بہتر موقع حاصل ہے۔ امریکی حکومت اور دیگر دوست ممالک بھی پاک بھارت تنازعات کے منصفانہ حل کے لیے کردار ادا کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس پس منظر میں یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اگر پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت دانشمندی سے کام لے، تو طاسِ سندھ معاہدے، مسئلہ کشمیر اور بھارت کی پشت پناہی سے ہونے والی دہشت گردی جیسے اہم مسائل کا منصفانہ حل نکالا جا سکتا ہے۔
دونوں ممالک نے ‘غیر جانبدار مقام پر وسیع مسائل پر بات چیت شروع کرنے ’پر اتفاق کیا ہے۔ اہم یہ ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کے اپنے پرانے مؤقف ‘جب تک کہ پاکستان دہشت گردی کی حمایت ختم نہیں کرتا، مذاکرات نہیں ہوں گے’ سے دستبردار ہوگیا ہے۔
جیسا کہ عام طور پر بھارت اور پاکستان کے درمیان ہوتا ہے، دونوں ہی اپنی جیت کے دعویٰ کریں گے لیکن یہ واضح ہے کہ صرف ایک فریق مذاکرات پر اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹا ہے جبکہ اسلام آباد تو نئی دہلی سے بارہا مذاکرات کی میز پر آنے کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔
اگر بھارت پیچھے نہیں ہٹتا اور واقعی میں بات چیت ہوتی ہے تو اس میں برصغیر کے اُن کروڑوں لوگوں کی جیت ہوگی جو سطح غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ امید ہے کہ خطرناک جنگ کا خطرہ ٹل گیا ہے اور شاید جوہری نہج سے نیچے روایتی طاقت کا نیا قائم کردہ توازن مستقبل میں تنازعات کو روکے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔